۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
News ID: 384893
19 اکتوبر 2022 - 20:25
استکبارستیزی

حوزہ / ایران میں گذشتہ دنوں پیش آئے واقعات کو دیکھتے ہوئے محترمہ عظمیٰ گل دختر جنرل حمید گل نے مغربی و اسرائیلی میڈیا کے اسلام اور انقلاب اسلامی ایران سے دشمنی پر مبنی گھناؤنے کھیل کو اپنی تحریر میں بیان کیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

تحریر: عظمیٰ گل دختر جنرل حمید گل

حوزہ نیوز ایجنسی | ایران میں حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔ کیسے اچانک ہی زیرِ زمین تحریک نے زور پکڑ لیا ۔چھوٹے سے چھوٹا واقعہ اب" جلتی پر تیل کا کام" کر رہا ہے۔ 22 سالہ کرد لڑکی "مہسا امینی" جو ایران سے امریکہ براستہ دوبئی جانے کے لئے گھر والوں کے ساتھ تہران جا رہی تھی، 3 1ستمبر کو اسے تہران کی ارشاد پولیس جو معاشرے میں اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے، گرفتار کرکے دینی تربیت گاہ لے جا رہی تھی ۔

مہسا امینی پر الزام تھا کہ وہ اسلامی ریاستِ ایران کے قانون کے مطابق غیر مناسب لباس میں ملبوس تھی ۔ تھانے میں مہسا امینی جو پہلے سے دل کے عارضے میں مبتلا تھی اچانک لڑکھڑا کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔ اسے ابتدائی طبی امداد کے بعد اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ اس سارے واقعے کی اصل سی سی ٹی وی فوٹیج بھی بعد ازاں جاری کر دی گئی لیکن اس واقعے سے مغربی و اسرائیلی میڈیا کواسلامی انقلاب کے 43 سال بعد ایران مخالف جذبات کو جیسے زبان ہی مل گئی اوراب بڑھ چڑھ کر ایرانی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے۔وہی میڈیا جسے کبھی فلسطینیوں، کشمیریوں، روہنگیا اور ہندوستانی مسلمانوں پر ہوتا ہوا ظلم نظر نہیں آتا،آج مہسا امینی کیلئے ان کی ممتا ٹپک رہی ہے۔انکے مطابق دنیا کی سب سے مظلوم لڑکی مہسا امینی جبکہ سب سے زیادہ معاشرتی جبر و ظلم کی شکار ایرانی خواتین ہیں۔ ایران میں مادر پدر آزادی کے خواہاں اور شاہ پرستوں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی خاطر معاملے کو ایک اور ہی رنگ دے دیا ہے۔ مظاہرین جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں ہنگامہ کرتے، آگ لگاتے اور پولیس آنے پر بھاگ جاتے ہیں۔ مغرب سے ڈالروں کی برسات اور پراپیگنڈہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے گروہ بھی منظرِ عام پر آ رہے ہیں جن کو آیت اللہ خمینی کا سلسلہ سادات اور کشمیر سے تعلق پر بھی اعتراض ہے۔ آیت اللہ خمینی کی سادات ان کے عربی النسل اور کشمیری ہونے کے باعث وہ متعصب ایرانی اسے غیر ایرانی حکومت کا تسلط بیان کرتے ہیں۔ عربی و عجمی کے بغض میں بھول گئے کہ جس نبی محمدؐ پر وہ خود ایمان لائے ، ان کی بیٹی حضرت بی بی فاطمہؓ، حضرت علیؓ، امام حسنؓ، امام حسینؓ اور ان کی اولادیں جنہیں وہ مانتے ہیں سب ہی عربی النسل تھے۔ مشہد میں حضرت امام علی رضا کے روضہ پر لاکھوں اہلِ تشیع اور سنی ایرانی حاضری دیتے ہیں۔ انہیں یہ کیسے بھول گیا کہ حضرت محمدؐ نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں واضح کیا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں ماسوائے تقویٰ اور نیک اعمال کے۔ رضا شاہ پہلوی نے 1960 کے اوائل میں "سفید انقلاب "کی ابتداء پارلیمان کو معطل کر نے سے کی جو عورتوں کی مادر پدر آزادی کی ترویج، دینی اثر و رسوخ وعلماء کی اہمیت کم کرنے کے علاوہ ایرانی عوام کے طرزِ زندگی پر بھی بالواسطہ حملہ تھا جبکہ زرعی اصلاحات سے عام لوگوں کے معاشی حالات بھی بالکل تباہ ہو گئے تھے۔ آیت اللہ خمینی جو پہلے ہی قم کے حوزہ قم (مدرسے)کے بہت بڑے عالم تھے، شاہ ایران کے اقدامات اور مغربی تہذیب کی تقلید کے خلاف ببانگِ دہل تقاریر کرتےجس پر انہیں جلا وطن کر دیا گیا۔کئی سال بعد 1979 میں بلآخر انکی تحریک کامیاب ہوئی اور شاہ ملک سے فرار ہو کر دنیا بھر میں دربدر ہوتا رہا۔ اللہ کے دین کے خلاف اور اپنے لوگوں کے ساتھ ظلم و ستم نے اسے ذلیل و رسوا کیااور وہ کینسر کے باعث جولائی 1980 میں گمنام طریقے سے مصر میں اپنے گھر میں دفن ہوا۔

شاہ ایران کے دور میں مراعات یافتہ لبرل مادرپدر آزاد طبقہ جو اسلامک ریپبلک ایران کے نئے اسلامی نظام سے سمجھوتہ نہ کرسکا نےخود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ مراعات یافتہ اور مالی طور پر مستحکم ہونے کی وجہ سے وہ مغربی ممالک میں آباد ہوگئے اور آج انکی رسائی مغرب کے اقتدار کے ایوانوں تک ہے۔ 43 سال گزرنے کے بعد وطن کی یاد اور اپنی گزشتہ زندگی کی نشاۃ ِثانیہ کے خواب دیکھنے والے لبرل اب اسلامی ایران کے خلاف ایک نئے "سفید انقلاب" کے خواہاں ہیں۔ وہ خود کو تو اسلامی اقدار کے مطابق تبدیل کر نہ سکے لیکن وطن واپسی کے لیے ایران کے 43 سالہ اسلامی انقلاب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ آج ان مٹھی بھر ایرانی مظاہرین کو قابو کرنا حکومتِ وقت کے لیے مشکل نہیں لیکن اس کی آڑ میں جو کھیل امریکہ نے شروع کیا ہے وہ نہ صرف انتہائی خطرناک ہے بلکہ اس کے منفی اثرات لامحالہ پاکستان پر بھی پڑیں گے۔

ان تازہ ترین واقعات کی روشنی میں کالعدم "جنداللہ" ایک بار پھر متحرک ہو کر ایران بارڈر سکیورٹی کے خلاف اور سیستان بلوچستان میں کاروائیوں کی تیاری میں ہے۔ جنداللہ مبینہ طور پر امریکہ اور اسرائیل کی شہ اور مشاورت سے ایران کے خلاف کاروائیاں کرتی رہئ ہے۔ ایرانی حکام بارہا الزام لگا چکے کہ امریکہ ایران میں شیعہ سنی فسادات کروانے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کے علاوہ اقلیتوں جیسے بلوچ، آزیری، کُرد اور عربوں کو بھڑکانے میں بھی ملوث ہے۔ جس کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اخبارات میں منفی کالم لکھوانے، غلط خبریں چھپوانے، جھوٹی کہانیوں کی تشہیر، ایرانی معیشت اور کرنسی سے چھیڑ خانی اور بینکوں کے ذریعے بلیک میل کرنا شامل ہے۔

سابق سپہ سالار جنرل اسلم بیگ نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں اتحادیوں کے تعاون سے جنداللہ کی تربیت اور مالی معاونت کر کے اسے ایران کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ بگڑتے حالات سے علیحدگی پسند عناصر جو اب داعش کے آلۂ کار ہیں پاکستان ایران سرحد پر متحرک ہو جائیں گے۔ اگر ان کی بیخ کنی نہ کی گئی تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی رابطے منقطع ہو سکتے ہیں، نتیجتاً بلوچستان کی معیشت جو سیلاب کے باعث مشکل میں ہےکو زک پہنچ سکتی ہے۔ان حالات سے امریکہ کو اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ وہ ایران کی بندرگاہ "چاہ بہار" کے منصوبے کو ناکام بنا کر خطے میں چینی اثرورسوخ کو محدود کر سکے گا، جیسے اس نے گوادر منصوبے کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔

ایران یہ گمان کرے گا کہ چونکہ چاہ بہار کی بندرگاہ گوادر کے متبادل ہو سکتی ہے لہذا پاکستان اس کی ناکامی کی سازش میں ملوث ہے۔ یوں بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر امریکہ کی آشیرباد اور "را" کی مدد سے آزاد بلوچستان کی تحریک کو بڑھاوا دیں گے۔ اس دوران بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق کی این جی اوز اور دیگر مزموم مقاصد والے ادارے ایران پر دباؤ بڑھانے کیلئے ملک میں ہنگاموں، گرفتاریوں اور مبینہ بے گناہوں کے قتال کا پروپیگنڈہ جاری رکھیں گے حتیٰ کہ "گریٹر بلوچستان" کا مطالبہ شروع ہو جائے۔

پاکستان میں بھی شیعہ سنی فسادات، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے حالات خراب کئے جائیں گے۔ شیعہ اور ہزارہ کمیونٹی پر قاتلانہ حملے ہونگے۔ پاکستان کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی ایران مخالف اتحاد کا حصّہ نہیں بننا چاہیے۔ تمام علمائے دین کو آنے والے خطرات سے مکمل آگاہی دی جائے تاکہ وہ لوگوں میں اتحاد بین المسلمین کی اہمیت کو اجاگر کریں اور دشمن کی سازشوں سے انہیں باخبر کریں۔ پاکستان ایران سرحد پر اسلحہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیےجامع حکمت عملی بنائے تاکہ ایران کے اندر دہشت گردی کی صورت میں اسے موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے۔ اقومِ متحدہ کو بلوچستان میں "را "کی دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے کے ثبوتوں کے علاوہ ہندوستانی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کی دھمکی بھی دی جانی چاہئے۔ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے ہمیں ایران افغانستان سے معاملات بھائی چارے کے بنیاد پر استوار کرنا ہوں گے۔

چین کو بھی اعتماد میں لے کر خطے کے مستقبل کے حوالے سے منصوبہ سازی کی جائے۔ اگر ہماری حکومت نے بَروقت اقدامات نہ کیے تو معاملات ہاتھوں سے پھسل سکتے ہیں جو دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں۔

؎ دل ہو غلامِ خرد یا کہ امامِ خرد

سالکِ رہ، ہوشیار! سخت ہے یہ مرحلہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .