حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلامی جمہوریہ ایران میں ہونے والے مظاہروں کا سچ اب منظر عام پر آنے لگا ہے، غیر ملکی میڈیا کا ایران کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ اب پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے، ایران کی عوام کو اکسانے کے لئے پورا زور لگایا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق،تہران کی پولیس نے گذشتہ جمعرات کو مہسا امینی نامی خاتون کو ایک پولیس اسٹیشن میں منتقل کئے جانے اور پھر اچانک اس کی طبیعت بگڑ جانے کے بعد اپنی پریس ریلیز میں وضاحت کی کہ مہساامینی نام کی خاتون کو کچھ اخلاقی نکات بتانے اور معاشرے کے اصولوں سے آشنا کرانے کے لئے پولیس کے ایک تربیتی مرکز میں منتقل کیا گیا تھا جہاں اس کو دل کا عارضہ لاحق ہوا اور فورا اسے اسپتال منتقل کردیا گیا لیکن ڈاکٹروں کی کوششوں کےباوجود وہ انتقال کرگئی ۔اس تلخ واقعے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے فورا ہی وزیرداخلہ احمد وحیدی کو حکم دیا کہ وہ واقعے کی وجوہات اور تفصیلات سے فورا آگاہ کریں اور اس سلسلے میں مکمل تحقیقات انجام دیں ۔ صدر ابراہیم رئیسی نے مہسا امینی کو اپنی بیٹی بتایا اور کہا کہ جلد سے جلد اس کی موت کی وجوہات کا پتہ لگایا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق،ایران کی عدلیہ کے سربراہ نے بھی مرحومہ مہسا امینی کے اہل خانہ کو اطمینان دلایا ہے کہ سبھی تحقیقات مکمل ہوجانے کے بعد پوری شفافیت کے ساتھ عوام کو نتائج سے باخبر کردیا جائے گا ۔پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے بھی پارلیمنٹ کے داخلہ امور کے کمیشن اور دیگر متعلقہ کونسلوں کو حکم دیا کہ وہ مہسا امینی کی موت کے واقعے کی تحقیقات فوری طور پر انجام دیں ۔ایسی صورت میں جب ایران کے سبھی اعلی عہدیدار مہسا امینی کی موت کی وجوہات اور اس واقعے کی مکمل تحقیقات پر زور دے رہے ہیں ۔ ایران کے دشمن کچھ غیر ملکی میڈیا کے اکسانے اور اغیار کے بعض منظم اور تربیت یافتہ عناصر نے ایران کے بعض شہروں میں پرتشدد مظاہرے شروع کردیئے ۔
ذرائع کے مطابق،مشہد میں ایک پولیس اہلکار کو ایسے ہی عناصر نے پیٹرول چھڑک کر زندہ جلانے کی کوشش کی لیکن بعد میں کچھ لوگوں نے اس کے جلتے ہوئے لباس کی آگ کو بجھا دیا ۔ایران کے شمالی شہر رشت میں بھی کچھ بلوائیوں اور فتنہ گروں نے ایک مسجد کو آگ لگا دی جو ایرانی عوام کے عقائد اور ثقافت سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتا اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان مظاہروں میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں جنھیں باہر سے ٹریننگ دی گئی ہے۔اسی طرح ہمدان میں ایک امامزادہ کے روضے کو بھی آگ لگا دی گئی جبکہ کئی شہروں میں بلوائیوں نے پولیس اہلکاروں پر حملے کئے جن میں متعدد پولیس اہلکاروں کی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی پرچم کی بے حرمتی ، ایمبولینسوں کی توڑ پھوڑ اور با پردہ خواتین پر حملہ کرنا یہ سارے ایسے اقدامات ہیں جن سے بخوبی نشاندہی ہوتی ہے کہ مہسا امینی کی موت کو بہانہ بنا کر اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی عوام کے دشمن ایران کے اندر بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں جنھیں مہسا امینی کی موت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔
اطلاعات کے مطابق،تہران میں ہوئے پرتشدد مظاہرے کے بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مظاہرے میں شریک لوگ منصوبہ بند طریقے سے سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے اور کچھ عناصر سڑکوں پر لڑائی کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے جو اپنے آپ میں غیر معمولی حرکتیں تھیں اور یہ عناصر پہلے سے تربیت یافتہ معلوم ہورہے تھے ، تہران کے ایک اعلی سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ تہران میں ہوئے مظاہروں میں تین ملکوں کے شہری بھی شامل تھے اور پرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے میں بعض غیر ملکی سفارتخانے بھی دخیل رہے ہیں ۔
اس پوری صورتحال میں سعودی عرب، برطانیہ اور امریکا کے ذرائع ابلاغ جن میں سعودی چینل ایران انٹرنیشنل اور بی بی سی پیش پیش ہے بلوائیوں کو اکساتارہا ہے جبکہ انقلاب دشمن منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او سے وابستہ چینل بھی مظاہروں کے دوران گھیراو، جلاو اور توڑ پھوڑ نیز باپردہ خواتین پر حملوں کی تصویریں دکھا کر مظاہروں میں شریک بلوائیوں اور فتنہ گر عناصر کو اشتعال دلاتے رہے۔