۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
جبری گمشدہ کی آپ بیتی

حوزہ/ یہ کہانی ہے اس دن کی جب عید کے دن میں خوشیاں منا رہا تھا،میرے بیوی بچے ماں سب خوشیوں میں مصروف تھے،مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہوئے اچانک دروازے کی دستک نے مجھے دروازے کی جانب متوجہ کیا.میں مہمانوں سے معزرت کر کہ اس کی جانب اٹھا،باہر گیا تو دیکھا میرے استقبال میں 35-40 افراد آئے تھے۔

تحریر: مشکِ زہراء

حوزہ نیوز ایجنسی। زندان کے اندھیرے میں میری سوچ کا پرندہ اڑتا ہوا مجھے اس دن کی یاد میں لے گیا جب پہلی بار وطن کی محبت میں بے جرم وخطاء مجھے وطن کے رکھوالے اپنے ساتھ لے آئے..
یہ کہانی ہے اس دن کی جب عید کے دن میں خوشیاں منا رہا تھا،میرے بیوی بچے ماں سب خوشیوں میں مصروف تھے،مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہوئے اچانک دروازے کی دستک نے مجھے دروازے کی جانب متوجہ کیا.میں مہمانوں سے معزرت کر کہ اس کی جانب اٹھا،باہر گیا تو دیکھا میرے استقبال میں 35-40 افراد آئے تھے سفید لباس و وطن کی رکھوالی کی وردی میں میرے استقبال کے لیے وہ ہتھ کڑی و سیاہ پٹی لائے ..اور ساتھ پھولوں کی جگہ 5,6 تھپڑ رسید کر کہ چمکتی سیاہ شیشوں والی گاڑی میں ڈال کر مجھے لے جایا گیا۔
میرے گاوں کے لوگ دن دہاڑے عید کے دن یہ منظر دیکھ کر بے سدھ ٹھہر گئے۔میرے بچے بوڑھے والدین اور میری بیوی عید کے دن وطن عزیز پاکستان کے رکھوالوں سے عیدی وصول کر چکے تھے۔

پھر منظر بدلا  
اور گاڑی تقریبا 200-250 کلو میٹر  آگے جانے کے بعد  اک مقام پہ رکی۔
وہاں مجھے گاڑی سے اتارا گیا اور دو بندوں نے مجھے پکڑ کر اتارا۔اچانک یوں لگا جیسے استقبال کے لیے ٹھہرے ہوئے  قوم کے محافظ میرے انتظار میں تھے کہ جوں ہی میں آوں تو میرا استقبال تھپڑوں اور گھونسوں سے کیا جائے.پھر گھسیٹ کر اندر لے جایا گیا اور اک کمرے میں بٹھا دیا گیا وہاں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مجھے محسوس ہوا۔
سامنے کرسی پہ بٹھا دیا گیا 
اور سوالات کی بوچھاڑ ہوئی۔
نام بتاو اپنا۔؟
میں نے نام بتایا

والد کا نام۔؟
کیا کرتے ہو۔ ؟
وغیرہ.....
سب جوابات دینے کے بعد میرے پاوں اٹھا کر اک بینچ پہ رکھے گئے۔اور پاوں کے تلوں پہ مہمان نوازی کے طور پہ مارا گیا.جیسے سامنے انسان نہیں کسی جانور سے ایسا سلوک کیا جا رہا ہو.
پھر بیرک میں لے جا کر کھڑے رہنے کا حکم دے دیا گیا.حکم کی تعمیل میں پاوں کی تکلیف کے باوجود ٹھہرنا پڑا۔اس تکلیف میں اک سوال میرے زہن میں گردش کرنے لگا....!!!

آخر یہ میرے ساتھ  کیوں ہو رہا ہے؟
میرا جرم کیا ہے؟

کچھ ہی دیر بعد مجھے جواب ملنے والا تھا سو اچانک بیرک کا دروازہ کھلا اور مجھے لے جایا گیا ۔آنکھ پہ پٹی ہاتھ میں ہتھ کڑی سمیت مجھے اک جگہ کرسی پہ بٹھایا گیا اور پھر میری دونوں رانوں پہ اندھا دھن  راڈ مارے گئے کچھ اس طرح کہ ران سے خون رسنے لگا 
اور پہلا سوال اس کمرے میں گونجا.

بتاو پاکستان  میں حزب اللہ  کیوں  بنائی گئی ہے۔؟

میں نے  اس تکلیف و کرب میں کہا :
نہیں بنائی گئی
پھر طیش میں آکر کہا :

ایسا کیسے ہو سکتا ہے تم مسئول  رہے ہو اور تمہارے قائد نے آپریشن ضرب عضب کے دوران بیان دیا کہ اگر آرمی دشمن کے خلاف لڑتی یے تو میں ۱ لاکھ جوان دونگا تاکہ وہ پاک آرمی کے ساتھ مل کر اس وطن سے دشمن کو نکال باہر پھینکیں۔

تو اب بتاو کہ وہ 

۱لاکھ جوان کہاں ہیں۔؟

میں نے کہا مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو.؟
جب کہ بیان انھوں نے دیا میں تو یہاں تھا ہی نہیں۔

میں اک دینی طالب عللم ہوں اور ملک سے باہر مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہوں۔

پھر وہ چیخے اور کہا :

بھکر حملے میں کون کون ملوث تھا.؟

میں نے پھر وہی بات دہرائی کہ مجھے کیا معلوم پھر میرے سامنے اک ویڈیو چلائی گئی جس کو میں فقط سن پا رہا تھا۔

جس میں قائد کے الفاظ تھے کہ ہم اپنے جوانوں کو  حوزہ علمیہ قم کے اندر تر بصیرت و تر ولایت کورس کروا رہے ہیں جو ایران نے حزب اللہ لبنان کے لیے بنایا اور ان شااللہ ماہ رمضان میں وہی جوان یہاں آئیں گے اور ہم تربیتی سلسلہ شروع کریں گے۔

اب یہاں مجھے سمجھ آئی کہ یہ لوگ اصل میں طرح بصیرت و طرح ولایت سے آگاہ نہیں انھوں نے ان کورسز کو عسکری تربیت سے جوڑ رکھا ہے۔

میں نے پھر کہا : یہ کورس احکام , اخلاق ,عقائد ,  نظام حکومت اسلامی  کے حوالے سے ہیں۔ 

پھر پلاسٹک کی نالی کو میرے ٹخنے اور گھٹنے سے باندھ دیا گیا تاکہ گردش خون رک جائے۔
اور پھر رولر کو پھیرا گیا جس سے ظاہری جسم پہ زخم واضح نہیں ہوتے بلکہ اندرونی طور پہ گوشت پہ اثر پڑتا ہے۔

اور پھراسی طرح کے شکنجے مجھے مسلسل دیے جانے لگے۔
اور بار بار وہی سوالات دہرائے جاتے۔
اور میرا انکو کہنا کہ مجھے نہیں معلوم انھیں طیش دلاتا اور وہ مجھے دردناک اذیت دیتے.شب و روز اسی تکلیف و اذیت میں گزرے۔روزانہ رات کو ڈیوٹیاں تبدیل ہوتیں۔
اور مختلف شکنجے دیے جاتے۔
منہ میں چونا ڈال کر الٹا لٹکا دیا جاتا۔
آنکھ کے تین فٹ کے فاصلے پہ اذیت دینے والی روشنی جلا کر رکھتے۔
پوری رات سونے نا دینا۔

مجھے اک رکھوالے نے کہا ہمیں حکم ہے رات بھر تمہاری دردناک 50 چیخیں نکلنی چاہیے۔اس لیے میں تمہیں مارتا نہیں ہوں،تم 50 دردناک چیخیں نکالو۔
ان سب کرب میں گزرنے کے باوجود میں اس بیرک کے اندر اندھیرے میں سوچتا رہتا۔مجھے وہ لمحے یاد آتے جب 
میں ایران کی سرزمین پہ دین کی تعلیم حاصل کرنے گیا ہونہار طالب علم ہونے کی وجہ سے میری اساتذہ و دیگر لوگوں سے اچھی بنتی تھی۔
اک بار رفیق شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی مرحوم اعجاز علی شاہ کے توسط سے مجھے مقام معظم رہبری کی ملاقات کا شرف ملا۔ہم 5 پاکستانی 6 بحرینی طلاب مقام معظم رہبری سے ملاقات کے پہنچے۔جوں ہی ہم رہبر کی ملاقات کو پہنچے میں 5 نمبر پہ قطار میں ٹھہرا تھا،رہبر مجھ تک جب ملنے آئے میں نے سلام کیا۔

انھوں نے پوچھا خیریت سے ہو؟

میں نے کہا: جی الحمداللہ 

 رہبر نے کہا : میرے لائق کوئی حکم ؟؟

میں نے کہا: جی دو گزارشات ہیں

۱- میرے لیے دعا شہادت کریں

انھوں نے کہا:
 آپ کو شوق شہادت ہے ؟

میں نے کہا: جی ہاں....

انہوں نے کہا :خدا آپ کی حفاظت کرے۔

۲- وعدہ کریں آپ میری شفاعت کرینگے

انہوں نےکہا : امام زمان عج ہماری شفاعت کریں گے۔
میں نے کہا : خدا نے اگر اپکو شفاعت کا حق دیا تو میری شفاعت آپ کیجیے گا۔
انہوں نےکہا :ٹھیک ہے میں کرونگا اگر خدا نے کچھ عطا کیا میں اس خیال سے نکلااورسوچا یہ لوگ جتنی تکلیف و اذیت دے دیں یہ مجھے مار نہیں سکتے کیونکہ رہبر نے حفاظت کی دعا دی تھی.میرا دل اس تکلیف میں بھی پرسکون ہو گیاکہ آخر کار کیا ہوگا ہم شہادت کو پہنچ ہی جائیں گے۔

جاری ہے...

تبصرہ ارسال

You are replying to: .