حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی اسکالر حجۃالاسلام و المسلمین آغا سید عابد حسین حسینی نے اسرائیل کا کشمیر میں زرعی میدان میں وارد عمل ہونے پر ردعمل دکھاتے ہوئے کہا ہے جموں و کشمیر کے زرعی شعبے میں اسرائیل کی سرمایہ گزاری پر دلچسپی کشمیر کے لئے ایک نئی بحران کا آغاز ہے۔
انہوں نے کہا:کشمیر اپنے فراز و نشیب میں جنت نما سما کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا ہے جب اس سرزمین پر مغلوں، افغانوں، ڈوگروں، سکوں اور قابض اور غاصب قوتوں نے جارحیت کی ۔ کشمیر اپنے طبیعی خوبصورتی اور وسائل سے مالا مال ہونے کے سبب بیرونی حملہ آوروں کی ہوسِ ملک گیری اور جارحیت کا نشانہ بنا لیکن کوئی بھی اس سرزمین کے نیچرل رسورسز کو نابود کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتا تھا بلکہ ان دلنشین اور سبزہ زار مناظر سے مستفید ہوتے تھے لیکن اب جب اسرائیل کے ناپاک قدم کشمیر پر پڑچکے ہیں تو اب اس وادی کے لہو لوہان ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی جس خطرناک منصوبہ کا آغاز ہوا ہے۔
مولانا نے کہا: مسلمانان کشمیر کو اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں ہوگا جب فلسطین کی طرح کشمیر کی سرزمین بھی کشمیریوں سے خالی ہوگی۔
حجۃالاسلام و المسلمین آغا سید عابد حسین حسینی نے مزید کہا: زرعی میدان میں وارد عمل ہوکر مسلمانوں کو زجر دینا اور استعماری اور سامراجی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا کوئی نئی بات نہیں ہے یہ تجربہ صدیوں سے مختلف ممالک میں کیا گیا ہے۔ نصیر الدین شاہ کے زمانے میں ایران کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ تمباکو کی کاشت سے اپنے اخراجات پورے کرتا تھا اور اسی لیے وہ اپنی روزی روٹی پر غیر ملکیوں کے کنٹرول کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے۔ گاؤں والوں، کسانوں، تاجروں اور چھوٹے تاجروں اور یہاں تک کہ یومیہ اجرت والے مزدوروں نے بھی ریجی کمپنی کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ عوام اور علماء کے درمیان جو قریبی اور گہرا تعلق تھا اس کی وجہ سے عوام نے علما سے اپیل کی کہ وہ اپنی قیادت کے ساتھ عام جدوجہد میں شامل ہو جائے۔
انہوں نے کہا: ایران کے شہروں کے عوام اور علمائے کرام نے جو اپنے عمل سے قطعی نتیجہ حاصل نہیں کر سکے تھے، مرجع وقت مرحوم آیت اللہ العظمی مرزا محمد حسن شیرازی کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا جو اس وقت سامرہ میں تھے۔ وہ علما اور زائرین اور ایران سے ملنے والے خطوط اور ٹیلی گرام کے ذریعے ایرانی عوام کو پہنچنے والے نقصانات سے باخبر تھے، خاص طور پر سید جمال الدین اسدآبادی کے خط سے۔ پہلے تو اس نے پرامن ذرائع سے اور کئی خطوط بھیج کر ناصر الدین شاہ سے اس استحقاق کو منسوخ کرنے کو کہا لیکن جب دیکھا کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو اس نے 1848 میں سگریٹ نوشی کی ممانعت کے بارے میں اپنا مشہور فتویٰ اس طرح جاری کیا:
"بسمالله الرحمن الرحیم الیوم استعمال تنباکو و توتون -بای نحو کان- در حکم محاربه با امام زمان علیهالسلام است. حرره الاقل محمدحسن الحسینی"
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اس دن تمباکو کے استعمال کو امام زمانہ علیہ السلام کے خلاف جنگ تصور کیا جاتا ہے۔ محمد حسن الحسینی۔