۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حجۃ الاسلام موسی عرفانی

حوزہ/ جامعۂ روحانیت بلتستان کے شعبۂ تحقیقات کی جانب سے مرحلہ وار منعقد کی جانے والی علمی اور تحقیقاتی نشستوں کے سلسلے کی پہلی نشست قم میں منعقد ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۂ روحانیت بلتستان کے شعبۂ تحقیقات کی جانب سے مرحلہ وار منعقد کی جانے والی علمی اور تحقیقاتی نشستوں کے سلسلے کی پہلی نشست بروز جمعہ ۲ دسمبر ۲۰۲۲ء کو فاطمیہ ہال حسینیہ بلتستانیہ قم میں منعقد ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق، اس علمی نشست سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام ڈاکٹر موسیٰ عرفانی نے اپنے ڈاکٹریٹ کے تهیسیز کا scientific process بیان کیا۔

ان کے تھیسز کا موضوع «ائمه علیہم السلام کے سماجی اخلاقیات کے متعلق موجود روایتوں کا قران کے سماجی اخلاقیاتی اصولوں کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل» تھا۔

انہون نی اپنی علمی کاوش کے متعلق اظہار خیال کرنے کا موقع فراہم کرنے پر جامعۂ روحانیت کے صدر محترم اور شعبۂ تحقیقات اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح کی علمی نشستوں کی افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باقی علماء اور محققین کو اپنی علمی تحقیقات بھی ان جیسی علمی نشستوں میں پیش کرنے کی تاکید کی۔

انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کیلئے تحقیق کردہ موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کو قرآن پر پرکھنے کی روایت صدیوں سے ہمارے فقهاء کرام کا علمی شیوه رہا ہے، لیکن سیرت اور تاریخی روایتوں کے متعلق ایسا کوئی مؤثر قدم اب تک نہیں اٹهایا گیا ہے۔ جس کے باعث نہ فقط قدیم شیعہ امامیہ مصنفین کی کتابوں میں موجود سماجی اخلاقیات کی سینکڑوں غیر متعارف روایات بلا تکلیف ره گئیں بلکہ خود اس شعبے کا علمی قافلہ بہت سارے مسائل میں اختلاف کا شکار ہوتا رہا اور ذوق کے آئینے میں سیرت کی ان گزارشات کی خود پسند تفسیر یا تأول کرتے رہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نا ہماہنگ ماحول کے خاتمے کی راه تلاش کرتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ فقہی روایات کے برعکس، اخلاقی روایات کو ڈائریکٹ قران کی جداگانہ آیات پر نہیں پرکھا جا سکتا، کیونکہ ایسا کرنے سے مزید پچیدگیوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

حجۃ الاسلام موسی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ فقہی، تاریخی اور سیرت کی روایات میں کیا فرق ہے کہ ایک کو ڈائریکٹ قرآنی آیات پر پرکھا جا سکے اور دوسرے کو نہ پرکھ سکے؟ کہا کہ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اکثر فقہی احکام کے مصالح یا مفاسد یعنی نفع اور نقصان ہم سے پوشیده ہیں، جبکہ اخلاقی احکام کے مصالح اور مفاسد سب پر عیان ہیں۔

اپنی تحقیق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے معاصر کچھ نامور علمائے کرام (شہید باقر الصدر، شہید مطہری وغیره) کے نظریات سے الہام لیتے ہوئے قرآن کی آیات الاخلاق کو استخراج کرکے ان آیات کے باہمی روابط سے کچھ أصول استنباط کیے جو سماجی اخلاقیات کے قرآنی اصول کہلائیں گے۔ تاکہ ان اصول کو معیار قرار دیکر سیرت اہل بیت علیہم السلام سے متعلق تاریخی روایات کو ان اصولون پر پرکھ سکیں۔

ڈاکٹر موسی عرفانی نے اپنے تحقیقاتی مراحل کے کامیاب نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر ہم نے تاریخ و سیرت اہل بیت علیہم السلام سے متعلق، ان روایات کا راہ حل نکال دیا جو اگرچہ بظاہر معتبر کتاب میں نقل ہوئی ہیں، سند بھی صحیح ہے اور عقل سے بھی متصادم نہیں ہیں، لیکن اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کے متعلق دیگر روایات سے متصادم ہیں یا پھر عدالت و عصمت اہل بیت علیہم السلام سے ٹکراتی ہیں۔

انہوں نے اس راہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی روایات کو ان اصولوں پر پرکھیں گے جسے ہم نے قرآن سے استخراج اور استنباط کیا ہے۔ اگر ان اصولوں سے متصادم ہیں تو ہم ان تاریخی روایات کو قبول نہیں کریں گے اگرچہ وہ روایات، قبولیت کے ظاہری معیاروں کے مطابق ہی کیوں نہ ہوں۔

ڈاکٹر موسیٰ عرفانی کے استنباط کردہ اہم ترین قرآنی سماجی اخلاقیات کے اصول مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ عدل و انصاف کی رعایت
۲۔انسانی کرامت کا تحفظ
۳۔ سماجی وحدت و اتحاد

حجۃ الاسلام عرفانی نے اس اصول کو قران کی 277 اخلاقی آیات سے استنباط کیا ہے اور انہی أصولوں کی روشنی میں ہی اہل بیت علیہم السلام کی سیرت سے متعلق ان متعدد روایات کا تجزیہ کیا ہے، جو یا تو دیگر روایات سے متصادم ہیں یا پھر عصمت اہل بیت علیہم السلام کے خلاف ہیں۔

انہوں نے ان تمام process کی بہترین مثالوں کے ساتھ وضاحت کی اور آخر میں شرکاء کے سوالات کے بهی تفصیل سے جوابات دیئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .