حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم؛ جامعہ روحانیت بلتستان اور بلتستان کے دیگر مجامع کے تعاون سے مفکر عصر، معلم زمان و مصلح دوراں شہید استاد مرتضیٰ مطہری (رح) کی شخصیت و افکار سے آگہی کیلئے ایک عظیم الشان پروگرام بعنوان ”فکر مطہر“ کا انعقاد کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق، مباحثہ اندیشۂ مطہر کے گروہوں میں سے بہترین خلاصہ نویسوں، مقالہ نگاروں، امتحان میں کامیاب قرار پانے والوں سمیت انعامی مقابلوں میں شرکت کرنے والے منتخب افراد کی تجلیل بھی کی گئی۔
واضح رہے کہ یہ پروگرام جامعۂ روحانیت بلتستان اور بلتستان کے دیگر مجامع، مجمع طلاب شگر، روندو، کھرمنگ اور گلتری کے مشترکہ تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔
شہید استاد مرتضیٰ مطہری رحمۃ اللہ علیہ کی برسی اور آثار مطہری کے حوالے سے منعقدہ مطالعاتی ومباحثہ گروہوں کی تجلیل کیلئے یہ تقریب حسینیہ بلتستانیہ قم میں منعقد ہوئی۔
تلاوت کلام پاک کا شرف قاری بشارت امامی نے حاصل کیا، جبکہ نیاز فیاضی اور نادم شگری نے بارگاہ امامت میں نذرانہ عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔
بعد ازاں، اندیشہ مطہر"ڈاکٹر محمد علی نقوی گروہ" کے انچارچ شیخ چمن آبادی نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعلیمات کے تین حصے عقائد، احکام اور اخلاق میں سے عقائد کو بہت اہمیت حاصل ہے جسے فقہ اکبر کہا گیا ہے کیونکہ اس کا تعلق انسان کے افکار سے ہے۔ افکار کے انحراف کی وجہ سے انسانی زندگی کی پوری عمارت منہدم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے فکری اصلاح کا بیڑہ اٹھایا۔ اسلام دشمنوں نے ان کی اس کوشش کو بے نتیجہ ثابت کرنے کے لیے انہیں شہید کردیا، لیکن الحمد للّہ مختلف مطالعاتی دوروں کے ذریعے ان کی فکر مسلسل پھیل رہی ہے۔
گروہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے انچارچ شیخ احمد صالحی نے شہید مطہری کے آثار کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شہید مطہری کی سیرت پر چلنا ہے تو سب سے پہلے علم حاصل کرنا ہے، دوسرا کام استاد کے انتخاب میں سمجھداری سے کام لینا ہے۔ تیسرا کام تبلیغ کرنا پھر ثقافتی اور سیاسی امور میں حصہ لینا ہے۔
ڈاکٹر چمران گروہ کے مسئول شیخ بشیر دولتی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ معاشرے کی ضروریات جن کتابوں سے ملتی ہیں ان میں شہید مطہری جیسی شخصیات کے آثار ہیں۔ ان کے مطالعے سے ہم نئی نسل کے سوالات کا درست جواب دے سکتے ہیں۔ یہ مطالعاتی دورہ ہمیں مختلف حملوں کے مقابلے میں اسلامی افکار سے لیس کرنے کیلئے بہت مفید ہے۔
دورۂ مطالعاتی اندیشۂ مطہر کے استاد اور نگران حجۃ الاسلام شیخ فدا علی حلیمی نے اس دورے کے حوالے سے کہا کہ شہید مطہری کی کامیابی زمانے کی درست شناخت کے باعث ہوئی۔ ہدف کا تعین کرنے سے ہمیں بھی کامیابی حاصل ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید کی ایک خصوصیت غیر اصولی افکار سے پرہیز ہے، یہی وجہ ہے امام خمینی نے ان کے سارے افکار کی تائید کی اور فرمایا: ان کے سارے آثار اچھے اور مفید وانسان ساز ہیں، اسی طرح رہبر انقلاب نے بھی شہید کے افکار پر تاکید کی ہے۔
انہوں نے مباحثاتی دورہ کے حوالے سے کہا کہ یہ دورہ ہماری توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا۔ جس میں طلاب کی دلچسپی قابل تحسین ہے۔
جامعۂ روحانیت بلتستان کے شعبۂ تعلیم و تربیت کے انچارج شیخ عارف حافظی نے مطالعاتی دورے کے انعقاد سے اب تک کے مختلف مراحل کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے استاد مطہری کے افکار سے نوجوان طلبائے کرام کی دلچسپی کو سراہا اور ساتھ ہی مجامع بلتستان (شگر، کھرمنگ، گلتری، روندو) کے تعاون پر سب کا شکریہ بھی ادا کیا۔
مدرسہ مبارکہ حجتیہ کے شعبۂ تحقیق کے انچارج حجۃ الاسلام نیک خو امیری نے اپنی تقریر میں اس دورے کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ استاد مطہری نے اسلامی نظام کے مدمقابل سرگرمیوں میں مصروف افراد کو بہترین جواب دیا ہے جو ان کی زمانے سے آگہی کی دلیل ہے آج بھی اسلامی افکار پر یلغار کرنے والوں کو ان کے آثار کے ذریعے جواب دیا جا سکتا ہے۔
آقائے نیکخو نے مزید کہا کہ شہید مطہری کے اساتذہ میں امام خمینی، علامہ طباطبائی، آیت اللہ بروجردی اور دیگر شامل ہیں۔ وہ خود بھی فقہ،اصول، فلسفہ میں ماہر تھے مگر وہ سب مطہری نہیں بنے۔ مگر ایک شاگرد کو اتنا بڑا مقام ملا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے۔ علم کے حصول کے بعد شہید مطہری نے اپنے وقت کی ضرورت کو سمجھا اور تہران یونیورسٹی تشریف لے گئے جو شبہات اور اسلام مخالف افکار کا مرکز تھا۔
پروگرام کے آخر میں خلاصہ نویسی، امتحان، مقالہ اور انعامی مقابلوں میں شرکت کرنے والوں کو نفیس انعامات سے نوازا گیا۔