۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/ مریم عبدالسلام ہو یا مرحوم ارشد شریف یا پھر شاہ چراغ کے مظلوم شہدا ٕ ہوں۔ انسانی اقدار کے نعروں اور اصولوں کو ہر ایک پر تطبیق کر کے آواز اٹھانے کی بجاۓ تبعیض کے شکار لوگ ہی انسانی اقدار اور عالمی عدالت کے فلسفے کا  نہ فقط جنازہ نکالتے ہیں بلکہ عدالت کے جنازے کو نہایت عجلت میں دفن بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی | ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر تیزی سے زوال پزیر ہورہا ہے۔ ہم سچاٸی عدل اور انصاف جیسے آفاقی و انسانی اقدار کو مفاد اور وابستگیوں کے داٸرے میں مقید کرنے کاعادی ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد سے لے کر پڑھے لکھے افراد تک کم پڑھے لکھے افراد سے لے کر انپڑھ افراد تک مذہبی شخصیات سے لے کر دانشور حضرات تک دینداروں سے لے کر روشن دماغوں تک ہرایک سچاٸی حق گوٸی اور عدل و انصاف کی من چاہا تعریف اور من چاہا مصداق ڈھونڈتے اور تطبیق کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ جہاں جہاں اور جس جس وقت اپنی نظریاتی فکری وابستگیوں اور مفاد پرستی کے داٸروں میں جب چاہیں ان صفتوں کو تطبیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں جہاں فکری و نظریاتی اختلاف ہو وہاں حقاٸق کو ماننے سے یکسر انکار کرتے ہیں۔

مہساامینی کی موت پر بھی ہمیں الیکٹرونک میڈیا سے پرنٹ میڈیا تک سوشل میڈیا سے عام گفتگو تک یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ ایک جوان لڑکی کی اچانک موت یقینا قابل افسوس ہے۔ اگر قتل ہے تو ملوث افراد کو قرار واقعی سزا ملنی چاہٸے تھی۔ عدالت میں اس پر کارواٸی جاری تھی مگر سی سی ٹیوی فوٹیج اور پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پہلے ہی یک طرفہ الزامات انتہاٸی غیر معقول و غیر مقبول روش تھی۔ فرد واحد کی موت کا بہانہ کر کے دیگر سینکڑوں بےگناہ افراد کو موت کےگھاٹ اتارنا اور سرکاری و شخصی املاک کو آگ لگانا توڑ پھوڑ کرنا یا باحجاب خواتین کو ہراساں کرنا، ان کے سر سے چادر چھیننا کسی بھی صورت مستحسن عمل نہیں ہے۔

قانون کو اس طرح سے ہاتھ میں لینے کو کوٸی بھی ذی شعور ذی فہم اور باضمیر انسان پسند نہیں کرتا نہ ہی اس کی حمایت کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے جلاٶ گھیراٶ اور قتل و غارت گری کرنے والوں کی ہرایک مذمت کرتا ہے مگر جب یہی کام ایک ٹولہ ایران میں انجام دے تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے لے کر عالمی رہنماٶں تک اورنگزیب فاروقی جیسا مذہبی جنونی سے لے کر بعض اعلٰی تعلیم یافتہ افراد تک ایسے فسادیوں کی حمایت کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ فرانس کے بلواٸیوں کی مذمت اور ایران کے بلواٸیوں کی حمایت کی جاتی ہے۔امریکن صدر ایرانی بلواٸیوں کے لٸے انٹرنیٹ کی فراہمی سے لے کر دیگر سہولیات کا وعدہ کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔

اس سال بیس دسمبر بروزمنگل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماٶں کی نگاہیں فلسطین، یمن، افغانستان اور کشمیر میں عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم کی بجاۓ فقط مہساامینی پر آکر اٹک جاتی ہیں۔ بقول معروف تجزیہ نگار عمران ریاض خان کے کہ ”عالمی طاقتوں ، سفارت خانوں اور رہنماٶں کے لٸے ہر بندہ اہم نہیں ہوتا ۔ ان کے لٸے فقط اپنے مہرے اور آلہ کار ہی اہم ہوتے ہیں۔ان کے نزدیک انسانی حقوق،آزادی بیان، آزادی نسواں کے نعرے فقط اپنے مہروں اور آلہ کاروں کے لٸے ہیں“

مھساامینی ایک عام سی لڑکی تھی یہی وجہ ہے کہ اخلاقی پولیس کی ہدایات سے لے کر دودن ہسپتال میں رہنے تک کوٸی شور شرابا نہیں ہوا۔

ان کی اچانک انتقال کے بعد ان کے خالہ ذاد بھاٸی عرفان مرتضاٸی کے ذریعے اس واقعے کو عالمی میڈیا پر اچھالا گیا۔ کسے نہیں معلوم کہ عراق کا کردستان اس وقت چھوٹا اسراٸیل بناہوا ہے۔ کرد علٰحیدگی پسند وہاں سے ایران اور ترکی دونوں میں کارواٸی کرتے ہیں۔ مھساامنی کا خالہ ذات بھاٸی عرفان مرتضاٸی عراقی کردستان میں عالمی طاقتوں کا مہرہ بناہوا ہے۔ انہی ایام میں ایران نے عراقی کردستان میں علٰحیدگی پسند دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر پچھتر کے قریب میزاٸل برساۓ تھے۔

کرد علٰحیدگی پسندوں کے سبب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جرمن وزیر خارجہ نے ایران کے صدر جناب ابراہیم رٸیسی سے کہا کہ ”وہ بنیادی حقوق کے حصول کے لٸے احتجاج کرنے والی ایرانی خواتین کی آواز پر توجہ دیں“

واضح رہے کہ اس وقت جرمنی میں قدامت پرست گروہ طاقت میں ہے۔ پورے جرمنی میں اسلام ، مساجد، مسلمان اور اسلامی حجاب کے خلاف ظلم و بربریت اپنے عروج پر ہے۔

جرمن وزیر خارجہ شاید بھول گٸے ہونگے کہ شہیدہ حجاب ”مروہ الشربینی“ کو جرمنی کی بھری عدالت میں نیشنل ڈیموکریٹک سے تعلق رکھنے والے جنونی ”ایلکس“ نے اٹھارہ دفعہ چھری کے وار کرکے تین سالہ بیٹے اور شوہر کے سامنے بڑی بےدردی سے قتل کردیا تھا۔ عدالت میں موجود پولیس نے جنونی جرمن پر حملہ کرنے کی بجاۓ مروہ الشربینی کے شوہر ”ایلوی عکاف“ کو فاٸرنگ کرکے زخمی کیا تھا۔

اسی طرح فرانسیسی صدر جناب ایمانوٸل میکرون نے بھی ایرانی صدر سے گفتگو کرتے ہوۓ ایران میں ”خواتین کے حقوق کےاحترام پر زور دیا“

جبکہ اسی فرانس میں مسلم خواتین کو حجاب کرنے پر عوامی سطح پر انہیں ہراساں کرنا اور حکومتی سطح پر انہیں تعلیمی اداروں میں تنگ کرنا، سزاٸیں دینا اور جرمانہ لگانا ایک عام سی بات ہے۔

2016 میں ایک مسلم طالبہ کو پیرس کے جنوب مشرقی مضافاتی علاقے میں ”لانگویں والوں“ نامی ہاٸی اسکول میں ٹیسٹ اور انٹرویو میں بہترین نمبروں سے پاس ہونے کے بعد فقط اس وجہ سے ٹریننگ کورس میں حصہ لینے سے روک دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اسکارف پہنتی تھی اور پہن رکھی تھی۔

خاتون کی طرف سے کیس لڑنے کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے اس کیس پر اپنا فیصلہ سناتے ہوۓ اس سال مارچ کے مہینے میں ہی کہاتھا کہ ”فرانس کا یہ فیصلہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے“

اس خاتون کے وکیل ”صفین گونز“ نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا ”یہ فیصلہ انتہاٸی اہم ہے اس فیصلے سے ثابت ہوا کہ فرانس کو مذہبی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں بالاخص مسلم خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے“دیگر مختلف نشستوں میں فرانس، چلی،کینیذا اور برطانیہ نے بھی مھساامینی کا نوحہ پڑھاگیا۔

امریکہ میں ہی شاٸع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے مسلمان بالاخص مسلم خواتین پورے یورپ میں امتیازی سلوک کاسامنا کررہی ہیں۔

سترہ مارچ دوہزار اٹھارہ کو دن دھاڑے برطانیہ کے بھرے بازار میں دس کے قریب برطانوی شدت پسند عورتوں نے فقط باحجاب ہونے پر دن دھاڑے مریم عبدالسلام پر اجتماعی حملہ کیا بری طرح زدو کوب کیا گیا دودن ہسپتال میں زندگی اور موت کے کشمکش میں رہنے کے بعد مریم عالم غربت میں انتقال کرگٸی۔ ان کے لٸے کوٸی ٹیوٹر ٹرینڈ نہیں چلا چونکہ یہ کسی کا آلہ کار نہیں تھی۔ نہ ان کا کوٸی رشتہ دار عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کا مہرہ تھا۔ یہاں ٹوٹیر ٹرینڈ، سوشل میڈیا پر دس لاکھ کے قریب پوسٹ اس کے حق میں کی جاتی ہے جو سی سی ٹی وی فوٹیج اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق کسی بھی تشدد کے بغیر طبی موت مری ہو۔ چونکہ کچھ لوگ عالمی طاقتوں کے لٸے خاص ہوتے ہیں ان پر خاص ظلم ہونا ضروری نہیں۔ کچھ لوگوں پر خاص ظلم کر کے ماردۓ جاتے ہیں ان پر عالمی رہنماٶں، عالمی فورمز اور حقوق نسواں کے علمبردار خاموش رہتے ہیں چونکہ وہ ان کے لٸے خاص نہیں ہوتے چاہٸے وہ فرانس اور یورپ کے باحجاب خواتین ہوں یا فلسطین و یمن اور دیگر علاقے کی خواتین۔

مریم عبدالسلام ہو یا مرحوم ارشد شریف یا پھر شاہ چراغ کے مظلوم شہدا ٕ ہوں۔ انسانی اقدار کے نعروں اور اصولوں کو ہر ایک پر تطبیق کر کے آواز اٹھانے کی بجاۓ تبعیض کے شکار لوگ ہی انسانی اقدار اور عالمی عدالت کے فلسفے کا نہ فقط جنازہ نکالتے ہیں بلکہ عدالت کے جنازے کو نہایت عجلت میں دفن بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .