تحریر: ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی
حوزه نیوز ایجنسی| عید، انسان کے لیے ایک بہت بڑی معنوی خوشی لیکر آتی ہے جو کسی اور کے لیے قابل توصیف نہیں ہے، لیکن اگر اس عید میں خلل واقع ہو یا کسی اور چیز کی وجہ سے یہ متاثر ہو تو یہ ایک نفسیاتی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ کئی سالوں سے عید الفطر کے حوالے سے کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا امت مسلمہ کو ہے، ایک ہی شہر میں ایک ہی گھر میں دو دو عیدیں ہوتی ہیں۔آج کی دنیا اس مسئلے کو بہت زیادہ اٹھاتی ہے، حالانکہ یہ بھی دوسرے اختلافات کی طرح بشری زندگی میں ایک معمول ہے۔
یہاں پر بات یقین و اطمینان کی ہے۔چاند کے ثبوت کے 5طریقے ہیں ان میں سے کسی ایک پر اطمینان کی صورت میں عمل کرسکتا ہے۔یہاں پر اس کے فقہی وجوہات کی بجائے، معاشرتی وجوہات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو انتہائی اہم اور قابل غور موضوع ہے۔
عیدالفطر اور چاند کے اجتماعی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم حضرت امیرالمومنین علی(علیہ السلام) اور امام صادق( علیہ السلام )کی غیبی خبریں پڑھتے ہیں تو ایک مومن کے ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے اسلام کی حقانیت مزید کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
چاند کے مسئلہ نے امت مسلمہ کو بہت زیادہ پریشان کیا ہوا ہے ایک ہی ملک کے اندر کبھی تین تو کبھی دو عیدیں منائی جاتی ہے ۔
علامه مجلسی آخرالزمان میں عیدالفطر اور چاند سے متعلق انتہائی اہم حدیث نقل کرتےہیں۔اس روایت کو امیرالمومنین حضرت علی المرتضی(علیه الصلاه و علیه السلام)کاخاص صحابی جناب اصبغ بن نباته یوں بیان کرتےہیں: عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ أَبِي الْجَوْزَاءِ الْمُنَبِّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُلْوَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ ثَابِتِ بْنِ هُرْمُزَ الْحَدَّادِ عَنْ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ عَنِ الْأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ السَّلَامُ:«يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَرْتَفِعُ فِيهِ الْفَاحِشَةُ وَ لَتُصَنَّعُ وَ يُنْتَهَكُ فِيهِ الْمَحَارِمُ وَ يُعْلَنُ فِيهِ الزِّنَا وَ يُسْتَحَلُّ فِيهِ أَمْوَالُ الْيَتَامَى وَ يُؤْكَلُ فِيهِ الرِّبَا وَ يُطَفَّفُ فِي الْمَكَايِيلِ وَ الْمَوَازِينِ وَ يُسْتَحَلُّ الْخَمْرُ بِالنَّبِيذِ وَ الرِّشْوَةُ بِالْهَدِيَّةِ وَ الْخِيَانَةُ بِالْأَمَانَةِ وَ يَتَشَبَّهُ الرِّجَالُ بِالنِّسَاءِ وَ النِّسَاءُ بِالرِّجَالِ وَ يُسْتَخَفُّ بِحُدُودِ الصَّلَاةِ وَ يُحَجُّ فِيهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ الزَّمَانُ انْتَفَخَتِ الْأَهِلَّةُ تَارَةً حَتَّى يُرَى هِلَالُ لَيْلَتَيْنِ وَ خَفِيَتْ تَارَةً حَتَّى يُفْطَرُ شَهْرُ رَمَضَانَ فِي أَوَّلِهِ وَ يُصَامُ الْعِيدُ فِي آخِرِهِ- فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ حِينَئِذٍ مِنْ أَخْذِ اللَّهِ عَلَى غَفْلَةٍ فَإِنَّ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ مَوْتَ ذَرِيعٍ يَخْتَطِفُ النَّاسَ اخْتِطَافاً حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيُصْبِحُ سَالِماًوَ يُمْسِي دَفِيناً وَيُمْسِي حَيّاًوَيُصْبِحُ مَيِّتاً۔فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ الزَّمَانُ وَجَبَ التَّقَدُّمُ فِي الْوَصِيَّةِ قَبْلَ نُزُولِ الْبَلِيَّةِ وَ وَجَبَ تَقْدِيمُ الصَّلَاةِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا خَشْيَةَ فَوْتِهَا فِي آخِرِ وَقْتِهَا۔
فَمَنْ بَلَغَ مِنْكُمْ ذَلِكَ الزَّمَانَ فَلَا يَبِيتَنَّ لَيْلَةً إِلَّا عَلَى طُهْرٍ وَ إِنْ قَدَرَ أَنْ لَا يَكُونَ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِهِ إِلَّا طَاهِراً فَلْيَفْعَلْ فَإِنَّهُ عَلَى وَجَلٍ لَا يَدْرِي مَتَى يَأْتِيهِ رَسُولُ اللَّهِ لِقَبْضِ رُوحِهِ ۔وَ قَدْ حَذَّرْتُكُمْ إِنْ حَذَرْتُمْ وَ عَرَّفْتُكُمْ إِنْ عَرَفْتُمْ وَ وَعَظْتُكُمْ إِنِ اتَّعَظْتُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي سَرَائِرِكُمْ وَ عَلَانِيَتِكُمْ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرِين»ا(محمد باقر مجلسی، بحارالانوار)؛لوگوں پر ایک ایسا زمانه آنےوالاہےکه جس میں بےحیائی اور برےکام آشکار وظاہر ہونگےناموس اورمحارم کےساتھ بےعفتی و تجاوز اور زناعلنی ہوجائےگا ۔جس زمانےمیں یتیم کےمال کوحلال سمجھا جائے گا اور اس زمانےمیں سود کھائےگا اور ناپ تول میں کمی ہوگی اور شراب کو نبیذ (جوکاپانی) اور رشوت کو ہدیه کہکرحلال سمجھا جائے گا اور خیانت کو امانت سمجهی جائےگی۔ اس زمانےمیں مرد حضرات عورتوں کےشبیه اور خواتین مردوں کےشبیه ہونگی یعنی مرد ،عورت اور عورت، مرد کی طرح نظر آئے گی!
نماز کے اوقات وحدود کی رعایت نہیں کی جائےگی اور اس کواہمیت نہیں دی جائےگی۔ اور اس زمانےمیں حج غیرالله اور دنیوی مفادات کےلئے کیا جائے گا۔ پس جب ایسا زمانه آئےتوهلال مخفی ہوجائےگایہاں تک کی پہلی کا چاند، دوسری رات کونظرآئےگااورلوگ ماه رمضان کی پہلی تاریخ کو آخر شعبان سمجھ کر افطارکریں گےاورعید فطرکےدن ،چاند نظر نه آنےکی وجه سےروزه رکھیں گے۔(یعنی گویا چاند اپنے آپ کو چھپائے گا)
پس خبردار،خبردار! اس وقت الله اچانک ان کوعذاب دےگااورغفلت کی حالت میں ان پرعذاب آئےگاپس اس کےپیچھے موت لوگوں کو اچک لےگی اور بلا ان کوگیرلےگی۔آدمی صبح سالم ہوگااورتندرست اٹھےگالیکن شام کو دفن ہواہوگااور شام کو صحیح وسالم ہوگالیکن صبح دفن ہوچکاہوگایعنی اتنی سرعت سےان لوگوں کو گناہوں کی وجه سےموت آئےگی۔جب ایسا زمانه آئےتو بلا میں گرفتار ہونےسےپہلےوصیت لکھناضروری ہےاور نماز کو اول وقت پڑھناواجب ہےکیونکه اس بات سےڈرتےہوئےکه آخر وقت تک شاید زنده ہی نه رہےاور ادمی کو نماز کاوقت ہی نه ملے! تم میں سےجو شخص اس زمانه کوپالےتواسےوضو و طہارت پر ہونا چاہیے اور اسے ہر وقت با وضو ہونا چاہیے تاکہ موت آبھی جائے تو وه طہارت کی حالت پر ہواور پاکیزگی کی حالت میں اس کی روح پرواز کرجائے۔اسےیه خوف لاحق ہوکہ کب موت کافرشته اس کی روح قبض کرکےلےجائے اور اسےخبر نه ہو۔اگرتم ڈرنےوالےہوں تو میں نےتم کوڈرایاہےاوراگرتم پہچاننےوالےہوں تو میں نےتم کومعرفت کرائی ہےاور تم نصیحت پکڑنےوالےہوں تو تمہیں نصیحت کی ہے۔تم اپنےباطن اور ظاہر میں الله سےڈرو اور تقوا اختیارکرو۔اور خبردار!تمہیں کسی اور حالت میں موت نه آئے،بلکه اسی حالت میں آئےکه تم مسلمان ہواور جس نےاسلام کےعلاوه کسی اور دین کو طلب اور قبول کیاتو وه اسےہرگز قبول نہیں کیاجائےگااور وه آخرت میں نقصان اٹھانےوالوں میں سےہوگا۔یہ امام علی( علیہ السلام) کی غیبی خبریں ہیں جو چودہ سو سال پہلے دے چکے ہیں آج کی دنیا مولا کے اس فرمان کی تصدیق کرے گی۔سب علامتیں ظاہر ہوچکی ہیں یہ باب مدینہ العلم کا کلام ہے جو قیامت تک کے واقعات کی خبر دیتے ہیں اور قرآن بھی اس حقیقت کی گواہی دیتاہے:«وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ»(سوره توبه،آیت105)؛ اور آپ(اےپیغمبر!) ان سے کہہ دیجیے کہ تم عمل کرو‘ اب اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان (کا خاص گروہ )تمہارے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔متعدد روایات موجود ہیں که اس آیت میں «وَالْمُؤْمِنُونَ »سےمراد ائمہ معصومین( علیھم السلام) ہیں۔(محمدباقر مجلسی، بحارالانوار)۔
ایک دوسری روایت میں امام صادق( عليه السلام) عیدالفطر میں اختلاف اور اس اختلاف کے فلسفے کو بھی بیان فرماتے ہیں:
لمّا ضُرِبَ الحُسين بن علي بالسَيف فسقط، ثُمّ ابتُدِرَ ليُقطعَ رأسهُ نادى مُنادٍ مِن بطنان العرش: ألا أيّتها الأُمّة المُتحيّرةِ الضالّة بعد نبيّها:لا وفّقكم اللهُ لأضحى ولا لفطر، ثُمّ قال أبو عبد الله "صلواتُ الله عليه": فلا جرَمَ و اللهِ ما وُفّقوا و لا يُوفَّقون حَتّى يُثأرَ بثأر الحسين(شیخ حر عاملی،وسائل الشيعة)؛
جب امام حسین (علیہ السلام) کو تلوار سے مارا اور آپ گھوڑے سے گر پڑے پھر آپ کا سر مبارک کو کاٹنے کے لئے بڑھے تو منادی نے بطان عرش سے ندا دی:اے اپنے پیغمبر کے بعد سرگردان اور گمراہ امت، اب تم عید الفطر اور عید قربان کو نہیں پاسکوگے اور امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم اسی پریشانی کا شکار یہ لوگ رہیں گے اور عید کو پانے میں کامیاب نہیں ہونگے جب تک امام حسین( علیہ السلام) کے خون کا بدلہ نہ لیا جائے۔
دشمنان آل پیغمبر جب سے اہل بیت کے در سے جدا ہوئے ہیں ایسی سزا کاٹ رہے ہیں اس موضوع پر ایک الگ مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو آخری زمان کی شر سے محفوظ رکھے آمین