حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہفتۂ تحقیق کی مناسبت سے ۱۶ دسمبر ۲۰۲۲ء کو جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہء تحقیق کی جانب سے حوزہ علمیہ قم میں مقیم بلتستان پاکستان سے تعلق رکھنے والے محققین اور قلمکاروں کے اعزاز میں ایک عالی شان علمی کانفرنس حسینیہ بلتستانیہ قم میں منعقد ہوئی جس میں محققین اور قلمکاروں کی علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں نفیس انعامات سے نوازا گیا۔
تفصیلات کے مطابق، کانفرنس سے تقریباً دو ہفتہ پہلے جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہء تحقیق نے بلتستان پاکستان کے محققین کے علمی و قلمی آثار اور سوانح حیات جمع کرنے کے لئے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا تاہم محققین نے جامعہ روحانیت بلتستان کے اس عظیم علمی پروجیکٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اپنے آثار اور زندگی نامہ اس مختصر عرصے میں جامعہ روحانیت بلتستان تک پہنچایا۔
جامعہ روحانیت بلتستان کے شعبہء تحقیق کے سربراہ کے مطابق، بلتستان پاکستان کے محققین کی تجلیل اور ان کے قلمی آثار کو خراج تحسین پیش کرنا ادارہ ہذا کی اولین ترجیح ہے۔
واضح رہے کہ جامعہ روحانیت بلتستان، بلتستان سے تعلق رکھنے والے قلمکاروں اور محققین کے آثار کی جمع آوری کا ارادہ رکھتا ہے اور یہ پروگرام اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
اس کانفرنس کے خطیب اور مہمان خصوصی نشر و احیائے آثار برصغیر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ جناب حجۃ الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان صاحب تھے۔
رپورٹ کے مطابق، اس عظیم الشان علمی کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور نظامت کے فرائض شعبہء تحقیق کے سربراہ نے انجام دیئے۔
حجت الاسلام طاہر اعوان نے تحقیق اور قلم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بلتستانی علمائے کرام کی تحقیقی خدمات کا تاریخچہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلتستان کے علماء کی تحقیقات اور تالیفات بین الاقوامی سطح کی ہیں۔
نشر و احیائے آثار برصغیر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ نے کہا کہ بلتستان کے علماء نے اگرچہ لکھنو، امروہہ اور حیدر آباد دکن کے علماء کی طرح زیادہ قلم نہیں اٹھایا ہے لیکن جہاں اور جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہاں حق ادا کیا ہے اور ایک منفرد شاہکار خلق کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قلم کی طرف کم توجہ دینے کے باوجود میری معلومات کے مطابق گذشتہ علمائے بلتستان نے ۴۰۰ سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کتابیں موجود نہیں ہیں۔ میرا بلتستان کے علماء اور محققین سے سوال ہے کہ یہ کتابیں کیوں نہیں ہیں اور فقط ان کتابوں کا نام کیوں باقی ہے؟ یقیناً یہ بلتستانی معاشرے کا علم و تحقیق اور کتابوں کی طرف کم توجہی کا نتیجہ ہے۔
علامہ طاہر اعوان نے جامعہ روحانیت کی اس طرف توجہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےکہا کہ ایسی صورتحال میں جامعہ روحانیت بلتستان کی طرف سے علمائے بلتستان کے علمی اور قلمی آثار کی جمع آوری کے لئے قدم اٹھانا قابل تحسین ہے۔ لیکن اس راہ کے جہاں بہت زیادہ فائدے ہیں وہاں کئی کٹھن مشکلات بھی ہیں، لہٰذا مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے علماء کے علمی آثار کو جمع کریں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس عظیم الشان علمی کانفرنس میں بلتستان سے تعلق رکھنے والی نامور اور علمی شخصیات سمیت طلاب کی بڑی تعداد نےشرکت کی۔
واضح رہے کہ جامعہ روحانیت بلتستان نے اس مختصر عرصے میں اپنے علمی اورقلمی آثار ارسال کرنے والے تقریباً ۲۵ محققین اور قلمکاروں کو اعزازی اسناد سے نوازا۔
آخر میں، صدر جامعہ روحانیت بلتستان حجۃ الاسلام سید احمد رضوی اور سکریٹری تحقیق نے کانفرنس میں شریک تمام محققین اور علمائے کام کا شکریہ ادا کیا۔