۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
علی ایمن ابو علیا

حوزہ/ تاریخ گواہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت نے مغربی ممالک کی حمایت سے اور دنیا کی خاموشی کے سائے میں صرف ایک کام کیا ہے اور وہ کام "بچوں کا قتل" ہے اور رہے گا۔ کئی دہائیوں بعد بھی فلسطینی بچوں کے طاہر خون نے پرچم قدس کو سربلند رکھا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ دنوں میں ایران کے دشمنوں نے جو وسیع پروپیگنڈہ اور میڈیا وار شروع کیا ہے اس کا مقصد ’’بچوں کا قتل عام‘‘ کو اسلامی جمہوریہ ایران سے منسوب کرنے کی کوشش سے ہے۔ ایک ایسا الزام جو غاصب صیہونی حکومت اور تمام سفاک مغربی حکومتوں اور ان کے اتحادیوں پر زیادہ صادق آتا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی تاریخ گواہ ہے کہ اس غاصب حکومت نے فلسطین پر کئی دہائیوں کی زمینی تسلط کے دوران بچوں کو قتل کرنے کے علاوہ کوئی خاص کام نہیں کیا۔ غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے بچوں کا قتل عام غزہ، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں قبضے کے آغاز سے ہی شروع ہوا تھا اور اب یہ مزید وحشتناک طریقوں سے جاری ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رواں سال کے آغاز میں اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں 66 بچے شہید ہوئے۔ جب کہ میڈیا کے حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق قبضے کے سالوں میں اسرائیلی غاصبوں کے ہاتھوں 2500 بچوں شہید ہوئے ہیں۔ قابضین کی انتہا پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی غیر انسانی خاموشی اور مغربی ممالک کے ظلم نے بے گناہ فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے جرائم کو جنم دیا ہے۔

ایک بچہ جو اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر گیا

شاید ہی کوئی ہو جو 22 سال قبل اپنے والد کی آغوش میں "محمد الدورہ" کی شہادت کے لمحے سے متعلق تصاویر کو بھول پایا ہو۔ وہ بچہ جس کی مظلومانہ شہادت دوسری انتفاضہ اور فلسطینی مزاحمت کی علامت بن گئی اور آج بھی دنیا کے ذہنوں میں زندہ ہے۔ محمد، جو اپنے والد کے ساتھ خریداری کرنے جا رہا تھا، اسرائیلی فوجیوں نے گولی مار دی۔ محمد کی شہادت کا منظر اسرائیلی عسکریت پسندی کی بربریت کے خلاف فلسطینی عوام کی بے بسی کی علامت تھا اور اب بھی ہے۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

صیہونی فوجیوں کے تعاقب کرنے سے دل کا دورہ پڑنے سے جان گنوانے والا بچہ

بیس سال گزر گئے اور فلسطین آج بھی ہر روز ایک اور بچے کی شہادت کا ماتم کر رہا ہے۔ سات سالہ فلسطینی بچہ "ریان یاسر سلیمان" جس کا اسکول سے گھر واپس آتے ہوئے صہیونی فوجیوں نے تعاقب کیا تھا۔ صہیونی فوجیوں کے تعاقب کے بعد وہ بلندی سے گرا اور دل کا دورہ پڑا۔ اس کے بعد ریان کبھی بھی اپنے گھر والوں کی آغوش میں واپس نہیں آ سکا۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

ایک چھوٹی سی بچی جو اپنی ماں کی نظروں کے سامنے اپنے گھر پر راکٹ کا نشانہ بن گئی

«آلاء قدوم» ایک 5 سالہ فلسطینی بچی ہے جو 5 اگست بروز جمعہ اس وقت شہید ہوئی جب اسرائیلی حکومت کے حملوں کے دوران اس کے گھر پر ایک راکٹ گرا اور اسے کبھی اپنے بچپن کے خوابوں کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ ان شہید بچوں میں سے ہے جس کی تصویروں پر مغربی ممالک نے فیس بک سے لے کر انسٹاگرام تک سوشل نیٹ ورکس پر پابندی لگا دی ہے تاکہ دنیا کے آزاد لوگ انصاف کا مطالبہ نہ کریں۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

وہ بچہ جس نے اپنی شہادت سے فلسطین کا پرچم بلند کیا

" علی ایمن ابو علیا " ایک فلسطینی بچہ ہے جسے صہیونی فوجیوں نے رام اللہ کے قریب المغیر بستی میں اپنی جھڑپوں کے دوران شہید کر دیا تھا۔ ایک بچہ جس کی شہادت کے بعد عرب اور یورپی اداروں نے اس جرم کی فوری تحقیقات اور مجرموں کو سزا دینے کی درخواست کی۔ علی 13 سال کی عمر میں لقمہ اجل ہوا لیکن اس کی عظیم الشان تشییع جنازہ نے غاصب حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

ایک ایسا بچہ جسے دنیا میں سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملا

یہ خبر پوری دنیا کے لئے چونکا دینے والی تھی، جب میڈیا نے اعلان کیا کہ رام اللہ میں صیہونی افواج کے ہاتھوں ایک اور فلسطینی بچے کو شہید کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ سچ تھا، «عبدالرحمن محمود البرغوثی» ، جس کی عمر صرف ڈیڑھ سال تھی، شمال مغربی رام اللہ میں اسرائیل کے آنسو گیس چھوڑنے کی وجہ سے دم گھٹ گیا اور شہید ہو گیا۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

ایک بچہ جو اپنے دوستوں کے ہاتھوں پر شہید ہوگیا

15 سالہ فلسطینی بچہ "زید محمد سعید غنیم" وہ بچہ ہے جسے حال ہی میں مغربی کنارے کے جنوب میں صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں شہید کیا گیا اور وہ اس دنیا سے کوچ کر ہوگیا۔ وہ پچھلے چند ہفتوں میں شہید ہونے والا تیسرا فلسطینی بچہ تھا اور صہیونی فورسز کے ہاتھوں فلسطینی صحافی "شیرین ابو عاقلہ" کے قتل کے بعد شہید ہونے والا پانچواں فلسطینی نوجوان تھا۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

وہ بچہ جس نے دنیا میں صحیح سے آنکھ بھی نہیں کھولی تھی اور زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا

"عماد اشکیان" چھ ماہ کا فلسطینی بچہ تھا جو شمالی غزہ پر صیہونی حکومت کے جنگجوؤں کے حملے اور اس پر قابض فوج کی فضائی کارروائیوں کے دوران زخموں کی شدت برداشت نہ کر سکا اور جان گنوا بیٹھا۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

ایک لڑکی جس نے اپنے ہم جماعت کو شہادت کا درس دیا

"لیان الشاعر" ایک فلسطینی لڑکی تھی جو غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے حالیہ تین روزہ حملے (اگست) میں شدید زخمی ہو گئی تھی اور "المقصد" ہسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔ فلسطینی وزارت صحت کی تازہ ترین سرکاری معلومات کے مطابق ان حملوں میں 15 بچوں سمیت 44 فلسطینی شہید اور کم از کم 350 شہری زخمی ہوئے۔

تاریخ کی ایک ایسی حکومت کی داستان جس نے صرف بچوں کا قتل عام کیا

"لیان" کے ساتھی اس حملے میں شہید ہوئے

فلسطینی وزارت صحت نے غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے تین روزہ حملوں کے بعد اعلان کیا کہ 46 فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ ان شہداء میں 16 فلسطینی بچوں کے نام بھی دیکھے گئے۔ وہ مظلوم بچے جن کو صہیونی فوج نے اس جنگ میں تحریک جہاد اسلامی کا مقابلہ کرنے کے بہانے نشانہ بنایا اور شہید کر دیا۔ ایک رپورٹ میں ان 16 شہید فلسطینی بچوں کے نام اور تصاویر شائع کرتے ہوئے عالمی میڈیا نے لکھا کہ ان شہداء کی عمریں صرف 4 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .