حوزہ نیوز ایجنسی I مرحوم علامہ حسن زادہ آملیؒ ایک بیان میں فرماتے ہیں: انسان بظاہر اپنی ذات کو سنوارتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ ہدایت کا محتاج ہے۔ کیا افسوس کی بات نہیں کہ یہ دنیا، جو سراپا حسن و جمال، پاکیزگی اور روشنی سے بھری ہوئی ہے، جس میں تنوع اور کمالات کی فراوانی ہے، ہم محض ظاہری چیزوں کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں؟
اتنی خوبصورت اور با معنی کائنات کو دیکھنے کے بجائے، ہم سب کچھ کو بے جان اور بے روح سمجھ لیتے ہیں، اور دوسروں کے بارے میں صرف ظاہر کی بنیاد پر حکم لگاتے ہیں۔
انسان کے پاس بے شمار طاقتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں، مگر وہ انہیں کس نیت اور مقصد کے ساتھ استعمال کرتا ہے؟ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان کا ذہن اور اس کی سوچ منتشر اور بے سمت ہو جاتی ہے۔ اس کا ظاہر بھی ایسے ہی بکھرا ہوا نظر آتا ہے، ہاتھ پاؤں اور آنکھیں اِدھر اُدھر حرکت کرتی ہیں، مگر سب کچھ سطحی اور بے مقصد۔
یہی انسان جب جھوٹ بولتا ہے، یا خیانت کرتا ہے، تو اسی ایک عمل سے اس کی پوری زندگی کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ جھوٹ اور تکبر سے اندرونی سکون ختم ہو جاتا ہے، دل و دماغ پراگندہ ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ تکبر کیوں کرتا ہے؟ آخر کس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے پر غرور کرے؟ ہمارا آغاز بھی سب کو معلوم ہے اور ہمارا انجام بھی۔ ہم سب ہی درحقیقت محتاج اور مضطر ہیں، تو پھر یہ غرور اور خودبینی کس چیز پر؟
یہ غرور اور تکبر آخر ہمیں کیا دے گا؟ ہم کیوں اپنے کاندھوں پر یہ بوجھ ڈالتے ہیں؟ اور دوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں؟
اگر لوگ گمراہ بھی ہوں، اگر وہ مشرک بھی ہوں، تب بھی ہمیں کیا حق ہے کہ ان پر تکبر کریں؟ نمرود اور فرعون جیسے لوگ بھی اپنی سرکشی کے باوجود، آخرکار خدا کے سامنے بے بس اور شکستہ ہوئے۔ خدا ہی بلند و برتر ہے، انسان کی کوئی بڑائی حقیقت میں بڑائی نہیں۔









آپ کا تبصرہ