۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
افطاری میں سیرت و سنت اہلبیت کو فراموش نہ کریں

حوزہ/ اگر عام لوگوں اس بات پر ایمان و یقین ہوجائے کہ روزہ رکھنے سے بھی بالاتر کوئی عمل ہے اور وہ روزہ دار کو افطاری دینا ہے تو یقینا ماہ مبارک رمضان میں معاشرہ اور سماج کی صورت حال اور ماحول کچھ اور ہی ہوگا۔

تحریر: مولانا اشہد حسین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسیاگر عام لوگوں اس بات پر ایمان و یقین ہوجائے کہ روزہ رکھنے سے بھی بالاتر کوئی عمل ہے اور وہ روزہ دار کو افطاری دینا ہے تو یقینا ماہ مبارک رمضان میں معاشرہ اور سماج کی صورت حال اور ماحول کچھ اور ہی ہوگا ۔

حضرت امیر‌المؤمنین علی ابن طالب علیہ ‌السلام سے منقول روایت میں بیان ہوا ہے کہ خداوند متعال نے رسول اکرم صلی‌ الله ‌علیہ ‌وآلہ ‌و سلم کے سلسلہ میں فرمایا « إِذْ [إِذَا] أَرَادَ أَنْ یُفْطِرَ أَمَرَنِی أَنْ أَفْتَحَ الْبَابَ لِمَنْ یَرِدُ إِلَى الْإِفْطَارِ »؛ [1]

رسول خدا جب بھی افطار کرنا چاہتے تھے مجھے حکم دیتے کہ گھر کا دروازہ کھول دو تاکہ جو بھی افطار کرنا چاہے وہ گھر میں داخل ہوسکے ، البتہ یقینا یہ افطاری اور دسترخوان سادہ دسترخوان ہے ۔

مرسل اعظم (ص) کے افطار کا یہ دسترخوان بظاھر سادہ دسترخوان ہے ، رنگ برنگ کی غذا اور مفصل دسترخوان کا امکان کم ہے کیوں کہ آنحضرت (ص) نے اس دسترخوان کو غریبوں ، فقیروں اور ناداروں کی افطار کیلئے سجایا ہے تاکہ جو لوگ افطار کرنے کی توانائی نہیں رکھتے اور فقط پانی پی کر روزے پر روزے رکھتے ہوں وہ مختصر سہی مگر افطار کرلیں اور خود رسول اسلام (ص) کی ذات گرامی بھی اسی افطار میں شامل ہے ۔

امام سجاد علیہ السلام کے حالات زندگی کو جب مطالعہ اور ملاحظہ کیا جاتا ہے تو روایت میں قابل توجہ داستان کا تذکرہ ہے کہ جو سات سو سال پرانے عالم دین محقق اربلی کی کتاب «کشف‌الغمه» میں موجود ہے ، اپ نے تحریر فرمایا: امام سجاد علیہ السلام جب روزہ رکھتے تو گوسفند خریدنے، اسے ذبح کرنے ، گوشت کی بوٹیاں بنانے اور اس کا سالن پکانے کا حکم دیتے ، بذات خود امام سجاد علیہ السلام کھانے کے برتن اور اس کام پر نظارت کرتے ، جب غروب کا وقت قریب آتا تو برتن منگاتے اور لوگوں کو یہ غذا کو بھیجتے ، اس مقام پر جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ امام سجاد علیہ السلام کہ جنہوں نے گوسفند ذبح کرنے اور پکوانے کا اہتمام کیا ، خود روٹی کے کچھ ٹکڑے اور خرمے کے کچھ دانے سے افطار فرمایا ۔

افسوس ہم سیرت اھلبیت علیھم السلام سے بہت دور ہوگئے ، موجودہ دور میں اگر ہم قربانی کرتے ہیں اور جانور ذبح کرتے ہیں تو گوشت کا بہترین حصہ خود کے لئے رکھ لیتے ہیں اور بچے کھچے حصہ کو خدا کی راہ میں دیتے ہیں جبکہ امام سجاد علیہ السلام نے گوسفند کی قربانی کرائی ، اس کا سالن بنوایا اور پھر اسے فقیروں میں تقسیم کردیا مگر خود روٹی اور خرمے سے افطار فرمایا ۔

اگر چہ ہم سب ان مراتب تک نہیں پہونچ سکتے مگر حد اقل ہمیں افطار و سحر کے وقت اپنے دسترخوان پر نگاہ دوڑانی چاہئے کہ دسترخوان سادہ ہے یا رنگین اور مفصل ، بارہا اور بارہا یہ چیز دیکھنے کو ملی ہے ماہ مبارک رمضان میں کھانے پینے کی چیزوں کا استعمال بڑھ جاتا ہے جبکہ روایت موجود ہے کہ «میراث الصوم قلة الاکل»؛ یعنی روزہ [رمضان] کی میراث، کم کھانا ہے ۔

اس ماہ مبارک رمضان میں روزہ داروں سے درخواست کہ افطار اور سحر کے وقت اپنے دسترخوان کو بغور دیکھیں کہ کتنی قسم کی غذائیں ان کے دسترخوان پر موجود ہیں ، ان کا دسترخوان کتنا رنگین ، مفصل اور بڑا ہے ، یقینا اس میں کوئی ہرج نہیں مگر اسی کے بقدر یا کچھ بہتر طریقہ سے فقیروں اور غریبوں کے دسترخوان کو بھی رنگین بنانے کی کوشش کرنا چاہئے ، حد اقل ہمیں اس ماہ مبارک میں کہ جو خدا کی مہمانی کا مہینہ ہے اور سارے روزہ دار بندے اس کے مہمان ہیں ، "هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَی ضِیَافَةِ اللَّهِ " غریبوں ، فقیروں اور ناداروں کی مشکلات کم کرنے میں شریک رہیں ، پروردگار ہم سبھی کو اس نیک عمل کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1. قِیلَ بَیْنَا النَّبِیُّ (ص) جَالِسٌ بِالْأَبْطَحِ وَ مَعَهُ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ وَ الْمُنْذِرُ بْنُ الضَّحْضَاحِ ... فَلَمَّا کَانَ فِی کَمَالِ الْأَرْبَعِینَ هَبَطَ جَبْرَئِیلُ (ع) فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ الْعَلِیُّ الْأَعْلَى یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ هُوَ یَأْمُرُکَ أَنْ تَتَأَهَّبَ لِتَحِیَّتِهِ وَ تُحْفَتِهِ قَالَ النَّبِیُّ (ص) یَا جَبْرَئِیلُ وَ مَا تُحْفَةُ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ مَا تَحِیَّتُهُ قَالَ لَا عِلْمَ لِی قَالَ فَبَیْنَا النَّبِیُّ (ص) کَذَلِکَ إِذْ هَبَطَ مِیکَائِیلُ وَ مَعَهُ طَبَقٌ مُغَطًّى بِمِنْدِیلِ سُنْدُسٍ أَوْ قَالَ إِسْتَبْرَقٍ فَوَضَعَهُ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ (ص) وَ أَقْبَلَ جَبْرَئِیلُ (ع) وَ قَالَ یَا مُحَمَّدُ یَأْمُرُکَ رَبُّکَ أَنْ تَجْعَلَ اللَّیْلَةَ إِفْطَارَکَ عَلَى هَذَا الطَّعَامِ فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (ع) کَانَ النَّبِیُّ (ص) إِذْ [إِذَا] أَرَادَ أَنْ یُفْطِرَ أَمَرَنِی أَنْ أَفْتَحَ الْبَابَ لِمَنْ یَرِدُ إِلَى الْإِفْطَارِ فَلَمَّا کَانَ فِی تِلْکَ اللَّیْلَةِ أَقْعَدَنِی النَّبِیُّ (ص) عَلَى بَابِ الْمَنْزِلِ وَ قَالَ یَا ابْنَ أَبِی طَالِبٍ إِنَّهُ طَعَامٌ مُحَرَّمٌ إِلَّا عَلَیَّ قَالَ عَلِیٌّ (ع) فَجَلَسْتُ عَلَى الْبَابِ وَ خَلَا النَّبِیُّ (ص) بِالطَّعَامِ وَ کَشَفَ الطَّبَقَ فَإِذَا عِذْقٌ مِنْ رُطَبٍ وَ عُنْقُودٌ مِنْ عِنَبٍ فَأَکَلَ النَّبِیُّ (ص) مِنْهُ شِبَعاً وَ شَرِبَ مِنَ الْمَاءِ رِیّاً. مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج 16، ص 79.

تبصرہ ارسال

You are replying to: .