۱۴ مهر ۱۴۰۳ |۱ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 5, 2024
News ID: 403059
5 اکتوبر 2024 - 09:19
گلزار

حوزہ/ سید حسن نصر اللہ کی خطابت، میثم تمار کی سچائی کا عکس تھی۔ ان کی زبان میں وہی جذبہ تھا جو میثم کی سولی کے منبر سے نکلتا تھا۔ ان کے لہجے میں عمار بن یاسر کی سیرت کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ وہ اپنے کردار میں مالک اشتر کی مانند تھے، اور اب ان کی شہادت نے بھی مالک اشتر کی شہادت کی یاد تازہ کر دی۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے! صیہونیت کے درندوں نے شیر کو اس کے اپنے کچھار میں ہی شکار کر لیا۔ خیانت نے شجاعت پر حملہ کیا اور حزب اللہ کے دلیر مالک اشترِ وقت کو اس طرح شہید کیا جیسے معاویہ کے زرخرید غلاموں نے زہر دے کر مالک اشتر رحمۃ اللہ علیہ کو شربتِ شہادت پلایا تھا۔

آنکھوں میں غم کے آنسوؤں نے تحریر کو دھندلا کر دیا ہے۔ دل اور نظر میں ایک عجیب بے چینی ہے۔ اگرچہ خامہ فرسائی میرا فریضہ ہے، پھر بھی لکھنا بے حد مشکل ہو رہا ہے۔ اگر قلم کو خونِ جگر میں ڈبو کر بھی لکھوں تو بھی اس عظیم شخصیت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ جس شخصیت پر لکھنا چاہتا ہوں اس کا قد بہت بلند ہے، جبکہ میرا قلم بہت چھوٹا۔

یہ عظیم مجاہد، شہید انسانیت، عالمِ باعمل، پیکرِ صدق و وفا، سید حسن نصر اللہ، مظلومین جہان کے لیے ایک شمع امید تھے۔ ان کی ذات کی روشنی نے ہر محاذ پر عزم و حوصلہ کی شمع روشن کی تھی۔ وہ صداقت کا مجسمہ تھے، اور ان کے چشم و ابرو کے ایک اشارے میں ملتوں کے درمیان اخلاص کی روشنی بکھر جاتی تھی۔ وہ لشکر کے قائد بھی تھے اور اپنی ذات میں خود ایک لشکر بھی۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ خطرات میں گھرا ہوا تھا، مگر کبھی ان کے دوش پر خوف کی چادر نہیں دیکھی گئی۔

ان کی آنکھوں میں کبھی خوف کے سائے نہ دیکھے گئے، ان کے قدموں میں کبھی لرزش نہ آئی۔ حق کی بات کرتے وقت، ان کے تبسم سے دشمن کے دل میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ ان کی ہلکی سی مسکراہٹ بھی صیہونیت کے جگر کو دہلا دیتی تھی۔ دشمن ان کی صداقت سے خوب واقف تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ فضیلت وہی ہے جس کا اعتراف دشمن کی زبان پر بھی آجائے۔

وہ اپنے دور کے ابوذر کی مانند تھے، جو اسرائیل کی چھاتی پر بندوق رکھ کر یہ اعلان کرتے تھے کہ ہم ہر ظالم کی کلائی مروڑنے کے لیے تیار ہیں، ہم قدس کو آزاد کرائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم شیعانِ علی ابن ابی طالب ہیں، اور کبھی بھی قدس و فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی صداقت میں ابوذر کا عزم جھلکتا تھا اور وہ اپنی حیات کو مالک اشتر کے نقش قدم پر رکھتے تھے تاکہ دنیا علی کے غلاموں کی عظمت اور شجاعت کو سمجھ سکے۔

سید حسن نصر اللہ کی خطابت، میثم تمار کی سچائی کا عکس تھی۔ ان کی زبان میں وہی جذبہ تھا جو میثم کی سولی کے منبر سے نکلتا تھا۔ ان کے لہجے میں عمار بن یاسر کی سیرت کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ وہ اپنے کردار میں مالک اشتر کی مانند تھے، اور اب ان کی شہادت نے بھی مالک اشتر کی شہادت کی یاد تازہ کر دی۔

ان کی پوری حیات کا وجود شہادت کے جذبے سے معمور تھا۔ خدا نے ان کی تقدیر میں شہادت لکھی تھی، اور وہ بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا درجہ پا گئے۔ دنیا کے سارے دہشت گرد، جن کی ہیبت سے لرزتے تھے، ان کا نام سید حسن نصر اللہ تھا۔ وہ اپنے دل میں ہمیشہ غمِ کربلا بسائے رکھتے تھے اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ عاشورا کے دن کی صدقہ تھا۔ ان کی گرجدار آواز دشمن کی نیندیں حرام کر دیتی تھی، جب وہ لبنانی منبر سے "ھیھات منا الذلہ" کا فلک شگاف نعرہ لگواتے تھے۔

اگر ہم مٹ جانے والی قوم ہوتے تو کربلا میں موت کی آغوش میں جا کر مٹ گئے ہوتے، مگر ہم وہ جیالے ہیں جو شہادت کے بعد زندگی کی گودیوں میں کھیلتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنی حیات کو خاکِ لبنان میں ملا کر انسانیت کی فہرست میں اپنا مقام رقم کر دیا۔ دشمن نے انہیں شہید کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، مگر جس چہرے پر شہادت کا نور ہو، اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔

وہ عزت و شرف کے حامل، نیک و متقی، شہزادہ صلح و صفا، اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔ اہل ایمان کے دلوں میں امید کا ایک مضبوط چراغ تھے۔ ان کی زندگی کا عشق اہلبیت سے اس قدر رچا بسا تھا کہ حزب اللہ کی علمداری انہوں نے 32 سال تک کی، اور اپنی حیات کے 63 برس پائے۔ ان کی زندگی میں حیدر کرار علیہ السلام کی زندگی کا عکس تھا اور حضرت عباس علمدار کی شجاعت کی جھلک تھی۔

ملت تشیع، رہبر معظم، غیور قوم حزب اللہ اور اہل ایمان کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔ بارگاہِ رب العزت میں دعا گو ہیں کہ بحقِ اہلبیت علیہم السلام، شہید کو جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .