۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سعودی اتحاد کی جانب سے یمن میں ۲۵ ہزار سے زائد مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی

حوزہ/ اسلامی مآخذ میں مظلوم کے دفاع کی ضرورت کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ظالم سے مظلوم کا حق لے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔"

از قلم: سیدہ نصرت نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلامی مآخذ میں مظلوم کے دفاع کی ضرورت کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ظالم سے مظلوم کا حق لے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔"

درحقیقت مظلوم کی مدد کرنے اور ظالم سے اس کا حق لینے کی اہمیت اس قدر ہے کہ یہ انسان کو جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی بنا دیتا ہے۔
اسی طرح امام علی(ع) نے حسنین(ع) سے فرمایا: "ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنو۔"

اس روایت میں مظلوم کا دفاع ہر مسلمان کا فرض ہے۔ خواہ شکار غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ اسلامی مآخذ میں مظلوم کے دفاع کی ضرورت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں جن میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
پيامبر گرامى اسلام(صلى الله عليه وآله) نے فرمایا :
«مَنْ اَخَذَ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَّالِمِ كانَ مَعى فى الجنّة مُصاحِباً»(1)؛

(جو ظالم سے مظلوم کا حق چھین لے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا)۔

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں:
«مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنادى يا لَلْمُسْلِمينْ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِم» "جو شخص کسی شخص کو کسی مسلمان کو پکارتے ہوئے سنتا ہے، تو مسلمان اس کی بات کا جواب نہیں دیتا"
(جو مظلوم کی آواز سن کر مسلمانوں سے مدد مانگتا ہے، اور اس کی مدد نہیں کرتا، وہ مسلمان نہیں)۔

یہ روایت بھی عام ہے اور اس میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ پس مذکورہ بالا روایت کے مطابق جو شخص مظلوم کی فریاد سنے اور اس کی فریاد اس کے کانوں تک پہنچے اور اس کی مدد کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور اس کی مدد نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔ آپ اسلام کے اس عظیم حکم کا موازنہ آج کی جدید دنیا کے دنیا دار اور پیسے والے لوگوں کے طرز عمل سے کرتے ہیں۔ وہ بے تکلفی سے کہتے ہیں: ’’ہم ایسی جگہ پر سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں ہمیں فائدے حاصل ہوں، بوسنیا اور ہرزیگووینا میں لاکھوں لوگ مارے جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کیا اسلام اپنی قیمتی تعلیمات کے ساتھ جنگ طلب ہے یا دنیا کے کونے کونے میں پیسے کی بو سونگھنے والے دنیا پرست اور پیسے والے لوگ؟ پیسے پر قبضہ کرنے کے لیے اس علاقے کو آگ لگانے اور وہاں کے لوگوں کو بے گھر کرنے کے لیے تیار ہیں! امام علی علیہ السلام نے اپنے دو بزرگ بیٹوں امام حسن اور حسین علیہما السلام کو مخاطب کر کے فرمایا:
«كُونا لِظّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً»
"ظالم نہ بنو اور مظلوم کی مدد کرو"
؛(ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنو)۔
اس روایت میں مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس لیے مظلوم کا دفاع ہر مسلمان کا فرض ہے۔ چاہے ظالم غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔

امام سجّاد(عليه السلام) كتاب ارزشمند صحيفه سجاديّه، میں دعاى 38 میں فرماتے ہیں : «اَللّهُمَّ اِنّى اَعْتَذِرُ اِلَيْكَ مِنْ مَظْلُوم ظُلِمَ بِحَضْرَتى فَلَمْ اَنْصُرْهُ، وَ مِنْ مَعْرُوف اُسْدِىَ اِلَىَّ فَلَمْ اَشْكُرْهُ، وَ مَنْ مُسِىء اِعْتَذَرَ اِلَىَّ فَلَمْ اَعْذِرْهُ»(4)؛

یمن میں خوراک کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یمن میں انسانی بحران کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور آٹھ سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کی وجہ سے یمنیوں کو اشیا، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور غیر ملکی امداد کی کمی کا سامنا ہے۔

ان مسائل نے یمنی عوام کی غذائی تحفظ کو بحران کا سامنا کر دیا ہے اور لاکھوں یمنی خاندانوں کو روزی روٹی کی تباہ کن صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ یمن میں انسانی امداد کے محتاج افراد کی تعداد اس سال کے آخر تک 23.4 ملین افراد تک پہنچ جائے گی اور شدید غذائی عدم تحفظ سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 19 ملین ہو جائے گی، جبکہ عالمی گزشتہ اگست میں فوڈ پروگرام نے اس بات پر زور دیا کہ یمن چار سال پہلے کے بعد سے غذائی تحفظ کی بدترین سطح کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

یمن کے اقتصادی امور کے تجزیہ کار فہمی المخلافی نے العربی الجدید کو اس ملک میں ذریعہ معاش کے بحران کے بارے میں بتایا: "خوراک کی حفاظت کا زوال اور یمن کے اقتصادی بحران کا گہرا ہونا ایک فطری بات ہے، کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ قیمتوں اور روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نے تمام ممالک کی معیشت کو متاثر کیا ہے چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ اور یمن بحران اور جنگ اور تنازعات کی وجہ سے اس سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔"

المخلافی نے کہا: مستعفی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں 58 فیصد خاندان اور انصار اللہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں 51 فیصد خاندان اپنی کم سے کم خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ المخلافی نے جس فیصد کا ذکر کیا ہے وہ ایسے وقت میں ہے جب تقریباً 70 فیصد یمنی عوام انصار اللہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں شدید محاصرے میں رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود مدد کی ضرورت والے افراد کی تعداد کل سے کم ہے۔ان تمام احادیث و روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اسوقت اہل یمن کے لئے ایک آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .