۲۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 10, 2024
تکبر

حوزه/ زندگی کے دو حصے ہیں۔ دنیوی زندگی اور اخروی زندگی۔ دنیوی زندگی چند سالوں پر محیط ہے جبکہ اخروی زندگی دائمی ہے مگر اُف و افسوس، دائمی زندگی کی طرف تقویٰ اور پرہیزگار لوگ ہی توجہ دیتے ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزه نیوز ایجنسی | اور لوگوں سے (غرور و تکبر سے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینی طور پر دوست نہیں رکھتا۔ (سورۃ لقمان، آیت نمبر ۱۸)

زندگی کے دو حصے ہیں۔ دنیاوی و آخرت کی زندگی۔ دنیاوی زندگی چند سالوں پر محیط ہے جبکہ آخرت کی زندگی دائمی ہے مگر اُف و افسوس، دائمی زندگی کی طرف تقویٰ اور پرہیزگار لوگ ہی توجہ دیتے ہیں۔

یہ دنیاوی زندگی کے پیچھے مقصد الٰہی ہے حالانکہ چند چنندہ لوگ ہی توجہ دیتے ہیں۔ خالق کائنات قرآن کریم کے سورۃ الملک کی آیت مبارکہ نمبر 2-1 میں ارشاد فرما رہاہے کہ "بزرگ و برتر ہے وہ ذات جس کے قبضہ میں کائنات کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز کا مالک و مختار ہے جس نے موت و حیات کو پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزما سکے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔" لیکن رنج و قلق ہے کہ بہتر عمل کرنے کے بجائے، نا پسندیدہ عمل، 'غرور' میں دونوں جہاں کی زندگی کو تباہ و برباد کر لیتا ہے۔

غرور تو صرف اس معبود کو زیب دیتا ہے جو رب العالمین ہے۔ آپ اپنے خاندان، معاشرہ، شعبوں اور محکموں میں مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ لوگوں کو کس قدر اپنے علم، عبادت، مال و دولت، حسب و نسب، عہدہ و منصب، کامیابی، حسن و جمال، قوت، صلاحیت، ہنر، اور شہرت، ہمدردی، مدد، و سخاوت پر غرور ہے۔ یہ واضح کرنا اہم اور ضروری ہے کہ جب بھی تکبر و غرور کی وجہ سامنے آتی ہے تو یہ ذہن میں بات آتی ہے کہ متکبر تو امیر و سرمایہ دار ہوتے ہیں کیونکہ ہم تو غریب ہیں، دولتمند تو ہیں ہی نہیں۔ تکبر صرف مال و دولت پر نہیں ہوتا، اس کی تو کئی و مختلف وجوہات ہیں۔

لوگوں کا ایسا خیال ہے کہ زیادہ تر متکبر مال و دولت والے ہوتے ہیں لیکن دراصل اول نمبر پر علم ہے۔ جب کوئی شخص علم حاصل کر لیتا ہے تو اُسے سب لوگ جاہل لگتے ہیں۔ وہ خود عالم و دانشور اور دوسروں کو جاہل سمجھتا ہے۔ ایک مستند، مشہور و مفید حدیث کی یاد دہانی کرانا مقصود ہے۔ "علم ضرور حاصل کریں لیکن کوئی، کسی وجہ سے علم حاصل نہ کرسکا تو اسے اپنے سے کم تر نہ سمجھیں۔ ہو سکتا وہ تقویٰ و پرہیزگاری میں علم والوں سے بہتر ہو۔ ذرا اس پر غور کریں کہ پروردگار سورۃ التوبۃ کی آیت مبارکہ نمبر چار اور سات میں ارشاد فرما رہاہے کہ "اللہ متقی و پرہیزگاروں کو دوست رکھتاہے۔" بیشک علم افضل ہے۔ آپ کے لیے علم حاصل کرنے میں کارآمد سہولیات دستیاب ہوں۔ لیکن دوسروں کو یہ میسر نہیں ہوسکے ہوں۔ تلاوت کلام پاک کرنے سے پختہ ایمان ہے کہ پروردگار جسے چاہتا ہے نوازدیتا ہے۔ حضرت محمد مصطفٰیؐ کے قلب میں علم ڈال دیا۔ دوسرے انبیاء کرام جیسے، ابراہیمؑ، داؤدؑ، خضرؑ، سلیمانؑ، موسیٰ ؑ اور عیسٰیؑ کو علم و فضل عطا کیا کیونکہ وہ جسے چاہتا ہے عطاء کرتا ہے اور فضیلت دیتا ہے۔ آدم مغرور مثل کی است کہ بالای کوہ ایستادہ ھمہ را کوچک میبیند،

غافل از اینکہ مردم ہم از پایین او را کوچک میبیند

عبادت گزاروں کو بھی زبرست غرور ہوتا۔ قارئین بخوبی واقف ہیں کہ شیطان مردود برگزیدہ عبادت گزار تھا اور اس کا حشر اور انجام بھی سامنے ہے کہ عرش سے فرش پر آگیا، ساری عبادتیں رائگاں ہوگئیں اور 'مردود' کہلایا۔ انسان کو کیسا تکبر؟ نمازیں پڑھے، روزہ رکھے، حج ادا کیا، خمس، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات نکالے، غرباء، محتاجوں، مسکینوں، مفلسوں، ناداروں، مسافروں، بیواؤں اور ضرورتمندوں کی مدد کی اور صلہ رحمی کی، بیماروں کی تیمارداری کئے، تہجد کی نماز ادا کی۔ اس احساسات و محسوسات کے حصار و نظریات میں دوسرے اور اپنے بھی بُرے اور حقیر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ پنجگانہ نماز بھی ادا نہیں کرتے، پابندیٔ وقت تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ شیطان کا بہت خطرناک و مضر حملہ ہے۔ کسی کو کسی طرح کا حق حاصل نہیں ہے کہ دوسروں کو اس طرح کی بات کہے۔ عبادت ضرور کیجئے لیکن اس لیے کہ آپ دوسروں سے بہتر ہیں۔ عبادت کے ساتھ یہ بھی دعا کیجیے کہ پروردگار آپ کی عبادتوں کو شرف قبولیت فرمائے!

تیرا غرور عبادت تجھے نہ لے ڈوبے

سنا ہے پڑھتا تھا ابلیس بھی نماز بہت

غرور کرنے کی تیسری وجہ مال و دولت ہے۔ جب دولت ملتی ہے تو غریب دوست اور رشتہ دار بھی خراب و کمتر لگتے ہیں۔ ان سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔ اپنے پروگرام میں مدعو نہیں کیے جاتے اور نہ ان کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں، دولت کو عروج سمجھ بیٹھتا ہے۔ ہمیشہ ذہن نشین رکھیں جو کچھ دیا ہے وہ رب نے دیا ہے۔ رب ذوالجلال جسے چاہتا ہے عطاء کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مفلسی میں ڈال دیتا ہے۔ نشانیاں موجود ہیں۔ شب بھر میں امیروں کوکنگال ہوتے دیکھا ہے۔ اس کووڈ نے تو زمانے کو بہت کچھ دکھایا، سکھایا اور سمجھایا ہے۔ کسی کو عروج ملا تو کسی کو زوال نصیب ہوئی۔ نصیحت و عبرت ملی۔ گویا مال و دولت وراثت میں ملی یا محنت سے کمائی، خالق کائنات ہی نوازتا ہے۔

علم، عبادت اور مال و دولت کے بعد اگر غرور و تکبر میں مبتلا کرتا ہے تو وہ ہے حسب و نسب۔ حالانکہ امام المتقین، حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا جنھوں نے یہ بھی مجمع میں فرمایا"سلونی سلونی قبل ان تفقدونی" رسول اکرمؐ نے فرمایا "میں شہر علم ہوں اور علیؑ اس کے دروازہ" اور جو خود لدنی علم کا مالک ہے وہ کہہ رہا ہے کہ اپنے حسب و نسب پر گھمنڈ نہ کرو۔ لیکن مولائی، کربلائی، نجفی، قمی اور مشہدی کہنے والے کوفی نہیں لکھتے اور نہ کہنا پسند کرتے ہیں۔ اور بھی دیکھیں، بڑا خاندان، ہمارا خاندان، اعلٰی خاندان، زمیندار، سرمایہ دار، شہرت یافتہ، دولتمند اور نوابین وغیرہ کا غرور اپنے خاندان اور معاشرے میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف اُس خطبے کی جانب متوجہ کرانا چاہتا ہے، ذرا غور کریں جو اللہ کا حبیبؐ، رحمت العالمین، آقا دو جہاں نے حجت الوداع کے موقع پر تاریخی خطبہ دیا تھا، اس وقت یہ شاندار اعلان کیا تھا کہ اسلام اسی لیے آیا ہے جو حسب و نسب کا فرق، تکبر، غرور، و امتیاز ہے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے آیا ہے، کوئی قبیلہ کسی قبیلے پر افضل نہیں، فوقیت نہیں رکھتا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں مکرم و مقرب وہ ہے جو زیادہ تقویٰ، پرہیزگار، نماز قائم کرنے والا، زکوٰۃ دینے والا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا اور اس کے لیے جہاد کرتا ہے۔ بلال حبشی اور سلمان فارسی تاقیامت تک کے لیے مثال ہیں۔ المختصر، اللہ پاک اپنے نیک بندوں کی ہدایت فرمانے والا ہے۔

ایسا دیکھا گیا ہے کہ عہدہ (منصب) بھی غرور و تکبر کی وجہ ہے۔ ملازمت کرنے کے محکمہ یا شعبہ میں اعلٰی عہدے پر فائز ہوتے ہی نشے میں آجاتے ہیں جبکہ نشہ ممنوع ہے۔ یہ منصب چند سالہ ہے پھر تکبر میں گرفتار ہونا کیسا؟ سبکدوشی کے بعد ایک عام آدمی کی طرح چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ اگر منصب والے کو دیکھنا ہے تو اسے دیکھیں جس نے چاند کے دو ٹکڑے کئے، غروب ہوتے ہوئے آفتاب کو پلٹا رہا ہے، چل رہا ہے ہے تو سر پر قدرت کا سایہ ہے، جسم کا کوئی عکس نہیں ہے، فرشتے سائل بن کر در پر آرہے ہیں، فرشتے گھر کا طواف کر رہے ہیں، رضوان جنت لباس لے کر آرہا ہے۔ غرور کرنے کے بجائے سجدۂ شکر ادا کر رہا ہے۔ اس انداز سے شکر پروردگار ادا کر رہا ہے کہ معبود رازی ہوا۔ سورۃ الفجر کی 30-27 آیتوں کی تلاوت کریں جہاں ارشاد باری تعالٰی ہے: 'اے نفس مطمئن اپنے رب کی طرف اس حال میں چل کہ تو خوش ہو اور پسند قرار پائے۔ پس! میرے بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں چلا جا۔

غرور و تکبر کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے، چھٹی وجہ بھی پڑھ لیں شاید عبرت سے فکر و عمل میں تبدیلی ہو۔ اللہ تبارک و تعالٰی کو تبدیلی پسند ہے۔ آپ اپنی زندگی اور ارد گرد میں تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ تفصیل کی گنجائش ممکن نہیں ہے۔ چھٹی وجہ کامیابی ہے۔ جب کس انسان کو کوئی کامیابی ملتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں پتھر میں ہاتھ لگاتا ہوں وہ سونے کا ہو جاتا ہے، جو فیصلہ کرتا ہوں وہ کمال کا ہوتا ہے۔ یہ انسان کو تکبر میں مبتلا کرتا ہے۔ کسی کی کیا اوقات۔ رحیم و کریم کرم کرتا جا رہا ہے، عطا کرتا جا رہا ہے اور انسان اتراتا جا رہا ہے۔ کرنا تو یہ چاہیے کہ وہ عطائیں کرے، ہم سر اور جھکائیں۔ قدرت کے نظام سے سبق اخذ کریں۔ پیڑ پودوں میں پھل لگتے ہیں وہ جُھک جاتا ہے۔ کامیابی اللہ کی عطا کردہ ہے۔ اللہ کے آگے جھکو، شکر کرو اور عاجزی کرو۔

انسان کو اپنے حسن و جمال پر بھی غرور ہوتا ہے۔ ایسے متکبر شخص کو جمال یوسف، شبیہ پیغمبر، اور قمر بنی ہاشم کو یاد کرنا چاہئے۔ اگر پروردگار نے اچھی صورت عطا کی ہے تو اس کا شکر ادا کرو، اس معبود کی مخلوق سے محبت کرو۔ زوال نعمت سے بچو اور ڈرو۔ ادھر تو اچھی شکل و صورت دے دی، روز قیامت بھی چمکتا چہرہ دینا۔ ایسے چہرے پر کیا گھمنڈ جو قیامت کے دن سیاہ ہو۔ دعا گو ہو کہ اس دن آفتاب کی مانند درخشاں روشن اور مہتاب جیسا خوبصورت ہو۔

اگر اپنے حسن و جمال پر ایسا احساس، محسوس و غرور ہو تو پروردگار سے دعا کرنا کہ میرا چہرہ تو اچھا بنا دیا، میرا اخلاق بھی بلند کردے، میری فکر، زبان، نگاہ، قلب، روح، کردار اور اعمال کو پاک فرما دے، میرے اخلاق کو قابل قبول بنا دے، میرے باطن بھی پاک کر دے۔ سماج میں اور بھی لوگ خوبصورت ہوتے ہیں، بیماریاں لگ جاتی ہیں، چہرے بد نما ہو جاتے ہیں:

زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

علاوہ ازیں طاقت بھی غرور کی وجہ ہوتی ہے۔ رسول اکرمؐ کے پاس کیسی قوت تھی، لیکن عاجزی بھی تھی اور رحمت العالمین بھی ہیں۔

سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے

اے بےخبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

(علامہ اقبال)

دنیاوی زندگی کے لیے ہم علم، مال و دولت، حسب و نسب، عہدہ و منصب، کامیابی، حسن و جمال، طاقت، صلاحیت، ہنر، و شہرت کے لیے کوشاں رہتے ہیں جبکہ یہ چند سالہ ہے لیکن روحانی اور آخرت پر لاپرواہی و بے توجہی، اس روز مشکلات کا سامنا ہوگا جس روز بارگاہ پروردگار کا سامنا ہوگا۔ اے پروردگار! ہملوگوں کی ہدایت فرما اور ابلیسی فکر یعنی غرور و تکبر سے نجات دلا!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .