۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 390676
21 مئی 2023 - 14:26
شهدای روحانی

حوزہ/ حامد فی الواقع حامد بھی اور محمود بھی ہیں، عبادات و مناجات الٰہی اس کا فریضہ اور حکمت و طبابت اس کا پیشہ ہے۔

تحریر: سید علی عباس حسینی (جونپوری)

حوزه نیوز ایجنسی| حامد فی الواقع حامد بھی اور محمود بھی ہیں، عبادات و مناجات الٰہی اس کا فریضہ اور حکمت و طبابت اس کا پیشہ ہے، سحر خیزی اور شب زندہ داری اس کے روز مرہ کی زندگی کا دستور اور قیام و صیام جیسے واجب فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مستحبات و مندوبات اور دعا و مناجات کا اس کی زندگی میں اک خاص رول ہے ۔کیونکہ آنکھ کھولنے سے لیکر پروان چڑھنے تک گھر کا ماحول اولاد کی زندگی میں اچھا خاصا دخیل ہوتا ہے لہذا اس کا مذہبی اور دیندار ہونا کوئی تعجب خیز مسئلہ نہیں، کیونکہ اس کے والد عبد اللہ تعلقہ دار حکیم و طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دیندار اور با اخلاق انسان تھے اور ماں نازنین بیگم بھی ایک باکردار اور دین شناس خاتون تھیں، لہٰذا پیار ومحبت، شرافت، خدمت خلق، احساس ذمہ داری، جانثاری اور ایمانداری و دیانت داری جیسے حسن خلق تو گویا ورثہ میں حاصل ہوئے ہیں لہٰذا ہر کوئی آپ کا دیوانہ و مستانہ ہے۔

ہر کسی کے ہم و غم میں شریک رہنےاور مصیبت پر کام آنے والے حامد سے جتنا دوسرے محبت کا دم بھرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اسے اپنے والدین سے لگاؤ تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ آج اسکا نام زباں زد خاص وعام ہے۔ حامد کی ابتدائی تعلیم نزدیک کے مدرسہ ٔ باب العلم میں دین و شریعت کے آئینہ میں انجام پذیر ہوئی لہٰذا اس کے وجود سے ہمہ وقت دین و مذہب کی بو آتی ہے اور اعلیٰ تعلیم کی خاطر آلہ باد یونیورسٹی کی جانب رجوع کیا جہاں سے اس نے BUMS اور ایورویدک شاستری کی سند ممتاز نمبروں ںسےحاصل کی اور پھر مستقل باپ کی ہمنشینی نےحکیم حاذق اور مسیح الہند جیسے القاب و خطابات سے نوازا۔ حکیم صاحب کی عزت و شہرت کا سبب جہاں ان کی حکمت و طبابت ہے وہیں ان کے محکم و مستحکم عقیدہ نے انہیں ایک الگ ہی رتبہ بخشا ہے۔

خداوند پر توکل اور امید خیر ان کی نیک نیتی کی علامت اور بندگی کی پہچان ہے لہٰذا مصیبت کے وقت خود کو اور دوسروں کو صبر و استقامت کی تلقین کرتے ہوئے سوئے آسمان کلمہ انگلی کے اشارے کے ساتھ فقط ایک ہی جملہ سنائی پڑتاہے کہ ’’اس کے یہاں دیر ہےاندھیر نہیں‘‘ دنیا ٹس سے مس تو ہوسکتی ہے مگر آپ کا عقیدہ متزلزل نہیں ہو سکتا ہے۔گویا آپ راضی برضاء الہی ہیں اور آپ کا وجود فنا فی اللہ ہے۔ مگر حکیم صاحب کے اس عقیدے اور زندگی کو ٹھیس تب پہونچی جب ایک وبائی بیماری نے اچانک لوگوں کو اپنی چمیٹ میں لے لیا ، جس کے سبب آبادی کے آدھے سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے ۔ جس میں خود حکیم صاحب کی اہلیہ اور کڑیل جواں فرزند بھی شامل تھے لوگ کیڑے مکوڑے کی طرح مرتے رہے تڑپتے رہے مگر حکیم صاحب کچھ نہ کر سکے۔

اس واقعہ سے حکیم صاحب کو ایسا دھچکا لگا کہ حواس باختہ ہوگئے اور ذہن میں فقط ایک ہی سوال گردش کرنے لگا کہ جب دینے والے نے زندگی جیسا انمول تحفہ دیا ہی تھا تواسے چھیننے کی کیا ضرورت تھی بالکل اس ظالم و جابر انسان کی مانند (نعوذباللہ) جو کھیلنے کے لئے بچوں کو کھلونے دے مگر جب بچہ اس سے مانوس ہوجائے تو واپس لیکر قدم تلے روند دے بچہ روتا رہے، بلکتا رہے مگر اس ظالم وجابر انسان پر کچھ اثر نہ پڑے۔ حکیم صاحب اس سوال میں اتنا الجھ گئے کہ دن کا چین اور راتوں کی نیند بھی اڑ گئی اور پھر آپ کا محکم و مستحکم عقیدہ بھی ڈانوا ڈول ہونے لگا نتیجتا وقتاً فوقتاً اور پھر کاملاً نماز و روزہ کو بھی خیر آباد کر دیا۔

سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فقط اس سوال کے جواب میں لگ گئے، دن و رات ایک کر ڈالی، بہت ہاتھ پیر مارے، مگر کچھ ہاتھ نہ لگا آخر کار تھک ہار کر جب سوئے تو عالم خواب میں ایک روحانی شخصیت سے ملاقات ہوئی جنہوں نےآپ کوخوب سمجھایا بتایا مگر چونکہ صدمہ عظیم تھا لہذا حکیم صاحب نو آموز طالب علم کے مانند کچھ بھی سننے کو تیار نہ ہوئے اور ان کی سبھی دلیلوں کی بخوبی کاٹ کرتے رہے بلآخر انہیں نے بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانے کے خاطر موت و حیات کا اختیار حکیم صاحب کو ہی سونپ دیا اور کہا کہ آج سے مرنا جلانا آپ کے ہاتھوں میں ہے آپ جسے چاہے زندگی دیں اور جسے چاہیں موت۔ چونکہ حکیم صاحب موت سے شدید خفا تھے لہٰذا اسے اپنے نظام کے اردگرد بھٹکنے بھی نہ دیا اور سب کی جھولی حاتم طائی کی طرح زندگی جیسے نعمت سے خوب خوب بھرا، نیتجہ یہ ہوا کہ برسوں گزر گئے اور کوئی بھی نہ مرا۔

پھر کیا تھا گاؤں گاؤں ،شہر شہر ،ملک ملک کی آبادی دن دوگنی رات چوگنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ قدم تک رکھنے کی بھی جگہ نہ بچی، بادشاہ وقت نے جب یہ صورت حال دیکھی تو قاضی صاحب کے مشورے سے تولید و تولد پر پابندی عائد کر دی، اس حکم کے نافذ ہونے سے بڑھتی ہوئی آبادی تھم ضرور گئی مگر جگہ ویسی کی ویسی ہی کھچا کھچ بھری رہی اور لوگ ایک دوسرے سے اکتانے لگے، بیٹا باپ سے عاجز آنے لگا،اور میاں بیوی سے، حالات بد سے بد تر ہوتی چلے گئے۔ مار دھاڑ، لوٹ و گھسوٹ، لعنت و ملامت جیسی بے شمار بیماریوں کا رواج معاشرے میں عام ہوتا چلا گیا، چونکہ تولید پر پابندی عائد تھی لٰہذا بچے جوان ہوتے گئے اور جوان بوڑھے ، اور بوڑھوں کا شمار نہ زندوں میں ممکن تھا اور نہ مردوں میں، لہٰذا حاکم وقت نے ماحول کے تحت دوسرا حکم نافذ کیا کہ تولید و تولد کی اجازت اسی صورت میں حاصل ہے جب خاندان کا کوئی فرد قربانی پیش کرنے پر آمادہ ہو۔ یعنی اسے زندہ در گور کر دیا جائے یا پھر کچھ ایسا کیا جاںٔے کہ اسکا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔

بادشاہ سلامت کے اس حکم سے چاروں طرف افرا تفری اور خونریزی کا ماحول اور بھی بڑھ گیا، لوگوں کو زبردستی زندہ در گور کیے جانے کی رسم رائج ہو گئی۔

اولاد کے خاطر بیٹا خوشی خوشی اپنے ماں باپ کو قربان کر دیتا اور نہ غمگین ہوتا نہ خشمگین۔

حکیم صاحب یہ خواب دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز کانوں سے ٹکرائی ، خواب غفلت سے بیدار ہوئے درحالیکہ پسینے میں شرابور اور حلق شدت پیاس سے خشک ہو رہی تھی ۔حکیم صاحب اٹھے حلق کو تر کرنے کے بعدایک لمبی سانس لی، ہوش کا ناخن لیا اور بارگاہ خداوندی میں توبہ و استغفار کر کے اپنی غلط فہمی کا اقرار کیا کہ اگرموت جیسی نعمت حیات جیسی نعمت کے ساتھ نہ ہو تو زندگی موت سے بدتر ہوجائے اور سارا نظام کائنات درہم برہم ہو کر رہ جائے۔

اس خواب نے واقعاً حکیم صاحب کی آنکھیں کھول دی اور اب وہ پھر حالت سابقہ کی طرح راضی برضا اور عبادت و طبابت میں مشغول و مصروف ہیں اور بطور احسن خدمت خلق کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

راضی برضا
تحریر: سید علی عباس حسینی (جونپوری)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .