۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
اسلامی نظریاتی کونسل

حوزہ / اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا اجلاس پاکستان کے شہر اسلام آباد میں چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ علامہ عارف حسین واحدی نے اجلاس میں شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس پاکستان کے شہر اسلام آباد میں چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ علامہ عارف حسین واحدی نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کا ایجنڈا یک نکاتی تھا "پاکستان کے معاشرے میں شدت پسندی اور انتہا پسندی اور اس پر کنٹرول"۔

اس اجلاس میں کہا گیا کہ سیالکوٹ، تلمبہ خانیوال اور دیگر مقامات پر ہوئے ماورائے عدالت و قانون واقعات سے ملک و ملت کی بدنامی ہوتی ہے۔

علامہ عارف حسین واحدی نے اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا: یہ واقعات پوری دنیا میں دین مبین اسلام اور وطن عزیز پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور تمام طبقات کو ملکر اس صورتحال کا تجزیہ کرنے اور اس کا سدباب کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ یہ واقعات فکری اور ذہنی انتشار اور پسماندگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا اجلاس

علامہ عارف حسین واحدی نے اس اجلاس میں ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے چند تجاویز پیش کیں جو درج ذیل ہیں:

1۔یہ مسائل شدت پسندی، جہالت اور شعور کی کمی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے تعلیم وتربیت اور شعور و آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی تعلیم کردہ سزاؤں کو ہر شخص دینے کا حق نہیں رکھتا بلکہ ایک سسٹم کے تحت وہ سزائیں دی جائیں گی اور آئین و قانون کے احترام کے بارے میں آگاہی اور تربیت کی ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں ہر شخص خود سزائیں دینے لگ جائے تو پھر وہ ملک نہیں رہتا بلکہ وہاں جنگل کا قانون ہوتا ہے۔

2۔انصاف کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ ملک کی عدالتوں کو سپیڈی ٹرائل کے ذریعے فوری فیصلے کرنے ہونگے۔

3۔ ولولہ انگیز خطابات بہت اچھے ہوتے ہیں مگر مخصوص ذہنیت کے ساتھ بے جا لوگوں کو کسی کے خلاف بھڑکانا اور عوام کے جذبات سے کھیلنا بند کرنا ہو گا۔یہاں بھی بہت ضروری ہے کہ قانون حرکت میں آئے۔ ایسے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

4۔پورے ملک میں مختلف سطح پر کانفرنسز، سیمینارز، مذاکرے، پرامن ریلیاں منعقد کی جائیں۔ یہ صرف مذہبی اور دینی اداروں میں نہیں بلکہ ملک کے تمام تعلیمی اور دیگر اداروں جیسے سکولز، کالجز، یونیورسٹیز میں بھی یہ پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ نچلی سطح تک عوام کو اصل حقائق پتہ چلیں اوروہ ایسے جذباتی نعروں پر کان نہ دھریں۔

5۔ملک کے ذرائع ابلاغ جیسے الیکٹرانک میڈیا میں ٹاک شوز، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس موضوع پر مقالوں اور بیانات کے ذریعے لوگوں میں آگہی دی جائے۔

6۔فلموں، ڈراموں اور تھیٹرز وغیرہ میں جب شدت پسندی، انتہاپسندی اور قتل و غارتگری کے مناظر جوان دیکھیں گے تو معاشرے میں یہ مسائل بڑھیں گے لہذا ہمیں چاہئیے کہ ایسے ڈرامے بنائیں جن میں کرامت انسانی، مثبت طرز زندگی، اخلاقیات اور آئین و قانون کا احترام سکھایا جائے۔

7۔لوگ اپنی اپنی فقہ کو زندگی میں بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اسلام کی مسلمہ پانچ فقہ(فقہ حنفی،فقہ جعفری،فقہ مالکی،فقہ شافعی اور فقہ حنبلی) کی اس موضوع پر مدلل اور اجتہادی آراء پر تحقیقی کام کر کے شائع کی جائیں۔

8۔پیغامِ پاکستان بیانیے پر بہت محنت ہوئی ہے۔ یہ بیانیہ تمام مسالک کے ہزاروں علماء کرام کے دستخطوں سے تائید شدہ ہے۔ اسے معاشرے میں نچلی سطح تک لوگوں میں پھیلایا جائے۔

9۔سیاسی ماحول میں بھی شدت پسندی اور انتہا پسندی کو روکا جائے۔ جہاں مذہبی اتحاد و وحدت اور مثبت انداز فکر ضرورت ہے اس سے زیادہ سیاست میں تدبر،بصیرت اور امن پسندی کی ضرورت ہے۔ جب عوام دیکھیں گے کہ ہمارے سیاسی راہنما اسمبلی اور سینٹ میں آپس میں دست بگریبان ہیں اور گالم گلوچ اور ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے اور ہمارے سیاسی لیڈرز ایک دوسرے کو چور اچکے، ڈاکو اور ملک کے لئے سیکورٹی رسکس اور غدار کہہ رہے ہیں تواس وقت آپ عوام اور خاص کر جوانوں سے کیا توقع رکھیں گے۔

10۔علمائے کرام اور مذہبی طبقات بھی اپنے مثبتِ نقطۂ نظر اور اسلام کی امن پسندی کے حوالے سے جدوجہد کریں۔ اپنی مجالس، محافل وعظ، دروس، خطابات اور خطباتِ جمعہ میں اسلام کی محبت و اخوت اور احترامِ انسانیت کے پیغام کو عام کریں تو معاشرے میں بڑی تبدیلی آئے گی؛ ان شااللہ۔

آخر میں علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ ہم سب اکٹھے ملکر انتہاپسندی اور شدت پسندی جیسے ناسور کے خاتمے کے لئے عملی جدوجہد کریں گے تو ملک میں امن پسند اور صالح معاشرہ وجود میں آئے گا ورنہ صرف ڈنڈے کے زور پر اصلاح کرنا ناممکن ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .