حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اس کے آئین میں لکھا ہے کہ یہاں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا، تاہم افسوس کے ساتھ یہاں اسلام کے خلاف قوانین بھی بن رہے ہیں اور فیصلے بھی ہو رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ملی یکجہتی کونسل کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر نے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ گھریلو تشدد بل کے حوالے سے وزیراعظم نے یقین دہانی کروانے کے باجود سیکولر بل پاس کروایا۔ لاہور کی عدالت نے فیصلہ کیا کہ عدت میں نکاح جائز ہے، کراچی میں اجازت کے ساتھ بننے والی مسجد کو ڈھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ انتہائی تشویش ناک فیصلے اور اقدامات ہیں۔ حکومت خود کہ رہی ہے کہ بیرونی قرضے لے کر ہم غلام بن چکے ہیں، مہنگائی کو عالمی مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، اس پر مستزاد منی بجٹ پیش کرکے عوام پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو آزادی کی جانب لے جانا چاہیئے ورنہ مسائل کنڑول نہیں کیے جاسکیں۔
کونسل کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملی یکجہتی کونسل کے قیام کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی، وحدت اور مثالی اسلامی ریاست کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ مری میں رونما ہونے والا سانحہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمارے سماج، حکومتی اور ریاستی اداروں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ انسان مر رہے تھے اور حکومت گاڑیاں گن رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ قومی، سیاسی قیادت ملک کو سنبھالنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی نے ریاست مدینہ کے قیام کا اعلان کیا تھا، لیکن پوری ڈھٹائی کے ساتھ سیکولرزم پھیلایا جارہا ہے، نظام تعلیم کو عملاً اغیار کے تابع کر دیا گیا ہے۔ مزاروں، خانقاہوں کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ جو حکومت آئین کی پابندی نہ کرے، اسے حکومت میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ ہمیں بیرونی قرضوں نہیں خود انحصاری کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے بجائے اسلامی معاشی نظام لایا جانا چاہیئے۔ مہنگائی سے تنگ عوام کو لچھے دار گفتگو کے بجائے عملی اقدامات کے ذریعے حل کیا جائے۔ اگر حالات بدستور جاری رہے تو حالات کو کنٹرول کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوگا۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان پورے ملک میں کانفرنسوں اور سیمینارز کا انعقاد کرے گی۔
یاد رہے کہ ملی یکجہتی کونسل کی مرکزی مجلس عاملہ کے اس اجلاس میں دستور کمیٹی کی تجاویز کی اتفاق رائے سے منظوری سے دی گئی۔ اس اجلاس میں کونسل کی تنظیم نو کے بعد ماہ اکتوبر سے ماہ دسمبر تک کی مرکز اور صوبوں کی کارکردگی رپورٹس پیش کی گئیں۔ اسی طرح کونسل کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے سہ سالہ پروگرام پیش کیا گیا۔ اس میں مجلس قائدین، مرکزی کونسل، مجلس عاملہ، کمیشنز اور صوبائی تنظیم کے تنظیمی اجلاسوں کا شیڈول پیش کیا گیا۔ اسی طرح یوم آزادی پاکستان، اتحاد امت، تحفظ ختم نبوت، شہادت امام حسین ؓ، رحمت للعالمین، تحفظ نظریہ پاکستان، تحفظ اسلامی قوانین و تہذیب، خواتین کے حقوق کا تحفظ، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، یوم القدس، دینی جرائد کے موضوعات پر مرکز اور صوبائی سطح پر کانفرنسوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اجلاس میں مالیات، تنظیم سازی کے امور بھی زیر بحث آئے۔ اس اجلاس میں کونسل میں شامل جماعتوں کے قائدین، مجلس عاملہ کے مرکزی اور صوبائی اراکین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں علماء و مشائخ کونسل کے سربراہ معین الدین کوریجہ، کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ثاقب اکبر، اسلامی تحریک کے نائب صدر علامہ عارف حسین واحدی، تحریک خلافت کے سربراہ قاضی ظفر اللہ، جماعت اہل حرم کے سربراہ گلزار احمد نعیمی، جماعت ھدیہ الہادی کے صدر رضیت باللہ، جمعیت علمائے پاکستان کے سیکریٹری جنرل پیر سید صفدر گیلانی، تحریک جوانان پاکستان کے سربراہ عبد اللہ گل، مجلس وحدت مسلمین کے ذپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر شیرازی، جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی راہنماء انجم عقیل نے اظہار خیال کیا۔ ان کے علاوہ شعبہ مالیات کے مسئول طاہر تنولی، صوبہ کشمیر کے صدر عبد الرشید ترابی، وسطی پنجاب کے صوبائی راہنماء سید نثار علی ترمذی، شمالی پنجاب کے سیکریٹری جنرل سید جعفر نقوی، خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر عبد الواسع، جنوبی پنجاب کے صوبائی مسئول آصف محمود اخوانی، مرکزی رابطہ سیکریٹری پیر لطیف الرحمن شاہ، میڈیا کوارڈینیٹر شاہد شمسی، حبیب الرحمن فریدی، جنوبی پنجاب کے صدر محمد ایوب مغل، عطاء الرحمن، مرکزی رابطہ سیکریٹری سید اسد عباس اور دیگر شریک تھے۔