۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
انقلاب اسلامی ایران

حوزہ/ انقلاب اسلامی ایران کہ جو شھید قاسم سلیمانی کے مطابق حرم الہی ہے آج الحمد اللہ ایک تناور درخت بن چکا ہے کہ جو کبھی چند منافقین اور بے پردہ خواتین کے پروپگنڈوں اور مغربی میڈیا کے ہتھکنڈوں سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔

تحریر: ابو ثائر مجلسی

حوزہ نیوز ایجنسی | کئی دنوں سے جمہورئ اسلامی ایران میں رونما ہونے والے حوادث نے دنیا کی تمام تر توجہات کو اپنی طرف مبذول کیا ہوا ہے۔ کئی لوگوں کے ذہنوں میں تقریبا یہ سوالات اٹھ رہے ہیں ہے کہ جمہوری اسلامئ ایران میں مظاہرے کیوں ہورہے ہیں ؟

مھسا امینی کون ہے ؟ اسکی موت کیسے واقع ہوئی؟ کیا مغربی میڈیا سے موصول ہونے والی خبریں حقیقت پر مبنی ہیں؟ کیا وہاں اسلامی نظام ختم ہوچکا ہے اور ایران میں خانہ جنگی اور قتل و غارت گری شروع ہوچکی ہے ؟ وغیرہ و غیرہ ۔۔۔۔

اصل کہانی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ مھسا امینی نامی 22 سالہ نوجوان لڑکی شمال کے سفر سے واپسی پر اپنے ماموں کے گھر کرج کے علاقے ھشتگرد میں بطور مہمان قیام کرکے وہاں سے اپنے بھائی اور چند دیگر خالہ زاد بہن بھائیوں کے ہمراہ تہران میں (آب و آتش) نامی پارک کی سیر و تفریح کے لیے جاتی ہے۔

تقریبا شام 6 بجے کے قریب مھسا امینی اپنے خالہ زاد بہن بھائیوں کے ہمراہ تہران میں حقانی میٹرو اسٹیشن پر پہنچتی ہے جہاں پر میٹرو کے دروازے پر (پولیس امنیت اخلاقی) (مورل سیکیورٹی فورس) ان کا راستہ روکتی ہیں اور انہیں تذکر دیتی ہے۔(یاد رہے کہ جمہورئ اسلامی ایران میں پولیس کا ایک ایسا ڈپارٹمنٹ موجود ہے جن کام معاشرے میں اخلاقی اور ثقافتی جرائم کو روکنا اور امر بالمعروف کرنا ہے) راستہ روکنے اور تذکر دینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ مھسا امینی اور ان کی خالہ زاد بہنیں جو ان کے ساتھ تھیں ان کا حجاب اور ظاہری حلیہ ایران میں اسلامی قانون اور مقررات کے مطابق نہیں تھا جس پر پولیس انہیں تذکر دیتی ہے جس پر مھسا امینی کے ہمراہ ان کی خالہ زاد بہنیں اپنا حجاب درست کرتی ہیں لیکن مھسا امینی کا لباس اور حجاب کچھ زیادہ ہی خراب ہوتا ہے لھذا پولیس اسے قریبی کاونسلنگ ہاوس(counseling house) لے جاتی ہے۔

یاد رہے کہ پولیس امنیت اخلاقی, اس مقام پر زدوکوب یا ہراساں کرنے کے لیے نہیں لے جاتی بلکہ وہاں پر ایسی خواتین جن کا حجاب نا مکمل ہو ان کے لیے چادر اور دیگر لباس مہیا کیے جاتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ حجاب اسلامی اور اخلاق سے متعلق پر باقائدہ ایک سیشن کلاس کی صورت میں منعقد ہوتا ہے جہاں پر اسلامی حجاب اور احکام سے متعلق با قائدہ بتایا جاتا ہے اور حجاب کی رعایت کرنے کا اقرارنامہ لیا جاتا ہے ۔ اسی غرض سے مھسا امینی کو بھی پولیس امنیت اخلاقی کے مرکز لے جایا جاتا ہے۔

تقریبا 7 بجے کے قریب مھسا امینی اور چند دیگر خواتین کو پولیس اسٹیشن پر لایا جاتا ہے جہاں پر کلاس میں شرکت کے لیے ہال میں بٹھایا جاتا ہے اسی دوران مھسا امینی پولیس خاتون سے گفتگو کرتے کرتے زمین پر اچانک گر جاتی ہیں جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوچکی ہے اور پھر فوری طبی معائنہ کے لیے افراد کو بلایا جاتا ہے لیکن مھسا امینی کی حالت زیادہ بگڑ جانے پر اسے ایمبولینس کے ذریعے قریب ہی کسری نامی ہاسپٹل میں منتقل کیا گیا، ڈاکٹرز کی حتی الامکان کوششوں کے باوجود مھسا امینی جمعہ کے دن 16 ستمبر کو انتقال کر جاتی ہے۔

مھسا امینی کے انتقال کے بعد بعض سماجی افراد اور سوشل میڈیا کے افراد اس واقعے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں جسے دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا اور ٹوئیٹر پر باقاعدہ منظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ ایک ٹرینڈ کے ذریعے اس معاملہ کو اٹھایا گیا۔چند ہی گھنٹوں کے اندر مغربی میڈیا با قائدہ نظام کے خلاف اور پولیس کو قاتل بنا کر ایک نئے مذموم پری پلین سازش کو عملی جامہ پہنانے کی بھر پور کوشش کرتی ہے۔

ماجرا اس قدر جالب ہے کہ مغربی میڈیا اس خبر کو آگ کی طرح پھیلاتی ہے اور چند ہی گھنٹوں میں یہ خبر تمام تر مغربی اور عالمی استعماری میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنتی ہے۔اس مرحلے کے بعد پھر ایران میں تہران اور بعض دیگر شہروں میں ایک ہی جیسے مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے لیکن عینی شاہدین کے مطابق ان مظاہروں میں عوام کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن مغربی میڈیا ان مظاہروں کو اس طرح سے پیش کررہا ہے کہ گویا نظام اسلامی ختم ہوچکا ہے اور اب ایران میں انقلاب اسلامی کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔

بہر حال اس دوران منافقین کا وہ گروہ جو ہمیشہ سے نظام کے خلاف سر گرم عمل رہا ہے باقائدہ طور پر میدان میں وارد ہوتا ہے اور کئی شہروں میں مساجد، امام بارگاہ، بینک اور جمہوری اسلامئ ایران کے پرچم اور یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام کے موکب کو بھی نذر آتش کرتے ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ تہران میں محجبہ خواتین کے سروں سے چادریں چھینی جاتی ہے اور کئی شہروں میں کئی بسیجی جوانوں اور پولیس اہلکاروں کو شہید کیا جاتا ہے۔ اب تک کے اطلاعات اور ایرانی میڈیا کے مطابق تقریبا 36 افراد منافقین کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔

یاد رہے کہ حالات کو خراب کرنے والے اکثر منافقین کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان کی بہت سے دیگر ٹیموں کو بارڈر ایریاز سے بھی پکڑ لیا گیا ہے جو کہ ان دنوں ایران میں بڑے پیمانے پر کاروائی کا ارادہ رکھتے تھے ۔ ان منافقین کے مختلف گروپس سے بہت بڑی تعداد میں اسلحے، بارودی مواد اور دیگر جنگی سازوسامان بھی برآمد ہوا ہے جسے میڈیا میں پیش کیا گیا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام تر واقعات اور نا امنی اس موقع پر رونما ہورہے ہیں جب عراق میں اربعین امام حسین علیہ السلام کا عظیم الشان کامیاب اجتماع منعقد ہوتا ہے اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ رئیسی امریکا میں بین الاقوامی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہیں اور نہ صرف شریک ہیں بلکہ انقلاب اسلامی کے دشمنوں کے درمیان شہید حاج قاسم سليماني کی تصویر اٹھائے تمام اسلام دشمن قوتوں کو شہید حاج قاسم سلیمانی کے خون کا عادلانہ قصاص کی جانب یاد دہانی کرواتے ہوئے نظام ولایت فقیہ اور انقلاب اسلامی کے آفاقی پیغام کو پوری دنیا کے لوگوں تک جرات مندانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔

بہر حال منافقین کے اس کمزور ٹولہ کو جو چالیس سال سے اپنے آقاؤں امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی میں نظام اور انقلاب کو محو کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے منہ کی اس وقت کھانی پڑتی ہے جب جمہورئ اسلامی ایران کی غیور اور پیروئے ولایت فقیہ قوم جمعے کے دن بعد نماز جمعہ سڑکوں پر اربعینی مارچ کے انداز میں گھروں سے باہر نکلتی ہے اب اس موقع پر وہ تمام حواس باختہ کمزور ایمان مسلمان بھی جو چند دن پہلے کہہ رہے تھے کہ ایران میں انقلاب ختم ہوگیا وہ دوبارہ سے کہنے پر مجبور ہوگئے ارے ارے انقلاب واپس آگیا ہے!!!!۔

جی ہاں انقلاب اسلامی ایران کہ جو شھید قاسم سلیمانی کے مطابق حرم الہی ہے آج الحمد اللہ ایک تناور درخت بن چکا ہے کہ جو کبھی چند منافقین اور بے پردہ خواتین کے پروپگنڈوں اور مغربی میڈیا کے ہتھکنڈوں سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اور یہی مغربی میڈیا کا پروپگینڈا ہے جس سے متاثر ہوکر اکثرا لوگ ایران میں بے حجاب اور بد حجاب خواتین اور چند شر پسند منافق عناصر کو دیکھ کر فیصلہ کر بیٹھتے ہیں کہ شاید ایران میں انقلاب ختم ہوچکا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے بلکہ آج نظام اسلامی اور انقلاب اسلامی پہلے سے زیادہ مضبوط اور اس قدر طاقتور بن چکا ہے جس کی نور کی شعائیں عراق ،یمن، لبنان،شام،فلسطین،پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں ظاہر ہوچکی ہے اور اس نور کو دشمن آسانی سے کبھی نہیں بجھا سکتے۔ واللہ یتم نورہ و لو کرہ الکافرون۔


لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .