حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق کی جانب سے سلسلہ وار منعقد ہونے والی علمی وتحقیقی نشستوں کے سلسلے کی تیسری نشست بروز جمعہ ۳۰دسمبر ۲۰۲۲ ء کو فاطمیہ ہال حسینیہ بلتستانیہ قم میں منعقد ہوئی۔
تفصیلات کے مطابق، اس علمی و تحقیقی نشست کا باقاعدہ آغاز قاری محترم جناب سجاد ساجدی صاحب نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہ تحقیق کے سربراہ جناب سجاد شاکری صاحب نے نشست کی نظامت کے فرائض سر انجام دیئے اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
اس علمی نشست سے حجۃ الاسلام ڈاکٹر فرمان علی سعیدی صاحب نے اپنی پی ایچ ڈی کے تھیسز کے موضوع پر مدلل گفتگو کی۔
تھیسز کا موضوع «پاکستان میں شیعہ اصلاحی مکاتب فکر کا تحلیلی اور تنقیدی جائزہ» ہے۔
انہوں نے اپنی اس طاقت فرسا علمی کاوش کو ایک علمی نشست کی صورت میں پیش کرنے کا موقع فراہم کرنے پر جامعہ روحانیت کے صدر محترم اور شعبہ تحقیق کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس علمی نشست میں شرکت کرنے والے علمائے کرام اور طلاب عظام کی قدردانی کی۔
انہوں نے اس طرح کی علمی نشستوں کی افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باقی علماء اور محققین کو اپنی علمی تحقیقات بھی ان جیسی علمی نشستوں میں پیش کرنے پر زور دیا۔
ڈاکٹر فرمان علی سعیدی نے پاکستان کی سرزمین پر مکتب تشیع پر ہونے والے ثقافتی یلغار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں شیعہ ثقافتی اور مذہبی حملے کا شکار ہیں اور اس سے مقابلے کے لئے ملت کی صفوں میں ضروری ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اور ان کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ مختلف مکاتب اور طرز فکر کا وجود اور ان کے درمیان شدید اختلاف ہے۔
حجت الاسلام فرمان سعیدی نے کہا کہ مکتب تشیع میں موجود مختلف مکاتب فکر دو بنیادی گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں:1۔ انحرافی مکاتب فکر، 2۔ اصلاحی مکاتب فکر
انہوں نے انحرافی مکاتب فکر میں سے اخباری مکتب فکر کی تاریخ اور پاکستان میں اس مکتب کی تبلیغ اور مبلغین پر گفتگو کرتے ہوئے اس مکتب کی مندرجہ ذیل تین خصوصیات بیان کیں:1۔ نظام ولایت فقیہ کی مخالفت، 2۔ اجتہاد و تقلید کی مخالفت، 3۔ علم رجال کی مخالفت۔
انہوں نے انحرافی مکتب فکر، مکتب شیخیہ کی تاریخ اور پاکستان میں اس کے اثر و رسوخ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس مکتب کی بھی چند خصوصیات ہیں:1۔ نظریہ تفویض کا رواج، 2۔ اہل تاویل ہونا، 3۔ اہل بیت ع کی شان میں غلو۔
ڈاکٹر فرمان علی نے اپنی پی ایچ ڈی کے تھیسز کے بنیادی اور اہم حصے یعنی اصلاحی مکاتب فکر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اصلاحی مکاتب کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔ 1۔ اعتقادی اصلاحی مکاتب فکر، 2۔ مناسکی اصلاحی مکاتب فکر، 3۔ سیاسی اصلاحی مکاتب فکر
انہوں نے مذکورہ بالا تینوں اصلاحی گروہوں کے مشترکہ اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکاتب شیعہ عقائد، رسومات، سماجی امور اور سیاست میں اصلاح اور نظر ثانی کی ضرورت کے قائل ہیں اور اپنی تقریروں، تحریروں اور سرگرمیوں کے ذریعے اسی کوشش میں مصروف عمل تھے اور ہیں۔
حجت الاسلام سعیدی نے کہا کہ ان اصلاحی مکاتب فکر کے مطابق، پاکستان کے شیعوں کے درمیان اعتقادی حوالے سے غلو اور تفویض جیسے انحرافی افکار سمیت مختلف اعتقادی انحرافات کی تبلیغ کی بہت کوششیں ہو رہی ہیں، لہذا ہمیں ان کے راستے کو روکنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عبادات اور رسم و رواج کے میدان میں اصلاح کی ضرورت کے قائلین کا کہنا ہے کہ نماز سمیت مختلف عبادات اور محافل و مجالس کے رسومات خاص طور پر عزاداری میں نت نئے انحرافات اور خرافات وجود میں آرہے ہیں۔ لہذا ان کا مقابلہ ضروری ہے۔ سیاسی دھارے میں اصلاح کے قائل گروہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کے لئے بہترین نظام سیاست اسلامی ریاست کا تصور ہے جسے شیعہ اصطلاح میں نظام ولایت فقیہ کہتے ہیں۔