تحریر: محمد بشیر دولتی
حوزه نیوز ایجنسی| وہ دنیا والوں سے ہٹ کر سوچتا تھا۔ دنیا والوں سے ہٹ کر سوچنے والے ایک نئی دنیا بسالیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دنیا بہت وسیع ہوتی ہے۔ ان کی دنیا کی سرحدوں میں کہیں خود غرضی،لالچ،عیش و عشرت،خود پسندی اور خود غرضی نہیں ہوتی چونکہ انہیں ان صفات رذیلہ سے نفرت ہوتی ہے وگرنہ وہ نئی دنیا نہ بساتے۔ وہ ہماری دنیا کی سب چیزوں کو پاکر دکھاتے ہیں پھر ٹھکرا کر یوں چلے جاتے ہیں کہ دنیا والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ وہ ناسا کی تحقیقی ملازمت کو ٹھکراتا ہے۔ وہ خلاؤں اور فضاؤں میں رہنا نہیں چاہتے۔ نہ ان کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں ۔ انہیں خلاؤں اور فضاؤں کی خاموشیوں میں بھی مظلوموں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ انہیں تحقیقی کمرے کے سکوت میں بھی یتیموں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں، انہیں اپنی محنت سے کمائے ہوئے ڈالروں میں ننگے اور بھوکے یتیم بچے دکھائی دیتے ہیں،انہیں فلک بوس عمارتوں میں سڑک کنارے ٹھٹھرتے ہوئے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔وہ ایک درد مند دل کا مالک تھے۔ وہ پھر خلاؤں سے زمین کی طرف آتے ہیں۔ وہ بڑا انجینئر ہوکر خیموں کی طرف بڑھتے ہیں ۔وہ نرم و گرم بستر کو چھوڑ کر جبل عامل کی پتھریلی زمین کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ پیزا، کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے کھانوں کو چھوڑ کر لبنان کے مفلسوں کی مانند خربوزے کے چھلکوں پر گزارہ کرنے آجاتے ہیں۔وہ امریکہ کی سریلی و خمارآلود فضاؤں کو چھوڑ کر جنوبی لبنان کے دھماکوں کی گھن گھرج کو قبول کرتے ہیں۔
وہ امریکہ میں سب کچھ چھوڑ کر اپنے قیمتی احساسات،جذبات،صلاحیات،نقشہ جات اور علمائے حق کی اطاعت کے پاکیزہ و لطیف جذبات کو سمیٹ کر امریکہ کو ترک کرتا ہے۔
مظلوم کی حمایت و مدد کے جذبات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے،عدم کو وجود بخشنے کے لئے انیس سو چونسٹھ میں جمال عبدالناصر کی حکومت اور ملک "مصر" کا انتخاب کرتے ہیں۔ مصر میں گوریلا جنگ کی سخت ترین تربیت لیتے ہیں ۔گوریلا جنگ کی سختیوں کو سہنے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر امریکہ چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے نفس کا شاید امتحان لینا چاہتے تھے۔گوریلا جنگ کی سختیوں اور زحمتوں اور امریکہ کی پرتعیش زندگی کا پھر سے تقابل کرتے ہیں۔ شہید چمران اپنے نفس کو دوبارہ مہار دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
انیس سو انہتر میں امریکہ کو تین طلاقیں دےکر لبنان چلاجاتا ہے۔
ان کی بصیرت افروز عقابی نگاہیں اپنے پاکیزہ خوابوں کی تکمیل کے لئے جنوبی لبنان کی سرزمین کا انتخاب کرتی ہیں۔
وہ شہید موسی صدر کا قوت بازو بن کر دم بریدہ سمجھی جانے والی لبنانی شیعہ قوم کو قوت بال و پر دینے کے لئے، اسرائیل اور مقامی ظالموں کے ظلم و بربریت سے بچانے کے لئے ایک سپر و ڈھال بن جاتے ہیں۔
مسجدوں،مدرسوں اور ٹوٹے پھوٹے گھروں میں سہمے سہمے رہنے والوں کو زیور تعلیم اور ہنر سکھانا شروع کرتے ہیں۔بکھرے ہوئے،دوسروں کے لئے زندہ باد و مردہ باد کہنے والوں کو اپنے مقام و منزلت سے آشنا کرتے ہیں۔ شہید موسیٰ صدر کے ساتھ تنظیم امل کو مضبوط کرتے ہیں۔ہمیشہ ظلم سہ کر خاموش رہنے والوں کو اپنی حفاظت اور دشمن سے نمٹنے کا گر سکھاتے ہیں۔
وہ اپنے لطیف خوابوں، پاکیزہ عقیدوں،جبل عامل سے بھی مضبوط ارادوں اور جذبہ ایمانی سے سرشار نوجوانوں کے ذریعے ایسی انجینئرنگ کرتا ہے جس سے عالم استکبار کی نیندیں حرام کرنے والی "تنظیم حزب اللہ" جیسی شاہکار وجود میں آجاتی ہے۔
وہ دم بریدہ کہنے والی قوم کا تاج بن گیا پھر اس قوم کو اپنی مدیریت،خدمت،کوشش اور جذبہ شہادت سے دنیا کی عزت مند قوموں میں شامل ہونا سکھادیا۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد تیئیس سال کا عرصہ لبنان کے پہاڑوں،میدانوں،لوگوں سے خالی گھروں،ویران بستیوں،پھٹے پرانے خیموں،ریگستانوں اور جنگ کے اگلے مورچوں کی خاک چھاننے اور تیئیس سال کا عرصہ گزارنے کے بعد وہ ایران واپس آجاتے ہیں۔
امام خمینی رح نے انہیں لبنانی قوم کی طرف سے انقلاب اسلامی کے لئے عظیم تحفہ قرار دیا۔
امام خمینی رح کے حکم پر وزیر دفاع کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔
گویا شہید مصطفیٰ چمران نے وزارت نہیں بلکہ ایران و اسلام کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ وہ دنیا کے وزیروں کی طرح دفتروں میں بیٹھنے والا، پریس کانفرنس اور بیان داغنے والا وزیر دفاع نہیں تھا۔وہ اگلے مورچوں میں لڑنے والا مدافع تھا۔ وہ وطن کے دفاع کے لئے گوریلا جتھے بناکر ٹریننگ دے کر محاذوں پر بھیجتے رہے اور خود بھی اگلے محاذوں پر لڑتے رہے۔وہ فقط لبنان و ایران کا مسیحا نہیں تھا بلکہ عالم انسانیت کا مسیحا تھا۔وہ زخمی ہوکر بھی تہران کے ہسپتالوں یا دفتروں اور نرم و گرم بستروں میں رہنے کی بجائے رات کی تاریکیوں میں میدانوں اور مورچوں میں خدا سے مناجات کرتے کرتے،اپنے اعضاء سے مخاطب ہوتے ہوتے دشمن کے زد میں موجود "دہلاویہ" کے اگلے مورچوں کی طرف عاشقانہ قدم بڑھاتے چلے گئے۔شوق شہادت میں مصر سے لبنان اور ایران کی خاک چھانتے چھانتے اکیس جون انیس سو اکیاسی کو اپنے عاشق حقیقی سے جاملے۔
اس مسیحا کے علاج سے صحت یاب لبنان و ایرانی قوم اس وقت دنیا کے نقشے پر تندرست و توانا قوم اور عالمی طاقت بن چکی ہے۔ ان کی تربیت یافتہ حزب اللہ اور سپاہ پاسداران کے خوف سے وائٹ ہاؤس کے گنبد میں دراڑ اور اسرائیل کے فولادی ڈوم میں شگاف پڑ گیا ہے اب استعمار اور ظلم کے یہ سوداگر اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں اور بہت جلد نابود ہوں گے۔ ان شاء اللہ