حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام ڈاکٹر بشوی نے قم المقدسہ میں مختلف علمی انجمنوں کے مشترکہ تعاون سے منعقدہ ایک نشست سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قران کریم درجنوں اقتصادی نظام پیش کرتا ہے تاکہ معاشرے میں معاشی انقلاب آئے اور لوگ خوشحال زندگی بسر کر سکے۔ اقتصاد، دین و دنیا دونوں میں سعادت کا سبب بن سکتا ہے ہمیں اقتصادی میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے مختلف اقتصادی ماہرین کی تربیت کا انتظام کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک اسلامی اقتصادی نظام سے عوام تو عوام، بہت سے خواص واقف نہیں ہیں۔ قرآن مجید کسی بھی میدان میں دشمن کے تسلط کو برداشت نہیں کرتا اسی لئے ارشاد خداوندی ہے "لن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا "۔ کافروں کی برتری مسلمان معاشرے پر کسی بھی جہت سے قابل تحمل نہیں ہے چاہیے سیاسی میدان ہو یا تہذیبی، اقتصادی میدان ہو یا دفاعی، برتری تنہا مسلمان کی ہو، لیکن میدان عمل میں مسلمان مکمل طور پر مغرب کی غلامی کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ شہید مطہری کا جملہ ہے مانگنے والا کبھی دینے والے کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ دینے والے کے اشاروں پر ناچتا ہے اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا جو مالک کہے گا اس پر عمل کرے گا۔ ہمارے غلام ذہنیت کے حکمرانوں نے پاکستان کے پورے اقتصادی ڈھانچے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور آئی ایم ایف جیسے استعماری مفادات کے محافظ اداروں نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض اور اقتصادی و فکری یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ 16سے بھی زائد بڑے قرآنی اقتصادی نظام ہمارے پاس ہیں۔ ہم ان کے اقتصاد پر حاکم قرار پا سکتے ہیں آج کئی اقتصادی اسپشلسٹ یونیورسٹیز تاسیس کرنے کی اشد ضرورت ہے، اسی طرح کئی بنک خاص کر زکات بنک بنانے کی ضرورت ہے پھر ہم لینے کے بجائے دینے والے بن جائیں گے۔
شیخ بشوی نے المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلباء کے مستقبل کے بارے میں کہا کہ فارغ التحصیلان کے حوالے سے المصطفیٰ کو ایک جدید یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کرتا ہوں جس میں ضرورت کے مطابق قرآنی حکمت پہ عمل ہوجائے اور دنیا کے سامنے ایک جدید ترین نقشہ پیش کر سکیں۔ قرآن کا پیش کردہ نظام تعلیم و حکمت ہی ہمیں بچاسکے گا۔
واضح رہے کہ اس علمی نشست میں مختلف انجمنوں کے سربراہان کے علاوہ مدرسہ حجتیہ کے ادارۂ تحقیق کے نائب سربراہ نے بھی خصوصی شرکت کی۔