۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/ جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانے کی ہے جس سے سات سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہربالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چاہتا ہے اضافہ بھی کردیتاہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہے اور علیم و دانا بھی ہے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی 

حوزہ نیوز ایجنسی کہتے ہیں، ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں کے درمیان خوش و خرم بیٹھا اس  مفہوم پر مشتمل  شعر پڑھ رہا تھا کہ آج دنیا میں مجھ جیساخوش بخت و سعادت مند  کوئی نہیں، کیونکہ جب لوگوں کو طرح طرح کی فکریں لاحق ہیں میں اپنی جگہ بے فکر ہوں ہجوم افکار سے محفوظ ہوں ، دھڑکوں کی یلغار سے بچا ہوا ہوں ۔ اتفاقاً ایک ننگا دھڑنگا فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اس نے اونچی آواز میں اس مفہوم کا شعر پڑھا کہ "اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں"؟ بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی حالت سے آگاہ ہو کر کہا اس کے دامن کو اشرفیوں سے بھر دو کہ میری بادشاہت میں یہ ننگ ہے کہ کوئی یوں اپنی حالت زار بیان کرے اور میری بدنامی ہو ،اسکا دامن بھر دو تاکہ کل سے یہ میری بادشاہت و سلطنت میں میرے کرم اور میری عطا کے قصیدے پڑھے ۔ 
بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا بادشاہ سلامت آپ کیا دامن بھرنے کی بات کرتے ہیں میرے پاس تو دامن ہی نہیں کہ اسے بھرا جائے  بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخشا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر صدا لگائی۔ بادشاہ نے فقیر کی آواز سنی تو اسے بہت غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا ۔
یہ تمثیلی داستان ہم نے اس لئیے عرض کی کہ ماہ مبارک رمضان میں   محض اس کائنات کے بادشاہ نہیں  بلکہ کائنات میں بسنے والے تمام بادشاہوں کے خالق و رب نے ہمارے دامن کو اس مہینہ کی برکتوں سے بھر دیا ہے اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کس طرح اسکا شکر کریں ہم اسکا شکر کریں گے تو ادھر سے عنایت بھی زیادہ ہوگی اور کفران نعمت کریں گے تو توفیقات بھی سلب ہونے جانے کا خطرہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ سب کچھ بہت آسانی سے مل جانے کی وجہ سے ہم اس فقیر کی طرح سب کھو دیں جسے بغیر محنت و ریاضت کے سب مل گیا اور اس نے سب جلدی جلدی ختم کر دیا اور دوبارہ مانگنے پہنچ گیا تو بادشاہ نے جواب دیا کہ اس کی مثال تو چھلنی کی طرح ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔

ماہ مبارک رمضان میں پروردگار نے ہم پر اتنا کرم و لطف کیا ہے کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے عمل پر بڑا اجر رکھا ہے ہم اگر کچھ نہ کریں اور سوبھی جائیں تو ماہ مبارک رمضان میں ہماری سانسوں میں تسبیح کا ثواب ہے انفاسکم فیہ تسبیح نومکم فیہ عبادہ ایسے میں ہمیں دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری مثال اس فقیر کی چھلنی کی طرح نہ ہو جس میں پانی نہ ٹہرتا ہو اور رمضان ختم ہونے کے بعد بھی ہماری حالت ویسی ہی رہ جائے جیسے اس سے پہلے تھی لہذا ہم سب کو شکرپروردگار کے ساتھ کوشش کرنا ہوگی کی توفیقات میں اضافہ ہوتا رہے اور ہم آگے بڑھتے رہیں اس کے لئے۔

جہاں بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہیں اس مہینہ میں غریبوں اور ناداروں کا دھیان رکھنا ضروری ہے* اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خدا ہماری ضرورتوں کو پورا کریں خواہ وہ مادی ہوں یا معنوی تو ہمیں بندگان خدا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی فکر کرنی ہوگی خدا کا شکر ہے۔اس لئے کہ روزہ کے ساتھ ساتھ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہاں قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد رکھنے کی تاکید کی ہے وہیں غریبوں مسکینوں اور فقیروں کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیا ہے وَ اذْكُرُوا بِجُوعِكُمْ وَ عَطَشِكُمْ فِیهِ جُوعَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَ عَطَشَهُ وَ تَصَدَّقُوا عَلَى فُقَرَائِكُمْ وَ مَسَاكِینِكُمْ وَ وَقِّرُوا كِبَارَكُمْ
اس مہینے میں افطار کرانے کا بھی بے حد ثواب ہے چاہے یہ افطار ایک خرمے اور ایک گھونٹ پانی ہی کے برابر کیوں نہ ہو ۔کتنا بہتر ہے کہ ہم افطار کی دعوتوں میں غریبوں اور ناداروں کو فراموش نہ کریں اور اپنے روزوں کی طرح افطار کو بھی نورانی بنائیں أَیُّهَا النَّاسُ مَنْ فَطَّرَ مِنْكُمْ صَائِماً مُؤْمِناً فِی هَذَا الشَّهْرِ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ عِتْقُ نَسَمَةٍ وَ مَغْفِرَةٌ لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ، قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَیْسَ كُلُّنَا یَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ ص اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاء
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کرونا کی وبا اور سخت ترین حالات کے باوجود ہمیں افطاری بھی نصیب ہے سحری میں بھی ہمارے یہاں اچھے پکوان پک رہے  ہیں لیکن سوچیں کتنے ایسے گھر ہیں جہاں نہ افطار میں کچھ بن پاتا ہے نہ سحری میں کچھ پک پاتا ہے انکی نظریں کسی مہربان کے قدموں پر رہتی ہیں جنکی آہٹ پر وہ جیتے ہیں تو کیوں نہ ہم ہی ایسے مہربان بن جائیں کہ کچھ گھر ہمارے قدموں کی آہٹ میں اپنی زندگی کی امید تلاش کریں اور ہمارے لئیے پلوں میں سوکھے ہوئے رندھے ہوئے روزہ دار گلے سے اتنی دعائیں کر دیں کہ ہم نے زندگی بھر بھی اپنے لئیے نہ کی ہوں ۔

اور پھر ہم سے زیادہ اس ماہ میں غریبوں اور ناداروں کے بارے میں کون سوچے گا کہ ہم اس امام کے ماننے والے ہیں جو اپنے آپ کو فقیروں و غریبوں کا امام کہلانا پسند کرتا تھا اسکا اٹھنا بیٹھنا غریبوں کے ساتھ تھا اسکا حشرو نشر بے نواوں کے ساتھ تھا وہ ایسا امام تھا کہ اگر اپنے صحابی کو رنگین دسترخوان پر بیٹھا دیکھ لیتا تو متوجہ کرتا کہ تم کدھر جا رہے ہو علی کے غلاموں کا رنگین دسترخوانوں و مرغن غذاوں سے کیا تعلق وہی امام ہمیں اپنے خطبہ میں نہ صرف غریبوں اور ناداروں کی طرف سے ہوشیار رہنے کی تلقین کرتا ہے بلکہ کمزور حالت میں زندگی گزارنے والے رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کی دعوت دیتے ہوئے ان کی پرسان حالی کی طرف متوجہ کرتا ہے چنانچہ امام علی علیہ السلام نھج البلاغہ کے ۲۳ ویں خطبہ میں فرماتے ہیں : ائے لوگوں  یاد رکھو کہ کوئی شخص کسی قدر بھی صاحب مال و ثروت کیوں نہ ہوجائے ،اپنے قبیلہ اور ان لوگوں کے ہاتھ اور زبان کے ذریعہ دفاع کرنے سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے ۔ حقیقت میں قبیلہ ایک بہت بڑا گروہ ہوتا ہے جو انسان کا بہترین محافظ ہوتا ہے ۔۔۔۔ پروردگار بندہ کے لئے نیک کام اور محبت کے سایہ میں جو ذکر خیر لوگوں کے درمیان قرار دیتا ہے وہ اس مال سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جس کے وارث دوسرے افراد ہوجاتے ہیں ۔(یہ ایک معنوی اور باقی رہنے والی ثروت ہے اور وہ مادی اور فرار ہوجانے والی لاش ہے) ۔۔۔۔آگاہ ہوجائو کہ تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے اقرباء کو محتاج دیکھ کر اس مال سے حاجت برآری کرنے سے گریزنہ کرے، جو مال باقی رہ جائے گا وہ بڑھ نہیں جائے گا اور اگر خرچ کردیا جائے گا تو کم نہیں ہوجائے گا اس لئے کہ جو شخص بھی اپنے عشیرہ اور قبیلہ سے اپنا ہاتھ روک لیتا ہے تواس قبیلہ سے ایک ہاتھ رک جاتا ہے اور وقت پڑنے پر خود اس سے بیشمار ہاتھ رک جاتے ہیں ۔ اور جس کے مزاج میں اپنے خاندان کے لئے تواضع ، انکساری اور نرمی ہوتی ہے وہ قوم کی محبت کو ہمیشہ کے لئے حاصل کرلیتا ہے ۔کیونکہ جو شخص بھی اپنی نیکیوں کو اپنے رشتہ داروں سے قطع کردیتا ہے تو وہ فقط ان کا ایک مددگار کم کرتا ہے لیکن جس وقت خود اس کو ان کی مدد اور شدید ضرورت ہوتی ہے تو وہ سب لوگ اس کی آواز پر لبیک نہیں کہتے ،اس وقت وہ اپنے آپ کو بہت سے مددگاروں سے محروم کرلیتا ہے ۔

امیر کائنات کے اس فرمان کی روشنی میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مبارک مہینہ میں ہم فقیرو محتاج لوگوں تک رسائی حاصل کریں دیکھیں کہ انکی ضرورت کیا ہے تاکہ خدا دیکھے کہ ہم اس کے سامنے کس ضرورت کو لیکر حاضر ہیں یقینا اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو دیکھے تو ضروری ہے کہ ہم ان ہاتھوں کو دیکھیں جو ہماری طرف پھیلے ہوئے ہیں ۔فقیر و محتاج لوگو ں کی حاجت روائی ہمارے ائمہ طاہرین کی سیرت رہی ہے ہرگز ایسا نہ ہو کہ کسی غریب و فقیر انسان کو اپنے پاس دیکھ کر ہمارے ماتھے پر بل آ جائیں اور ہم ناک بھون چڑھائیں اس لئیے کہ جنہیں آج ہم حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہیں ہیں وہی لوگ جنت میں پہنچ کر ہمارے حال پر ہمیں حقارت سے دیکھیں گے اور ہماری جنت کا فیصلہ ہمارے اعمال پر ہوگا جن سے ہمارا دامن خالی ہوگا جبکہ جنت میں انہیں فقراء کی تعداد زیادہ ہوگی جنہیں ہم حقیر سمجھتے رہے اور یہ لوگ اپنے فقر کو مالک کا امتحان سمجھ کر راہ بندگی میں ثابت قدم رہے چنانچہ روایت ہے کہ حضور نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ سلم نے ارشاد فرمایا: میں نے جنت کا مشاہدہ کیا تو میں نے اُس میں اکثریت فقراء کی دیکھی۔
جب کہ اس کے برخلاف دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والے کی جگہ جہنم ہوگی جیسا کہ روایت میں ہے کہ حضرت حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا ہے کہ میں نے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا میں تمہیں اہل جنت کو پہچان نہ بتاؤں؟ ہر کمزور اور حقیر سمجھا جانے والا شخص، اگر اسکا بھروسہ اللہ پر ہوگا اور۔ کیا میں تمہیں دوزخیوں کی پہچان نہ بتاؤں؟ ہر سخت مزاج، جھگڑالو اور مغرور شخص۔    

اس لئیے کے خدا کے نزدیک جس چیز کا اعتبار ہے وہ یہ کہ انسان کس قدر اللہ سے لو لگائے ہے اور کس قدر اس پر توکل کرتا ہے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپکو مال و ثروت کی بنا پر بڑا سمجھتے ہیں اور دوسرے کو اس کی خستہ حالت کی بنا پر کمتر و ضعیف جبکہ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ کبھی کبھی انہیں کمزوروں و ضعیف لوگوں کی بنا پر خدا کی برکتوں کا نزول ہے چنانچہ تاریخ بتاتی ہے ایک صحابی پیغمبر ص  کے دل میں خیال آیا کہ انہیں ان لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یادرکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور ان کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔ 
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ﷲ سبحانہ وتعالیٰ اس امت کی مدد اس امت کے ناتواں اور کمزور افراد کی دعاؤں، نمازوں اور اخلاص کی بدولت کرتا ہے۔

فقیروں ناداروں اور غریب طبقے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا انکے درد و غم میں شریک رہنا ہمارے نبی اور انکے برحق جانشینوں کی سیرت ہے :
ابو امامہ بن سہل بن حنیف نقل کرتے ہیں کہ اطراف مدینہ کے گاؤں میں سے ایک عورت بیمار ہوئی جو مفلس اور نادار تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اصحاب و مطلع لوگوں سے  اُس کا حال دریافت فرماتے رہتے۔ اسکی طبیعت جب  زیادہ خراب ہوئی تو آپ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ اس کی خبر گیری کرتے رہو اگر وہ فوت ہوجائے مجھے مطلع کرنا تاکہ اسکی نماز جنازہ پڑھاوں اتفاق سے اس کا انتقال ہو گیا  لوگ عشاء کے بعد اُسے مدینہ منورہ لائے تو حضور صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کو محو استراحت پایا۔ اصحاب کرام نے خود ہی  نماز جنازہ پڑھ کر اُسے جنت البقیع میں دفن کردیا۔ صبح اصحاب آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے اُس عورت کا حال دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! اسے تو دفن کردیا گیا ہے۔ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے لیکن آپ استراحت فرماتھے۔ ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ یہ سن کر آپ صحابہ کرام کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے۔ اور اصحاب کی نشاندہی پر آپ نے اس کی قبر پر کھڑے ہوکر اس کے لئیے دعاء کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح یہی انداز آپکے جانشینوں کا بھی تھا چاہے وہ امام علی علیہ السلام کی ذات ہو یا امام حسن مجتبی و امام حسین علیہما السلام ہر ایک امام کی زندگی میں فقیروں و ناداروں کی ایک خاص جگہ ملتی ہے امام سجاد علیہ السلام کی زندگی میں ملتا ہے کہ آپ اپنی دولت و ثروت کا زیادہ تر حصہ غریبوں اور مسکینوں مںا تقسیم کردیاکرتے تھے ، آپ کے حالات زندگی میں یہ بات مرقوم ہے کہ آپ راتوں کو بھیس بدل کر غذا اور طعام کے تھیلے نیز درہم و دینار اپنے دوش پر رکھ کر مفلسوں اور حاجتمندوں کے گھر پہونچایا کرتے۔  اکثر اوقات تو کسی کو اپنے ہمراہ مدد کے لئے بھی نہیں لیتے تھے ، آپ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے خدمت گاروں سے مدد لیں اور آپ کا یہ عمل لوگوں میں مشہو رہو اور اس طرح وہ بے چارہ مفلس و حاجتمند اپنے مددگاروں کو پہچان لے اور شرمندہ ہو ۔ آپ کے اس عمل نے مدینہ میں پوشیدہ خیرات کرنے کا طریقہ رائج کردیا ۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ خیرات و صدقہ دینے والا کون ہے ، آپ خود فرماتے ہیں کہ پوشیدہ خیرات سے جہنم کے شعلے بجھ جاتے ہیں ۔

بعض لوگ امام کی گوشہ نشینی کو دیکھتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ آپ حاجتمندوں اور فقراء کی مدد کیوں نہیں کرتے حالانکہ سارا مدینہ جانتا تھا کہ یہاں کوئی مرد نیکوکار ایسا ہے جو شب کی تاریکیوں میں فقراء و مساکین کو ان کے اخراجات اور سامان پہونچایا کرتا ہے ۔ امام نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ خود کو ظاہر کریں اور بتائیں کہ یہ پوشیدہ خیرات و امداد کرنے والے وہ خود ہیں تاکہ جن لوگوں کی مدد کی جارہی ہے وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ فلاں شخص ہماری مدد کررہاہے اور پھر شرمندہ ہوں یا وہ لوگ جو آپ کو ملامت کرتے ہیں وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں ۔ آپ خود فرماتے تھے کہ جب میری آنکھ بند ہو گی تب اہل مدینہ کو معلوم ہوگا کہ یہ کون شخص تھا جو فقراء کی مدد کرتاتھا ۔ ہاں ! آپ کے انتقال کے بعد جب غسل دیا جانے لگا تو آپ کے دوش مبارک پر سیاہ گھٹے کا نشان لوگوں نے دیکھا اور سمجھ گئے کہ فقراء کےآذوقہ کی جو بوریاں آپ اپنے کاندھے پر لے جاتے تھے یہ اسی کا نشان ہے۔اس کے علاوہ فریقین کی معتبر کتابوں میں لکھاہے کہ امام علیہ السلام مدینہ کے سو غریب خانوادے کا آذوقہ فراہم کرتے تھے ۔ 

امام علیہ السلام کی بخشش و خیرات اور غریبوں کی امداد کی عظمت و اہمیت اس وقت اور زیادہ روشن و آشکار ہوگی جب اس وقت کے مدینہ کے حالات کو پیش نظر رکھا جائے گا ، ارباب نظر جانتے ہیں کہ عمال یزید کے وحشیانہ حملے اور لوٹ مار کے بعد اہل مدینہ کے افلاس اور ان کی اقتصادی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی ، ایسے میں کھلے ہاتھ ہر شخص کی مدد کرنا اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے بھلے ہی تم خود پریشان ہو لیکن پریشانی میں بھی فقراء کی مدد اللہ کے نیک بندوں کی ایسی عادت ہے جس میں کوئی تبدیلی کبھی نہیں آتی ۔

فقر و ناداری سے مقابلہ اور اسلامی تعلیمات: 
ایک اہم مشکل جو تاریخ کے طویل دور ميں تمام انسانی معاشروں کو درپیش رہی ہے اور اب بھی موجود ہے ، فقر و تنگدستی اور مال وثروت کی تقسیم ميں عدم مساوات ہے ۔ بہت سے دانشوروں اور عالمی اقتصاد دانوں نے اس  بڑی  سماجی مشکل کے حل کے لئے اپنے اپنے طور پر تجاویز پیش کی  ہیں  ۔
لیکن دین اسلام نے فقر و تنگدستی کےخاتمے کے لئے مختلف راہ حل اور طریقے پیش کئے ہیں کہ جن پر عمل ، فقیر و غنی کے فرق کو ختم کرنے یا کم از کم طبقاتی فاصلوں کے کم ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ جیسا کہ صدر اسلام اور پیغمبر اسلام (ص ) کے زمانے ميں الہی فرمان اور دینی دستورات پر عمل کرنے سے ایسا ہی ہوا ۔ *اگر کوئی معاشرہ ‏گہرائی کےساتھ اسلامی دستورات پر عمل پیرا ہو جائے تو دولت و ثروت کی غیر منصفانہ تقسیم اورفقیر و دولت مند کے درمیان موجود فاصلہ اور مجموعی طور پر معاشی عدم مساوات کا معاشرے سے خاتمہ ہوجائیگا* ۔فقر وتنگدستی کم کرنے کے لئے اسلامی اقدار کے دستورات میں سے ایک انفاق ہے ۔ قرآن مجید نے انفاق کےمسئلے پر بہت تاکید کی ہے اوراس سلسلے میں آيات قرآن بھی زیادہ وارد ہوئي ہیں ۔

خداوند عالم سورۂ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد فرماتا ہے جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانے کی ہے جس سے سات سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہربالی میں سوسو دانےہوں اور خدا جس کے لئے چاہتاہےاضافہ بھی کردیتاہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہےاور علیم ودانا بھی۔ یعنی انفاق کا اجر سات سو گنا ہے اور خداوند عالم جس کے لئے چاہتا ہے اس ميں کئی گنا اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔انفاق کے انسان کی جان ومال پر بہت عظیم اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف مال وثروت میں کمی کا باعث نہیں ہے بلکہ اس میں زیادتی کا بھی سبب ہے ۔ قرآن کی نظر میں خدا کی راہ میں خرچ ہونے والے مال کی مثال اس دانے کی طرح ہے جسے زمین ميں چھڑک دیا جاتا ہے اورایک مدت کے بعد اس میں سات بالیاں نکل آتی ہيں اور ہر بالی میں کم از کم  سو یا اس سے کم دانے نکلتے ہیں۔ شروع میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسان نے جو بیج زمین پر چھڑکے اس نے گویا ان بیجوں کو ضائع کر دیا ہے لیکن کچھ دن صبر اور انتظار کے بعد معلوم ہوجاتا ہےکہ ہر دانے سے تقریبا سات سو دانے نکل آئے ہیں ۔ راہ خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں بھی برکت اور اضافہ اسی طرح سے ہے ۔

پیغمبر اسلام (ص) نے راہ میں خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں اضافے کے بارےمیں بہت خوبصورت اور گہر بار کلمات بیان کئے ہیں آپ فرماتے ہیں جو کوئی بھی صدقے ، انفاق اورمال حلال کے ذریعے   مدد کرے تو خداوند رحمن اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لیتا ہے اگرچہ وہ ایک دانہ خرما ہی ہو ، پھر وہ خرچ کیا ہوا مال خدا کے ہاتھ میں رشد و نمو کرتا ہے اور اس میں اتنا اضافہ کردیتا ہےکہ وہ مال ایک پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے ۔

راہ خدا میں مال کا انفاق کرنا  انتہائی عظمت اور قدروقیمت کا حامل ہے ۔خاص طور پر اس وقت جب یہ عمل خالص نیت اور ایمان کے ساتھ ہو ۔ بعض مفسرین قرآن اس تعبیر اور قرآنی مثال کی اس طرح سے تفسیرکرتے ہيں کہ راہ خدا میں انفاق ، ان اعمال میں سے ہےجو معاشرے اور افراد پر متعدد آثار مرتب کرتے ہیں ۔ در حقیقت یہ عمل نہ صرف خرچ ہونےوالے مال میں اضافے کا باعث ہے بلکہ اس کے دیگر مثبت اثرات بھی ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد ہوتا ہےکہ ایک دانے سے سات سو دانے نکلتے ہیں اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انفاق سے ، مال لینے والے فرد کی زندگی پر جس طرح معنوی و مادی اثر مرتب ہوتا ہے ، صدقہ دینے والے کی زندگی پر بھی اس کا اثر ظاہرہوتا ہے ۔ خدا کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال قبل اس کے کہ ضرورت مند کے لئے مادی فائدے کا حامل ہو معنوی فائدہ بھی کا بھی حامل ہے اور جتنا زیادہ یہ عمل اخلاص اور پاکیزگی کا حامل ہو اس کے مثبت آثار بھی اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہيں ۔

دنیا میں انفاق کرنے والوں کی جزا ، معنوی اور روحانی امن و سلامتی ہے ۔ جو بھی عشق وایمان اور اخلاص کےساتھ الہی وعدوں پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کے فقیر اور محروم طبقے کے لئے تھوڑا سا مال خدا کی راہ میں دے دے تو اسے روحانی لذت اور امن و سکون حاصل ہوتا ہے ۔ انسان کو ایسا کرنے سےایسا قلبی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے جو نوع بشر کی مدد کرنے میں فطرت کےتقاضے کےمطابق ہے ۔ اور معاشرے کے ایک ضرورت مند کی مدد کرنے سے فرد کو ذھنی آرام و سکون حاصل ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں صدقے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور انفاق کرنے والوں کے لئے عظیم اور دائمی اجر و کا وعدہ کیا گیاہے  ۔ انفاق ایک عمل صالح ہے جواگر قرآن کریم کے دستور کے مطابق انجام پاجائے تو اسلامی معاشرے میں انسانی تشخص کونمایاں کرتا ہے اورافراد میں اسلام کے معاشی اقدار اور ثقافت کے زیادہ سے زیادہ اجاگر ہونے کا سبب بنتاہے  ۔اسی طرح اصل میں انفاق ایک دینی قدر ہے جسے قرآن ، خداوند متعال سے عشق اور تقرب کا زینہ قرار دیتا ہے ۔

خدا کی راہ ميں خرچ کرنے کی اہمیت اور قدروقیمت اس حد تک ہےکہ قرآن مجید میں  (80 ) سے زیادہ آیات میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ قرآن جب پرہیزگاروں کے صفات بیان کرتا ہے تو ان کی ایک صفت انفاق کرنا بیان کرتا ہے اور قرآن کی ابتدائی آیات میں خداوند عالم نے انفاق کو متقین کی اہم صفت کے طور پر بیان کیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : صاحبان تقوی اور پرہیزگار وہ ہیں کہ جو کچہ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتےہیں ۔  ( بقرہ -3 )
پرہیزگار افراد ، انفاق کو مال ميں کمی نہيں سمجھتے بلکہ اسے  غنیمت جانتے ہیں لیکن جو افراد قرآنی معارف سے بہرہ مند نہیں ہیں اور وہ دنیا سے بھی لو لگائے ہیں تو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنےکو گھاٹا اور نقصان سمجھتے ہیں۔

دولت اور انفاق کا رابطہ:
ایک عابد تھا جو برسہا برس سے عبادت کیا کرتا تھا ایک دن خواب میں اسے خبر دی گئی کہ خداوند عالم نے تیرے لئے یہ مقدر فرمایا ہےکہ تو آدھی عمر غربت اورفقر میں اوربقیہ عمر خوشحالی اور مالداری میں گذارےگا اب یہ فیصلہ تجھے خود کرناہےکہ تو پہلے فقر کو اختیار کریگا یا دولت مند ہونے کو عابد نے کہا کہ میری زوجہ ایک مومنہ اور نیک عورت ہے پہلے اس سے صلاح مشورہ کرلوں ۔ عورت نے اسے صلاح دی کہ پہلے تم دولت کا انتخاب کرو ۔ وقت گذرنےکےساتھ ساتھ اس مرد عابد کی نعمت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ عورت نے کہا اے مرد ، خدا کا وعدہ حق ہے جس طرح خدا تمہیں نعمت دے رہاہے تم بھی اس کی راہ میں انفاق کرو ۔ اس عابد نے ویسا ہی کیا ، اس کی آدھی عمر گذر گئی اور وہ اس کا منتظر تھا کہ کب فقیر ہوتا ہے لیکن اس کی زندگي میں کوئی فرق نہیں آیا اور خدا کی نعمتوں کا سلسلہ اس پر بدستور جاری رہا۔ اسے خبر دی گئی کہ تونے انفاق کے ذریعے ہمارا شکریہ ادا کیا تو ہم نےبھی تیرے مال میں مزید اضافہ کردیا ۔ مال کا شکریہ انفاق ہے جس طرح سے کہ اس کا انکار  عدم انفاق ہے ۔

فرزند رسول خدا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں " خداوند عالم نے ثروتمندوں کے مال میں فقراء اور نیاز مندوں کے لئے ایک حق مقرر کیا ہے جو ان کے لئے کفایت کرتا ہے یعنی اگر ثروتمند افراد اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو ضرورت مند افراد بے نیاز ہوجائیں گے ۔ اور اگر وہ چیز جو صاحبان ثروتمند پر واجب کی گئی ہے ، وہ فقرا کی ضروریات برطرف کرنے میں ناکافی ہوتی تو خداوند عالم اس میں اور اضافہ کردیتا ۔ ضرورت مندوں کی احتیاج ، قانون الہی میں نقص نہیں ہے بلکہ ثروتمندوں کی جانب سے واجب حقوق کی عدم ادائیگی اس کا سبب ہے کیوں کہ اگر دولت مند اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو کوئی غریب و محتاج نہ رہے گا ۔

ماہ مبارک رمضان اور ائمہ طاہرین کی فقراء کو امداد رسانی: 
یوں تو ہر زمانہ میں ہی فقراء کی امداد رسانی ضروری ہے اور نادار و ضعیف طبقہ کا خیال رکھنا ہر ایک دور میں ضروری و لازم ہے لیکن ماہ مبارک رمضان میں چونکہ ہمارے ہادیان دین کی ایک خاص سیرت غریب و نادار طبقہ کی پرسان حالی رہی ہے اس لئیے ہم پر بھی لازم و ضروری ہے کہ انہیں کی سیرت اور ان کے حیات کے نقوش پر عمل کرتے ہوئے ماہ مبارک رمضان میں ویسا ہی عمل کریں جیسا وہ کرتے تھے۔ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بخشنے والی ذات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تھی اور سب سے زیادہ بخشش آپ ماہ مبارک رمضان میں فرماتے تھے۔ 

ابن عباس ہی سے روایت ہے کہ جیسے ہی ماہ رمضان آتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر اسیر کو آزاد کر دیتے اور ہر فقیر و ضرورت مند کی امداد رسانی کرتےعبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک دن نماز عشاء سے فراغت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی موجودگی میں ایک شخص نے صفوں کے درمیان کھڑے ہو کر فریاد کی ائے مہاجرین و انصار ! میں ایک غریب و فقیر انسان ہوں اور کسی بھی کام کو کرنے کی طاقت میرے اندر نہیں ہے مجھے کچھ دے دو کہ میرا بھلا ہو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا ائے فقیر و غریب انسان تونے اپنی غربت کا ذکر کر کے میرے دل کو اندوہناک کر دیا پھر فرمایا: غریب چار قسم کے ہوتے ہیں ۱۔ وہ مسجد غریب ہے جہاں لوگ جا کر نماز نہ پڑھیں ۲۔ وہ قرآن غریب ہے جسکی تلاوت نہ کی جائے ۳۔ وہ عالم غریب ہے جس سے دینی معاملات نہ پوچھے جائیں وہ اسیر غریب ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے کفار کے درمیان ہو پھر فرمایا: کون ہے جو اس فقیر کو کھانے کے لئیے کچھ دے ؟جو بھی اس کی ضرورت کو پورا کرے گا خدا اسے فردوس بریں میں جگہ دےگا حضرت علی علیہ السلام اٹھے اور سائل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اسے بھر پیٹ کھانا کھلایا جب کہ کھانا اتنا کم تھا کہ کوئی ایک آدمی ہی کھا سکتا تھا اس لئیے کھانا دسترخوان پر لگنے کے بعد امام ع نے چراغ کو بجھا دیا کہ فقیر مہمان کی صورت گھر میں تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ اسے شرمندگی ہو لہذا آپ نے چراغ بجھا دیا تاکہ بغیر شرمندہ ہوئے وہ کھانا کھا لے روایت کہتی ہے کھانا بہت کم تھا لیکن جب وہ مرد فقیر کھا کر اٹھا تو کھانا ویسا کا ویسا ہی تھا یہاں تک کہ اسی کھانے کو آپکے پڑوسیوں نے بھی کھایا لیکن کھانا ختم نہ ہوا۔ 
امام سجاد علیہ السلام کی حیات طیبہ میں ملتا ہے کہ جب ماہ مبارک رمضان آتا تو آپ ہر دن کچھ درہم صدقہ دیتے اور فرماتے کہ امید کرتا ہوں کہ اس کے ذریعہ شب قدر کو درک کر سکوں 

نتیجہ گفتگو : 
الغرض قرآنی تعلیمات ہوں کہ ائمہ طاہرین کی زندگی سے ملنے والے دروس سب ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان میں اگر ہم اسکی برکتوں سے استفادہ کرنا چاہیں تو عبادت و راز ونیاز کے ساتھ دعاوں کے ساتھ غریب و ناداروں کی امداد کریں انکی پرسان حالی کریں اور جتنا جتنا ہم اس مہینہ میں غریبوں کی مدد کریں گے محروموں کی امداد رسی کریں گے اتنا ہی ہمارے وجود کے اندر غریب و نادار طبقے کا درد پیدا ہوگا اور جتنا ہمارے دل میں ایک غریب و محروم کا درد آئے گا اتنا ہی ہم فلسفہ روزہ سے نزدیک ہوں گے کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:علۃ الصوم لعرفان مس الجوع العطش روزہ رکھنے کی حکمت بھوک اور پیاس کے مزہ کو چکھنا ہےپروردگار کی بارہ گاہ میں ہم دست بہ دعاء ہیں کہ مالک اس مہینہ میں ہمیں واقعی روزہ داروں میں قرار دے ۔ آمین 

حواشی :
  ۔ حلیۃ الاولیاء ، ابو نعیم اصفہانی ج۳ ص ۱۴۰؛ بحار الانوار ، علامہ ج۴۶ ص ۸۸
خطبہ شعبانیہ
  صحیح بخاری ، جلد ۲ ص ۶۷۲
  ۔ ثواب الاعمال ص ۹۶
  ۔تفسیر منھاج الصادقین ، جلد ۹ ، صص ۲۳۷
  وسائل الشیعہ جلد ۷ ص ۳ ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .