حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے BBC کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان اور ایران دو ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کی طویل سرحدی حدود ہیں۔دونوں کے اس خطہ میں مشترکہ مفادات ہیں،ملک عزیز پاکستان داخلی طور پر جن مشکلات کا شکار ہے ان میں معیشت اور داخلی امن و امان سر فہرست مسائل ھیں، معیشت کی کمزوریوں کی وجہ سے پاکستان ایک ایسی صورتحال میں داخل ہوچکا ہے کہ کچھ عرب ممالک اور یورپ اور امریکہ پر پاکستان کا انحصار بڑھتا چلا جارہا ہے،اس انحصار کے باعث پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی میں بہت سی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں جس کا اثر پاکستان اور ایران کے باھمی دوستانہ تعلقات پر بھی رونما ہورہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں امن و امان نام کی کوئی چیز نظر نھیں آتی،گذشتہ دو سالوں میں پاکستان کی مسلح فورسز پر حملوں اور سرحد کے اس پار ایرانی علاقوں میں دھشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، دونوں جانب فوجی اور غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے، پاکستانی بلوچستان میں ایک بڑی تعداد میں فوجی جوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جبکہ ایران کے اندر بھی گذشتہ دو ماہ میں ہونے والے خود کش حملوں میں سینکڑوں عسکری اور سویلین لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ان دہشت گرد گروہوں میں سے بعض کی سرپرستی اسرائیل امریکہ اور بعض عرب ممالک کرتے رہے ہیں دہشت گردگروپس اور انکے یہ مراکز افغانستان اور دیگر ممالک کے تعاون سے آپریٹ ہوریے ہیں اور سرحد کے دونوں جانب دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کے ذریعے شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ شہید سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کی سالگرہ پر کرمان کا خود کش حملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
BBC کے ایک اور سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ ان دھشتگرد گروہوں کو روکنا پاکستان اور ایران کی مشترکہ ذمہ داری ہے،پاکستانی بلوچستان میں مشکل اس وقت یہ درپیش ہے کہ سیکورٹی کے اداروں کی گرفت ہر حصہ پر قائم نہیں ہے اسی باعث یہاں جیش العدل، داعش، بی ایل اے اور دیگر دہشتگرد گروھوں کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔
افغانستان کے امور میں ایرانی ذمہ دار جناب حسن کاظمی قمی کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر بھی مذاکرات کا ایک موضوع افغانستان میں دھشتگردی کے ٹھکانوں سمیت پاکستانی بلوچستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ باھمی بات چیت کا موضوع رہا، اس بنا پر میں یہ سب سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور ایران دونوں کو یہ معلوم تھا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں جیش العدل کے جن مراکز کو ایران نے نشانہ بنایا ہے ان کی سرپرستی اسرائیل اور امریکہ کررہے ہیں اور اس تنظیم کو موساد اور CIA کی براہ راست مدد حاصل ہے اس تنظیم کے ممبران کی اکثریت ایرانی نیشنل ہے۔
پاکستان کھل کر اس موضوع پر اپنی سیاسی اور معاشی مسائل کی وجہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف لب کھولنے سے قاصر ہے جبکہ ایران اس وقت اسرائیل اور امریکی مفادات کے خلاف فلسطین لبنان شام عراق یمن اور کردستان میں مصروف عمل ہے۔
لہذا میرا خیال یہی ہے کہ بلوچستان میں جیش العدل کے ٹھکانوں پر حملے دونوں ممالک کی باہمی تفاہم اور انڈر سٹینڈنگ سے ہی انجام پزیر ہوئے ہیں لیکن چونکہ ایک طرف رائے عامہ اور دوسری جانب انٹرنیشنل پریشر اور امریکی سامراج کے خطے میں مفادات کی وجہ سے پاکستان کو حالیہ موقف اختیارکرنا پڑرہا ہے، ورنہ ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر ایسے آپریشنز بالعموم کامیاب نہیں ہوتے، ماضی قریب میں بھی تعاون کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ پاکستان نے ایرانی اور ایران نے پاکستانی فورسز کے تعاون سے اپنے اپنے دشمن دھشتگرد گروپس کے خلاف آپریشنز کئے ہیں پاکستان کو بھی گذشتہ دو برسوں میں اس خطے میں ماضی کی نسبت بھت زیادہ دہشت گردی کا سامنا ریے ہے۔
ایران نے بھی ان دہشت گردوں کو نشانہ بنایا ہے جو اصل میں ایرانی ہیں اور پاکستانی بلوچستان میں چھپ کر سرحد پار کارروائیاں کرتے ہیں لہذاٰ ایسے اقدامات جب دونوں ممالک کی ہم آہنگی سے ہوں تو خطے میں امن قائم قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ بات دونوں ممالک کے طاقتور طبقات جانتے ہیں۔