تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے قیام میں شیعوں نے دامے درمے درہمے سخنے ہر لحاظ سے بنیادی کردار ادا کیا، محمود آباد ریاست نے تین سال تک پورے ملک کی کفالت کی۔ لیکن یہ بھی اس ملک کی تاریخ رہی کہ اقتدار ملتے ہی حکمراں طبقے نے نمک حرامی، طوطا چشمی، احسان فراموشی اور محسن کشی کی تمام حدوں کو پار کر دیا۔ جس ملت کے ٹکڑوں پر یہ پلے وہی قوم مظلوم ہو گئی بلکہ زندگی جینے کے اپنے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہو گئی۔
یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ یہاں کے حکمرانوں نے اپنی حکومت کی بنیاد شیعوں کے خون ناحق پر رکھی، نہ جانے کتنے عزاخانوں کو دہشت گردانہ حملوں سے ختم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، یہاں عزاداری کے جلوسوں پر حملے ہونا کوئی نئی بات نہیں، نہتے زائرین کو جلا کر شہید کر دینا انکا کوئی پہلا تجربہ نہیں۔ شہید عالی مقام علامہ سید عارف حسین حسینی رحمۃ اللّٰہ علیہ، علامہ سید حسن ترابی رحمۃ اللہ علیہ ، ڈاکٹر سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ غلام حسین نجفی رحمۃ اللہ علیہ سمیت نہ جانے کتنے علماء، دانشور، مفکرین، خطباء، شعراء ، نوحہ خواں، ماتمی اور نمازی شہید کر دئیے گئے۔
اب ان بزدلوں نے اپنی داستان ظلم کے قلم کو کروٹ دی کہ کھلم کھلا قتل اور علی الاعلان دہشت گردانہ حملوں سے پورے نظام کا اعتبار دنیا کے سامنے زیر سوال آتا ہے لہذا ہارونیت کو چھوڑ کر مامونیت کو رواج دیا تا کہ اب بے گناہوں کے قتل اور بے خطاوں کے اسارت سے اپنے دامن کو بچا لیں۔ اسی مامونیت کا نام ہے "شیعہ مسنگ"
یعنی اب شیعوں کو غائب کیا جا رہا ہے، بوڑھے ماں باپ کی نظریں اپنے جوانوں کو تلاش کر رہی ہیں، خواتین اپنے سہاگ پر اشکبار ہیں، ننھے ننھے بچے یتیموں کی طرح اپنے باپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے اندر انسانیت باقی ہے، آدمیت محفوظ ہے تو سوچیں کہ بوڑھے ماں باپ کو قرار کیسے آئے گا؟ کمسن بچوں کو مائیں کیا کہہ کر بہلائیں؟ کراچی کی اس چلچلاتی دھوپ میں مظلوم 13 دن سے اپنے حق کے لئے دھرنے پر بیٹھے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ مظلوم ملت شیعہ اپنے عزیزوں سے محروم ہے اس سے کہیں زیادہ حکمراں انسانیت، آدمیت اور دین سے محروم ہے جسکے نتیجہ میں اسلام آباد میں رہ کر پوری دنیا کی خبر رکھنے والے کو کراچی میں دھرنے پر بیٹھے مظلوموں کی خبر نہیں۔
اس سے زیادہ حیرت خیز بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں نجس العین جانور مر جانے پر شور مچانے والے اشرف مخلوق انسان پر ہو رہے مظالم پر خاموش ہیں۔
میں سابق کریکیٹر، لاحق حکمراں سے بدگمان نہیں ہوں بس ان کے "مملکت مدینہ" کے مطلب کو تاخیر سے سمجھا وہ جس "مملکت مدینہ" کی رٹ لگاتے ہیں وہ مملکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے بعد کی ہے کہ جس میں خود حضور کے دل کے ٹکڑے اور انکے چاہنے والے اپنے ہی وطن میں غریب ہو گئے تھے، جملہ حقوق سے محروم کر دئیے گئے تھے۔
ہمارا عالم بشریت سے مطالبہ ہے کہ بشریت پر نہ رکنے والے اس سلسلہ ظلم کے خاتمہ کی کوشش کریں۔
بارگاہ معبود میں دعا ہے کہ اس رحمت و برکت کے مہینے میں مظلوموں کو کامیابی اور سربلندی عطا فرمائے۔