۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 396452
6 فروری 2024 - 07:20
امام موسی کاظم علیہ السلام

حوزہ|آپ کی 35 سالہ امامت کے دوران بنی عباس کے خلفاء منصور دوانقی، ہادی، مہدی اور ہارون رشید بر سر اقتدار رہے۔ منصور دوانقی اور مہدی عباسی کے دور خلافت میں آپ نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آخر کار 183ھ کو سندی بن شاہک کے زندان میں جام شہادت نوش کیا اور منصب امامت آپ کے فرزند امام رضا علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

امام موسی کاظم علیہ السلام

موسی بن جعفر (128۔183 ھ) امام موسی کاظم علیہ السلام کے نام سے مشہور، شیعوں کے ساتویں امام ہیں۔ آپ کے مشہور لقب کاظم اور باب الحوائج ہیں۔ آپ 128ھ میں ابو مسلم خراسانی کا بنی امیہ کے خلاف قیام کے دوران پیدا ہوئے۔ اور 148ھ میں اپنے والد امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپ کی 35 سالہ امامت کے دوران بنی عباس کے خلفاء منصور دوانقی، ہادی، مہدی اور ہارون رشید بر سر اقتدار رہے۔ منصور دوانقی اور مہدی عباسی کے دور خلافت میں آپ نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور آخر کار 183ھ کو سندی بن شاہک کے زندان میں جام شہادت نوش کیا اور منصب امامت آپ کے فرزند امام رضا علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگیا۔

آپؑ کی زندگی بنی عباس کے عروج کے زمانے میں گزری ہے۔ اس بنا پر آپ تقیہ سے کام لیتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی زندگی میں بنی عباس کے حکمرانوں اور ان کے مقابلے میں چلائی جانے والی علوی تحریکوں جیسے قیام شہید فخ وغیرہ کے بارے میں کوئی صریح رد عمل دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود آپ بنی عباس اور دیگر افراد کے ساتھ ہونے والے مناظرات اور علمی بحث و مباحثوں میں بنی عباس کی خلافت کو غیر قانونی قرار دیتے تھے۔

اسی طرح عیسائی اور یہودی علماء کے ساتھ بھی آپؑ کے مختلف مناظرات اور علمی گفتگو تاریخی اور حدیثی منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔ دوسرے ادیان و مذاہب کے علماء کے ساتھ آپؑ کے مناظرات مدمقابل کے پوچھے گئے سوالات اور اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔ مسند الامام الکاظمؑ میں آپ سے منقول 3000 ہزار سے زائد احادیث جمع کی گئی ہیں جن میں سے بعض احادیث کو اصحاب اجماع میں سے بعض نے نقل کیا ہے۔

امام کاظمؑ نے نظام وکالت کی تشکیل اور اسے مختلف علاقوں میں وسعت دینے کیلئے مختلف افراد کو وکیل کے عنوان سے ان علاقوں میں مقرر کیا تھا۔ دوسری طرف سے آپؑ کی زندگی شیعہ مذہب میں مختلف گروہوں کے ظہور کے ساتھ ہم زمان تھی اور اسماعیلیہ، فطحیہ اور ناووسیہ جیسے فرقے آپ کی حیات مبارکہ ہی میں وجود میں آگئے تھے جبکہ واقفیہ نامی فرقہ آپ کی شہادت کے بعد وجود میں آیا۔

شیعہ و سنی منابع آپ کے علم، عبادت، بردباری اور سخاوت کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ آپ کو کاظم اور عبد صالح کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ بزرگان اہل‌ سنت ایک دین شناس ہونے کے عنوان سے آپ کا احترام کرتےتھے اور شیعوں کی طرح آپ کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ آپ کا مزار آپ کے پوتے امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ عراق کے شہر کاظمین میں واقع ہے جو اس وقت حرم کاظمین کے نام سے مسلمانوں، خاص کر شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔

سوانح حیات

امام موسی کاظمؑ نے سنہ 127 ہجری کے ذی الحجہ میں[1] یا 7 صفر سنہ 128 ہجری[2] کو مکہ و مدینہ کے درمیان ابواء نامی مقام پر اس وقت دنیا میں قدم رکھا جب حضرت امام جعفر صادقؑ اپنی زوجہ حمیدہ خاتون کے ہمراہ حج سے واپس تشریف لا رہے تھے۔[3] تاہم بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپؑ 129ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ہیں۔[4] ایران کے سرکاری کیلنڈر میں ساتویں امام کی ولادت 20 ذی الحجہ درج ہوئی ہے۔[5] بعض مآخذ میں امام کاظمؑ سے امام صادقؑ کی شدید محبت کا ذکر آیا ہے۔[6] احمد برقی کی روایت کے مطابق امام کاظمؑ کی ولادت کے بعد امام صادقؑ نے تین دن تک لوگوں کو کھانا کھلایا۔[7]

امام کاظم کے القاب اور کنیتیں

امام موسی بن جعفر بن محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب کا نسب چار واسطوں سے امام علیؑ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادقؑ اور مادر گرامی حمیدہ خاتون ہیں۔[8] آپ کی کنیت ابو ابراہیم، ابو الحسن ماضی اور ابو علی ذکر ہوئی ہیں۔ غصے کو پی جانے کی بنا پر کاظم [9] اور کثرتِ عبادت کی وجہ سے عبد صالح کا لقب دیا گیا۔[10] باب الحوائج نیز آپ کے القاب میں سے ہے۔[11] اور مدینے کے لوگ انہیں زین المجتہدین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔[12]

موسی بن جعفرؑ کی ولادت امویوں سے عباسیوں کی طرف حکومت کے منتقلی کے دور میں ہوئی۔ آپ کے چار سال کی عمر میں پہلا عباسی خلیفہ مسند حکومت پر بیٹھا۔ منابع تاریخی میں امام کاظم کی زندگی کے امامت سے پہلے دور کے متعلق کوئی معلومات ذکر نہیں ہے البتہ بچپن میں ابو حنیفہ[13] اور دوسرے ادیان کے علما سے مدینہ میں ہونے والی چند گفتگو مذکور ہیں۔[14]

مناقب کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ امام ایک اجنبی شخص کی حیثیت سے شام کے ایک دیہات میں وارد ہوئے تو ایک راہب سے گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں راہب، اس کی بیوی اور اس کے ساتھی بھی مسلمان ہوئے۔[15] اسی طرح حج اور عمرے کے بارے میں کچھ روایات مذکور ہیں۔[16] چند مرتبہ خلفائے عباسی کی طرف سےامام بغداد میں احضار ہوئے۔ اس کے علاوہ امام ساری زندگی مدینہ میں رہے۔

ازواج اور اولاد

امام موسی کاظم کی اولاد

آپ کی ازواج کی تعداد واضح نہیں ہے لیکن منقول ہے کہ ان میں سب سے پہلی خاتون امام رضاؑ کی والدہ نجمہ خاتون ہیں۔[17] آپ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں تاریخی روایات مختلف ہیں۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ امام کاظمؑ کی 37 اولاد ہیں جن میں 18 بیٹے اور 19 بیٹیاں شامل ہیں:[18] امام رضاؑ، إبراہیم، شاہچراغ ، حمزہ، إسحاق بیٹوں میں سے ہیں جبکہ فاطمہ معصومہ و حکیمہ آپ کی بیٹیوں میں سے ہیں۔[19] امام کاظمؑ کی نسل موسوی سادات سے مشہور ہیں۔[20]

امام کاظمؑ کے والد ماجد امام صادقؑ کی شہادت کے بعد سنہ 148 ہجری میں 20 سال کی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا۔[21] آپ کی امامت بنی عباس کے چار خلیفوں کی خلافت کے دور میں تھی۔[22] امامت کے دس برس منصور عباسی کی خلافت (حکومت136ھ-158ھ) میں، 11 سال مہدی عباسی کی خلافت (حکومت158-169ھ) میں، ایک سال ہادی عباسی کی خلافت (حکومت169-170ھ) میں اور 13 سال ہارون کی خلافت (حکومت 170-193ھ) میں گزارے۔[23] امام کاظمؑ کی امامت 35 سالوں پر محیط تھی۔ سنہ 183ھ کو آپ کی شہادت کے بعد امامت آپ کے بیٹے امام رضاؑ کی طرف منتقل ہوگئی۔[24]

نصوص امامت

شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام اللہ تعالی کی طرف سے معین ہوتا ہے اور امام کو پہچاننے کے طریقوں میں سے ایک نص (رسول اللہ یا سابق امام کی طرف سے موجودہ امام کی امامت پر تصریح) ہے۔[25] امام صادقؑ نے متعدد موارد میں امام کاظمؑ کی امامت کے بارے میں اپنے خاص اصحاب کو بتایا تھا۔ اور کافی،[26] ارشاد،[27] اعلام الوری[28] اور بحارالانوار،[29] میں سے ہر ایک امام موسی کاظمؑ کی امامت کے بارے میں ایک باب پایا جاتا ہے جس میں بالترتیب 16، 46، 12، اور 14 روایات درج ہیں۔[30] من جملہ

ایک روایت کے مطابق فیض بن مختار کہتا ہے کہ میں نے امام صادقؑ سے پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہوگا؟ اسی اثنا آپ کے بیٹے موسی آگئے تو امام صادقؑ نے ان کی معرفی کروایی۔[31]

امام صادق) کے فرزند علی بن جعفر نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے اپنے بیٹے موسی کے متعلق فرمایا:

فَإِنَّهُ أَفْضَلُ وُلْدِی وَ مَنْ أُخَلِّفُ مِنْ بَعْدِی وَ هُوَ الْقَائِمُ مَقَامِی وَ الْحُجَّةُ لِلہِ تَعَالَى عَلَى كَافَّةِ خَلْقِهِ مِنْ بَعْدِی‏[32] وہ میرا افضل ترین فرزند ہے اور یہ وہ ہے جو میرے بعد میری جگہ لے گا اور میرے بعد مخلوق خدا پر اللہ کی حجت ہے۔ نیز عیون اخبار الرضا سے منقول ہوا ہے کہ ہارون رشید نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے موسی بن جعفر کو برحق امام اور پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے شایستہ ترین شخص قرار دیا اور اس کی اپنی پیشوائی کو ظاہری اور طاقت کے بل بوتے پر قرار دیا۔[33][یادداشت 1]

وصیت امام صادقؑ اور بعض شیعوں کی پریشانی

مآخذ میں لکھا گیا ہے کہ عباسیوں کی طرف سے مشکلات کے پیش نظر امام صادقؑ نے امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر عباسی خلیفہ سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی معرفی کیا۔[34] اگرچہ اپنے بعد کے لئے امام صادقؑ کو امام کے عنوان سے اصحاب کے لئے معرفی کیا تھا اس کے باوجود شیعوں کے لئے ابہام ایجاد کیا تھا۔ اس دور میں مؤمن طاق اور ہشام بن سالم جیسے جلیل صحابی بھی شک اور تردید کے شکار ہوگئے اور امامت کے مدعی عبد اللہ افطح کی طرف گئے اور زکات کے بارے میں اس سے سوالات کئے اور جواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور پھر امام موسی کاظمؑ کے پاس آئے اور آپ کے جوابات سے مطمئن ہوئے اور آپ کی امامت کو مان گئے۔[35]

شیعوں میں گروہ بندی

امام کاظمؑ کی امامت کے دوران اسماعیلیه، فطحیه اور ناووسیه فرقے وجود میں آئے۔ اگرچہ امام صادقؑ کی زندگی میں ہی شیعوں میں گروہ بندی کا زمینہ فراہم ہوا تھا لیکن گروہ نہیں بنے۔ لیکن امام صادقؑ کی شہادت کے بعد امام کاظمؑ کی امامت کے آغاز میں شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آئے؛ ان میں سے بعض نے امام صادقؑ کے بیٹے اسماعیل کی موت سے انکار کیا اور اسے امام ماننے لگے۔ ان میں سے بعض نے اسماعیل کی زندگی سے مایوس ہوکر ان کے بیٹے محمد کو امام مانا۔ یہ گروہ اسماعیلیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ بعض نے عبداللہ افطح کو امام مانا اور فطحیہ کہلائے لیکن ان کی وفات کے بعد جو امام صادقؑ کی شہادت کے 70 دن بعد واقع ہوئی، دوبارہ امام موسی کاظمؑ کی امامت کے قائل ہوگئے۔ بعض نے ناووس نامی شخص کی پیروی میں امام صادقؑ کی امامت سے منصرف ہوئے اور بعض آپ کے بھائی محمد بن جعفر دیباج کی امامت کے قائل ہوئے۔[36]

غالیوں کی سرگرمیاں

امام کاظم کے دور امامت میں غالیوں نے بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس دور میں فرقہ بشیریہ وجود میں یا جو امام کاظم کا صحابی محمد بن بشیر سے منسوب تھا۔ وہ امام کی زندگی میں امام پر جھوٹ و افترا پردازی کرتا تھا۔[37] محمد بن بشیر کہتا تھا کہ لوگ جنہیں موسی بن جعفر سے پہچانتے ہیں وہ وہی موسی بن جعفر نہیں جو امام اور حجت خدا ہیں[38] اور وہ کہتا تھا کہ اصلی موسی بن جعفر اس کے پاس ہے اور امام کو انہیں دکھا سکتا ہے۔[39] وہ شعبدہ بازی کا ماہر تھا اور امام کاظمؑ جیسا ایک چہرہ بنایا تھا اور اسے لوگوں کو دکھاتا تھا اور بعض لوگ اس کے دھوکے میں آگئے تھے۔[40] محمد بن بشیر اور اس کے ماننے والوں نے امام کاظمؑ کی شہادت سے پہلے ہی یہ افواہ پھیلائی تھی کہ امام کاظمؑ زندان نہیں گئے ہیں اور وہ زندہ ہیں ان کو موت نہیں آتی ہے۔[41] امام کاظم محمد بن بشیر کو نجس سمجھتے اور اس پر لعنت کرتے تھے نیز اس کو قتل کرنا جائز سمجھتے تھے۔[42]

علمی خدمات

امام کاظم کی مختلف علمی فعالیتیں نقل ہوئی ہیں؛ جو روایات، مناظرات اور علمی گفتگو کی صورت میں شیعہ حدیثی کتابوں میں درج ہوئی ہیں۔[43]

امام کاظم علیہ السلام کا فرمان

دنیا سے محبت کرنے والے کے دل سے آخرت کا خوف ختم ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بندے کو علم دیا جائے اور اس کی دنیا سے محبت بڑھ جائے تو وہ خدا سے مزید دور ہو جائے گا اور اس پر خدا کا غضب بڑھے گا۔ابن‌ شعبہ حرانی، تحف‌العقول، 1404ھ، ص399.

روایات

شیعہ منابع میں اکثر امام کاظم سے احادیث منقول ہوئی ہیں۔ جن میں سے اکثر تعداد کلامی جیسے توحید[44]، بدا[45] اور ایمان[46] نیز اخلاق کے عنوان سے منقول ہیں۔[47]اسی طرح جوشن صغیر جیسی مناجات اسی امام سے مذکور ہیں۔ ان سے منقول روایات کی اسناد میں الکاظم، ابی‌ الحسن، ابی‌ الحسن الاول، ابی‌ الحسن الماضی، العالم[48] و العبد الصالح سے امام کو یاد کیا گیا ہے۔ عزیز الله عطاردی نے 3،134 احادیث امام کاظم سے اکٹھی کی ہیں جنہیں مُسْنَدُ الامام الکاظم کے نام سے اکٹھا کیا گیا ہے [49] اہل سنت عالم دین ابو عمران مروزی نے مسند امام موسی کاظم کے عنوان سے بعض احادیث ذکر کی ہیں۔[50]

امام کاظمؑ سے بعض دیگر روایات بھی منقول ہیں:علی بن جعفر، امام کاظمؑ کے بھائی کی المسائل کے نام سے ایک کتاب تھی جس میں امام کاظمؑ سے کئے گئے سوالات اور امامؑ کے جوابات درج کیا تھا۔[51] یہ کتاب فقہ کے موضوع پر ہے۔[52] اور مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتہا کے نام سے موسسہ آل البیت کی طرف سے نشر ہوئی ہے۔

عقل کے بارے میں امام سے منسوب ایک رسالہ لکھا گیا جس میں ہشام بن حکم کو خطاب کیا گیا ہے۔[53]

فتح بن عبدالله کے سولات کے جواب میں ایک رسالہ توحید کے نام سے امام کے حوالے سے مذکور ہے۔[54]

علی بن یقطین نے بھی امام موسی بن جعفر سے مسائل دریافت کئے جو مسائل عن ابی الحسن موسی بن جعفر‌ کی صورت میں انہوں نے لکھے۔[55]

مناظرے اور مکالمے

امام کاظم کے مناظرات اور گفتگو مختلف کتب میں مذکور ہیں جن میں سے بعض خلفائے بنی عباس،[56] یہودی دانشمندوں،[57] مسیحیوں،[58] ابو حنیفہ[59] اور دیگران سے منقول ہیں۔ باقر شریف قرشی نے تقریبا آٹھ مناظرے اور گفتگو مناظرے کے عنوان کے تحت ذکر کی ہیں۔[60] امام کاظم ؑ نے مہدی عباسی کے ساتھ فدک اور قرآن میں حرمت خمر کے متعلق گفتگو کی۔[61] امام ؑ نے ہارون عباسی سے مناظرہ کیا۔ جب کہ وہ اپنے آپ کو پیامبرؐ سے منسوب کرکے اپنے آپ کو پیغمبر کا رشتہ دار سمجھتا تھا، امام کاظمؑ نے اس کے سامنے اس کی نسبت اپنی رشتہ داری کو رسول اکرم سے زیادہ نزدیک ہونے کو بیان کیا۔[62] موسی بن جعفر نے دیگر ادیان کے علما سے بھی مناظرے کئے جو عام طور پر سوال و جواب کی صورت میں تھے جن کے نتیجے میں وہ علما مسلمان ہوگئے۔[63]

سیرت

امام موسی کاظم کی خدا سے ارتباط، لوگوں اور حاکمان وقت کے روبرو ہونے کی روشیں مختلف تھیں۔ خدا سے ارتباط کی روش کو سیرت عبادی، حاکمان وقت اور لوگوں سے ارتباط کی روش کو سیاسی اور اخلاقی روش سے تعبیر کیا گیا ہے۔

عبادی سیرت

شیعہ و سنی منابع کے مطابق امام کاظم ؑبہت زیادہ اہل عبادت تھے۔ اسی وجہ سے ان کے لئے عبد صالح استعمال کیا جاتا ہے۔[64] بعض روایات کی بنا پر حضرت امام موسی کاظم اس قدر زیادہ عبادت کرتے تھے کہ زندانوں کے نگہبان بھی ان کے تحت تاثیر آ جاتے۔[65] شیخ مفید موسی بن جعفر کو اپنے زمانے کے عابد ترین افراد میں سے شمار کرتے ہیں۔ ان کے بقول گریہ کی کثرت کی وجہ سے آپ کی ریش تر ہو جاتی۔ وہ عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِكَ فَلْيَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ کی دعا بہت زیادہ تکرار کرتے تھے۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابِ کی دعا سجدے میں تکرار کرتے۔[66] یہانتک کہ ہارون کے حکم سے جب زندان تبدیل کیا جاتا تو اس پر خدا کا شکر بجا لاتے کہ خدا کی عبادت کیلئے پہلے سے زیادہ فرصت مہیا کی ہے اور کہتے: خدایا! میں تجھ سے عبادت کی فرصت کی دعا کرتا تھا تو نے مجھے اس کی فرصت نصیب فرمائی پس میں تیرا شکر گزار ہوں۔[67]

امام موسی کاظم علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش: الْمُلْكُُ‏ للہِ وَحْدَه(سلطنت صرف اللہ کی ہے)[68] اور حَسبِيَ اللهُ(میرے لئے اللہ کی ذات ہی کافی ہے) منقول ہیں۔[69]

اخلاقی سیرت

مختلف شیعہ اور سنی منابع میں امام موسی کاظم کی بردباری[70] اور سخاوت کا تذکرہ موجود ہے۔[71] شیخ مفید نے انہیں اپنے زمانے کے ان سخی ترین افراد میں سے شمار کیا ہے کہ جو فقیروں کیلئے خود خوراک لے کر جاتے تھے[72]. ابن عنبہ نے امام موسی کاظم کی سخاوت کے متعلق کہا ہے: وہ رات کو اپنے ہمراہ درہموں کا تھیلا گھر سے باہر لے جاتے ہر کسی کو اس میں سے بخشتے یا جو اس بات کے منتظر ہوتے انہیں بخشتے۔ اس بخشش کا سلسلہ یہانتک جاری رہا کہ زمانے میں ان کے درہموں کا تھیلا ایک ضرب المثل بن گیا تھا۔[73] اسی طرح کہا گیا ہے کہ موسی بن جعفر ان لوگوں کو بھی بخشش سے محروم نہیں رکھتے تھے جو انہیں اذیت دیتے تھے۔ جب انہیں خبر دی جاتی کہ فلاں انہیں تکلیف و آزار پہچانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ہدیہ بھجواتے۔[74] اسی طرح شیخ مفید امام موسی کاظم کو اپنے گھر اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کی سب سے زیادہ سعی کرنے والا سمجھتے ہیں۔[75]

امام موسی کاظم کو کاظم کا لقب دینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے غصے کو کنٹرول کرتے تھے۔[76] مختلف روایات میں آیا ہے کہ آپ دشمنوں اور اپنے ساتھ بدی کرنے والوں کے مقابلے میں اپنا غصہ پی جاتے تھے۔[77] بشر حافی نے مشائخ صوفیہ کا مرتبہ حاصل کرنے کے بعد آپ کے کلام اور اخلاق سے متاثر ہو کر توبہ کی۔[78]

سیاسی سیرت

بعض منابع کہتے ہیں کہ امام تعاون نہ کرنے اور مناظروں جیسے ذرائع کے ساتھ خلفائے بنی عباس کی حکومت کے ناجائز ہونے کو بیان کرتے اور اس حکومت کی نسبت لوگوں کے اعتماد کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔[79]۔ درج ذیل مقامات کو نمونے کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے:عباسی خلفا جب اپنی حکومت کو مشروعیت بخشنے کی خاطر اپنی نسبت اور نسب رسول خدا سے جوڑتے اور یہ ظاہر کرتے کہ بنی عباس رسول خدا کے نزدیکی رشتہ داروں میں سے ہیں جیسا کہ امام اور ہارون کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ہوا، تو امام موسی کاظم آیت مباہلہ سمیت قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہ کے ذریعے اپنے نسب کو رسول خدا سے ملا کر ثابت کرتے ہیں۔[80]

جب مہدی عباسی رد مظالم کر رہا تھا تو آپ نے اس سے فدک کا مطالبہ کیا۔[81] مہدی نے آپ سے تقاضا کیا کہ آپ فدک کے حدود معین کریں تو امام نے اس کے ایسے حدود معین کیے کہ جو ان کی حکومت کے برابر تھے۔[82] ۔

ساتویں امام اپنے اصحاب کو عباسی حکومت سے تعاون نہ کرنے کی سفارش کرتے چنانچہ آپ نے صفوان جمال کو منع کیا کہ وہ اپنے اونٹ ہارون کو کرائے پر مت دے۔[83] اسی دوران ہارون الرشید کی حکومت میں وزارت پر فائز علی بن یقطین کو عباسی حکومت میں باقی رہنے کو کہا تا کہ وہ شیعوں کی خدمت کر سکیں۔[84]

اس کے باوجود تاریخی مستندان میں حضرت امام موسی کاظم کی طرف سے عباسی حکومت کی کھلم کھلا مخالفت کی کوئی خبر ذکر نہیں ہوئی ہے۔ آپ اہل تقیہ تھے اور اپنے شیعوں کو اسی کی وصیت کرتے جیسا کہ آپ نے مہدی عباسی کو اس کی ماں کی وفات پر تسلیت کا خط لکھا۔[85] روایت کے مطابق جب ہارون نے آپ کو طلب کیا تو آپ نے فرمایا: حاکم کے سامنے تقیہ واجب ہے لہذا میں اس کے سامنے جا رہا ہوں۔ اسی طرح آپ آل ابی طالب کی شادیوں اور نسل کو بچانے کی خاطر ہارون کے ہدایات قبول کرتے۔[86]۔ یہاں تک کہ آپ نے علی بن یقطین کو خط لکھا کہ خطرے سے بچاؤ کی خاطر کچھ عرصہ کیلئے اہل سنت کے مطابق وضو کیا کرے۔[87]۔

امام کاظمؑ اور علویوں کے قیام

حضرت موسی بن جعفر کے زمانے میں عباسیوں کی حکومت کے دوران علویوں نے متعدد قیام کئے۔ عباسیوں نے اہل بیت کی حمایت اور طرفداری کا نعرہ بلند کرکے قدرت حاصل کی تھی لیکن کچھ ہی مدت میں علویوں کے سخت دشمن بن گئے۔ لہذا اس بنا پر بہت سے علویوں کو قتل کیا اور بہت سوں کو قید کیا۔[88] عباسیوں کی اس سخت گیری کی وجہ سے بہت سے علویوں نے ان کے خلاف قیام کا اقدام کیا۔ قیام نفس زکیہ، ادریسیوں کی حکومت کی تشکیل اور شہید فخ کا قیام انہی قیاموں میں سے ہیں۔ قیام فخ سنہ 169 ہجری میں موسی بن جعفر کی امامت اور ہادی عباسی کی خلافت سے متصل ہے۔[89] امام ان قیاموں کا حصہ نہیں بنے اور نہ ہی امام کی جانب سے ان قیاموں کی واضح طور پر کہیں تائید نقل ہوئی ہے۔ یہانتک کہ یحیی بن عبدالله نے طبرستان میں قیام کے بعد امام کو ایک خط میں اس کی تائید نہ کرنے کا گلہ کیا۔[90] ۔

چوتھی صدی ہجری کے زیدی مسلک کے مورخین احمد بن ابراهیم حسنی اور احمد بن سهل‌ کا کہنا ہے کہ امام کاظمؑ واقعہ فخ کے دوران مکہ میں حج انجام دے رہے تھے۔[91] ان دونوں کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران عباسی خلافت کے آلہ کار موسی بن عیسی نے امام کو بلایا اور امام وہاں گئے اور جنگ ختم ہونے تک وہی اس کے ساتھ رہے۔[92] اس روایت کے مطابق جنگ ختم ہونے کے بعد امام منی چلے گئے، آپ کے پاس کٹے ہوئے لائے گئے۔[93] ابوالفرج اصفهانی کی نقل کے مطابق جب امام کاظمؑ کی نظر صاحب فخ پر پڑی تو آیہ استرجاع کی تلاوت کی، اس کی خوبیاں بیان کیا اور اسے ایک نیک انسان کے طور پر معرفی کیا۔[94] بیہقی لباب الانساب میں کہتے ہیں کہ صاحب فخ کی وفات کے بعد امام کاظمؑ نے اس کے جنازے پر نماز میت پڑھی۔۔[95]

ساتویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین سید ابن‌طاووس کا کہنا ہے کہ ہادی عباسی قیام فخ کو امام کے حکم سے سمجھتا تھا۔[96] اسی وجہ سے ہادی نے امام کو قتل کرنے دھمکی بھی دی تھی۔[97] لیکن کلینی کی کتاب کافی میں نقل کردہ روایت کے مطابق جب صاحب فخ نے قیام کیا تو امام کاظمؑ سے بیعت مانگا، امام نے بیعت کو ٹھکرایا اور اس سے کہا کہ آپ کو بیعت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، اس نے بھی ایسا ہی کیا۔[98] عبدالله مامقانی کا کہنا ہے کہ صاحب فخ کی طرف سے بیعت مانگنا ایک ڈھونک تھا وہ چاہتے تھے کہ اگر اس کام میں کامیاب ہوئے تو خلافت امام کے حوالے کریں، اسی وجہ سے امام نے تقیہ کرتے ہوئے ان کو ظاہری طور پر قیام سے منع کیا لیکن باطن میں امام راضی تھے، اسی طرح ان کی شہادت کے بعد ان کی مغفرت کے لئے دعا کی۔[99] ان کے برخلاف بعض محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ صاحب فخ کی شخصیت کے بارے میں روایات موجود ہیں لیکن وہ اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی ہیں کہ ان کا قیام ائمہ کی تائید سے ہوا ہو۔[100] 15ویں ہجری کے مورخ رسول جعفریان کہتے ہیں کہ اگرچہ صاحب فخ کا قیام، بنی عباس کے خلاف علویوں کے سالم قیام میں سے ایک تھا لیکن انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ یہ قیام امام کاظمؑ کے حکم سے ہوا ہو؛ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ ائمہ کی ان جیسے قیاموں کو حمایت حاصل نہیں تھی کیونکہ اس مسئلے میں یہ لوگ علویوں کے ساتھ جھگڑے میں تھے اور ان کے درمیان بعض اختلافات وجود میں آگئے۔[101]

اسیری اور قیدخانہ

امام کاظمؑ، اپنے دورِ امامت میں کئی مرتبہ عباسی خلفا کے ہاتھوں اسیر ہو کر زندان چلے گئے۔ پہلی بار مہدی عباسی کے دور حکومت میں خلیفہ کے حکم سے امام کو مدینہ سے بغداد لے جایا گیا۔[102] ہارون عباسی نے امامؑ کو دو مرتبہ قید کیا لیکن تاریخ پہلی مدتِ قید کے بارے میں خاموش ہے جبکہ دوسری مدتِ قید سنہ 179 سے 183 ہجری تک ثبت کی گئی ہے جو امامؑ کی شہادت پر تمام ہوئی۔[103]

دوسری مرتبہ ہارون عباسی نے 20 شوال سنہ 179 میں امامؑ کو مدینہ سے گرفتار کیا[104] اور7 ذی الحجہ کو بصرہ میں عیسی بن جعفر کے قیدخانے میں قید کئے گئے۔[105]

شیخ مفید کا کہنا ہے کہ ہارون نے سنہ 180ھ میں عیسی بن جعفر کے نام ایک خط لکھا جس میں امام کو قتل کرنے کا کہا، لیکن اس نے نہیں مانا۔[106] کچھ عرصہ بعد آپ کو بغداد میں فضل بن ربیع کی زندان میں منتقل کیا گیا۔ امامؑ نے اپنی عمر کے آخری لمحات کو فضل بن یحیی اور سندی بن شاہک کے قید خانے میں گزارے۔[107]

امام کاظمؑ کے زیارت نامے میں الْمُعَذَّبِ فِي قَعْرِ السُّجُون‏؛ وہ جسے زندان کے تہہ خانے کی کال کوٹھڑیوں میں اذیت دی گئی کی عبارت سے آپ کو سلام دیا گیا ہے۔[108]زیارت نامے میں آپ کے زندان کو ظُلَم‌ المطامیر سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ مطمورہ اس قیدخانے کو کہا جاتا ہے چو کنویں کی مانند ہو اور جس میں پاؤں پھیلانے اور سونے کی جگہ نہ ہو، اسی طرح چونکہ بغداد دریائے دجلہ کے قریب ہے اس لئے اس کے بیسمنٹ مرطوب ہوتے تھے اور نمی (مطمورہ) پائی جاتی تھی۔ [109]

عباسی خلفا کے ہاتھوں امام کاظمؑ کی گرفتاری کے اسباب میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں چنانچہ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ عباسی دربار کے وزیر یحیی برمکی کی حسادت یا پھر امامؑ کے بھائی علی بن اسماعیل بن جعفر کی ہارون عباسی کے پاس چغل خوری اور بہتان تراشی آپؑ کی گرفتاری کا سبب بنے۔[110]

کہا گیا ہے کہ ہارون شیعوں کی امام کاظمؑ کے ہاں آمد و رفت سے بہت حساس تھا اسے یہ خوف لاحق تھی کہ شیعوں کا امامت پر عقیدہ اس کی حکومت کو کمزور کرے گا۔[111] اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام کاظمؑ کی گرفتاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امام کی طرف سے تقیہ کرنے کا کہنے کے باوجود هشام بن حکم جیسے بعض شیعہ رعایت نہیں کرتے تھے۔[112] ان نقل کے مطابق ہشام بن حکم کے مناظرے امام علیہ السلام کو زندان لے جانے کا باعث بنے۔[113]

شہادت

امام کاظمؑ کی عمر کے آخری ایام سِنْدی بن شاهِک کے قید خانے میں گزرے۔ شیخ مفید کہتے ہیں کہ سندی نے هارون الرشید کے حکم سے امام کو زہر دیا اور تین دن کے بعد آپ شہید ہوئے۔[114] مشہور قول کے مطابق[115] آپ کی شہادت بروز جمعہ 25 رجب 183ھ کو بغداد میں واقع ہوئی۔[116] لیکن شیخ مفید کے نقل کے مطابق آپ کی شہادت 24 رجب کو واقع ہوئی۔[117] امام کاظمؑ کی شہادت کی تاریخ اور جگہ کے بارے میں بعض دیگر اقوال بھی پائے جاتے ہیں؛ بعض نے سنہ 181 اور بعض نے 186ھ کہا ہے۔[118]

مناقب نے اخبار الخلفا سے نقل کیا ہے کہ امام کاظمؑ نے جب ہارون الرشید کے حکم سے جب فدک کا حدود اربعہ معین کیا تو اس طرح سے معین کیا کہ اس وقت کے جہان اسلام کی سرحدوں کو شامل تھا جس پر ہارون کو غصہ آیا اور کہا اس طرح سے آپ نے ہمارے لئے کچھ نہیں رکھا اور یہی سے امام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔[119]

امام کاظمؑ شہید ہونے کے بعد سندی بن شاہک نے یہ دکھانے کے لئے کہ امامؑ طبیعی موت مرے ہیں، بغداد کے معروف بعض فقہا کو بلایا اور امام کے لاش کو انہیں دکھایا تاکہ انہیں پتہ چلے کہ بدن پر کوئی زخم نہیں ہے۔ اور اس کے حکم سے آپ کا جسم بے جان بغداد کے پل پر رکھ دیا جائے اور اعلان کیا جائے کہ آپ طبیعی موت اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔[120] آپ کی شہادت کی نوعیت کے بارے میں نقل مختلف ہیں؛ اکثر مورخین کے مطابق یحیی بن خالد اور سندی بن شاہک نے آپ کو زہر دیا[121] جبکہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ کو ایک بچھونے میں لپیٹ دیا گیا جس کی وجہ سے آپ کا دم گھٹ گیا اور شہید ہوگئے ہیں۔[122]

امام کاظمؑ کا جنازہ عام لوگوں کو دکھانے کے لئے رکھنے کی دو وجوہات بیان ہوئی ہیں: پہلی وجہ اس سے یہ ثابت کریں کہ امام طبیعی موت وفات پاگئے ہیں دوسری وجہ یہ تھی کہ جو لوگ مہدویت کا عقیدہ رکھتے تھے اسے باطل کیا جاسکے۔[123]

امام موسی کاظمؑ کو منصور دوانیقی کے خاندان کے قبرستان جو قریش قبرستان سے مشہور تھا میں دفن کردیا گیا۔[124] آپ کا مدفن حرم کاظمین سے مشہور ہے۔ کہا گیا ہے کہ عباسیوں کے قبرستان میں دفنانے کی وجہ یہ تھی کہ امام کی قبر شیعوں کے اجتماع کا مرکز نہ بن سکے۔[125] بغداد کے پاس کاظمین میں امام کاظمؑ اور امام جوادؑ کے مقبرے حرم کاظمین کے نام سے مشہور ہیں۔ مسلمانوں اور خاص طور شیعوں کیلئے زیارت گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امام رضاؑ سے منقول روایت کے مطابق امام موسی کاظم کی زیارت کا ثواب رسول اللہ، حضرت علیؑ اور امام حسینؑ کی زیارت کے برابر ہے۔[126]

وکیل اور اصحاب

امام موسی کاظم کے اصحاب کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ ان کی تعداد میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے: شیخ طوسی نے ان اصحاب کی تعداد 272 ذکر کی ہے۔[127] برقی نے ان کی تعداد 160 بتائی ہے۔ لیکن قرشی، برقی کی تعداد کو درست نہیں سمجھتے ہیں اور انہوں نے خود[128] اصحاب کی تعداد 320 ذکر کی ہے۔

علی بن یقطین، ہشام بن حکم، ہشام بن سالم، محمد بن ابی عمیر، حماد بن عیسی، یونس بن عبد الرحمن، صفوان بن یحیی و صفوان جمال امام کاظم کے ان اصحاب میں سے ہیں کہ جنہیں بعض نے اصحاب اجماع میں شمار کیا ہے۔[129] امام کی شہادت کے بعد بعض اصحاب جیسے علی بن ابی حمزه بطائنی، زیاد بن مروان اور عثمان بن عیسی نے علی بن موسی الرضا ؑ کی امامت کو قبول نہیں کیا اور امام موسی کاظم کی امامت پر توقف کیا۔[130] یہ گروہ واقفیہ کے نام سے معروف ہوا۔ البتہ ان میں سے بعض نے دوبارہ امام علی بن موسی رضا کی امامت کو قبول کر لیا۔[131]

وکالت کا نظام

امام کاظم نے اپنے زمانے میں شیعوں کے باہمی رابطے اور ان کی اقتصادی توان بڑھانے کی خاطر امام جعفر صادق کے زمانے میں قائم ہونے والے وکالت کے شعبے کو وسعت دی۔ امام موسی کاظم نے کچھ اصحاب کو مختلف جگہوں پر وکیل کے عنوان سے بھیجا۔ کہا گیا ہے کہ منابع میں 13 افراد کے نام وکیل کے طور پر ذکر ہوئے ہیں۔[132] بعض منابع کے مطابق کوفہ میں علی بن یقطین اور مفضل بن عمر، بغداد میں عبد الرحمان بن حجاج، قندھار میں زیاد بن مروان، مصر میں عثمان بن عیسی، نیشاپور میں ابراہیم بن سلام اور اہواز میں عبدالله بن جندب امام کی جانب سے وکیل تھے۔[133] مختلف روایات کے مطابق شیعہ حضرات اپنا خمس وکلا کے ذریعے امام موسی کاظم تک پہنچاتے یا خود امام کو دیتے۔ شیخ طوسی نے کچھ وکلا کے واقفی ہونے کا سبب ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لوگ اپنے پاس جمع شدہ مال کی محبت میں واقفی ہو گئے۔[134] علی بن اسماعیل بن جعفر نے ہارون عباسی کو ایک خبر دی جس کی وجہ سے امام موسی کاظم کو زندان جانا پڑا، اس خبر میں آیا ہے کہ اسے شرق و غرب سے بہت زیادہ مال بھجوایا گیا، وہ بیت المال اور خزانے کا صاحب تھا کہ جس میں مختلف حجم کے بہت زیادہ سکے پائے گئے۔[135]

شیعوں کے ساتھ ارتباط کی ایک روش خطوط کی تھی کہ جو انہیں فقہی، اعتقادی، وعظ، دعا اور وکلا سے مربوط مسائل کے سلسلے میں لکھے جاتے تھے۔ یہانتک نقل ہوا کہ آپ زندان سے اپنے اصحاب کو خطوط لکھتے[136] اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔[137]

اہل سنت کے نزدیک امام کی منزلت

اہل سنت شیعوں کے ساتویں امام کا ایک عالم دین کی حیثیت سے احترام کرتے ہیں۔ ان کے بعض جید علما نے ان کے علم و اخلاق کی تعریف کی۔[138] نیز انہوں نے ان کی بردباری، سخاوت، کثرت عبادت اور دیگر اخلاقی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔[139] اسی طرح ان کی بردباری اور عبادت کی روایات انہوں نے نقل کی ہیں۔[140] تیسری صدی ہجری کے اہل سنت مورخ، محدث اور شافعی فقیہ سُمعَانی جیسے جید علما آپ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتے تھے[141] اور ان سے توسل کرتے تھے۔ علمائے اہل سنت میں سے ابو علی خلال نے کہا: جب بھی انہیں کوئی مشکل پیش آتی وہ آپ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتے اور ان سے توسل کرتے یہانتک کہ اس کی مشکل برطرف ہو جاتی۔[142] شافعی نے امام کو شفا بخش دوا کہا ہے۔[143]

کتاب‌شناسی

امام کاظم کے متعلق مختلف زبانوں میں کتابیں، تھیسس اور مقالے لکھے گئے۔ جن کی تعداد 770 کے قریب ہے۔[144]کتاب نامہ امام کاظم علیہ السلام،[145] کتاب‌ شناسئ کاظمین،[146] اور کتاب‌ شناسی امام کاظم کے عنوان کے مقالے[147] میں ان آثار کا تعارف کیا گیا ہے۔ ان آثار میں سے زیادہ تر آثار شیعوں کے ساتویں امام کی شخصیت اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح فروری 2014 عیسوی میں امام کاظم کا زمانہ اور سیرت کے عنوان سے ایک کانفرنس ایران میں منعقد ہوئی جس کے مقالوں کا مجموعہ بعنوان مجموعہ مقالات ہمایش سیره امام کاظم شائع ہوا۔[148]

اسی طرح عزیز اللہ عطاردی کی کتاب مسند الامام الکاظم، حسین حاج حسن کی کتاب باب الحوائج الامام موسی الکاظم، محمد باقر شریف قرشی کی کتاب حیاة الامام موسی بن جعفر، فارس حسون کی کتاب امام الکاظم عند اہل السنۃ اور عبداللہ احمد یوسف کی کتاب سیرۃ الامام موسی الکاظمؑ ان آثار میں سے ہیں جو امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔

امام موسی کاظم علیہ السلام

حوالہ جات

طبری، دلائل الإمامة، 1403ق، ص303.

طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص6.

مسعودی، اثبات الوصیة، 1362ش، ص357-356.

بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ق، ج13، ص29.

شورای تقویم مؤسسه ژئوفیزیک دانشگاه تهران، تقویم رسمی کشور سال 1398ش هجری شمسی، 1397ش، ص8.

شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، 1423ق، ص295.

امین، سیره معصومان، 1376ش، ج6، ص113.

شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص215.

ابن‌اثیر، الکامل، 1385ق، ج6، ص164؛ ابن‌جوزی، تذکرة الخواص، 1418ق، ص312.

بغدادی 1417 تاریخ بغداد ج13، ص29

مفید 1413ق الارشاد ج2، ص236،227، طبرسی1417اعلام الوری ص ج2، ص6، ابن شہر آشوب 1379ق المناقب ج4، ص323، قمی 1417 الانوار البہیہ ص177

مفید 1413ق الارشاد ج2، ص235

کلینی1407ق ،الکافی ج3، ص297؛ ابن شعبہ حرانی1404 تحف العقول 411-412۔مجلسی1403ق بحار الانوار ج10، ص247

کلینی1407ق ،الکافی ج1، ص227؛ مجلسی1403ق، بحار الانوار ج10، ص244-245

ابن شہر آشوب 1379ق المناقب ج4، ص311-312

ابن شہر آشوب 1379ق، المناقب ج4، ص312-313

محمد تقی شوشتری، رسالہ فی تواریخ النبی و الآل، ص 75.

مفید، الارشاد، ج 2، ص 244.

مفید، الارشاد، ج 2، ص 244

سمعانی،الانساب، ج12، ص478

جعفریان،1381ش، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 385۔

طبرسی، 1417ق، اعلام الوری ج2، ص6۔

مہدی پیشوایی|1372 شمسی، سیرہ پیشوایان، ص413

رسول جعفریان،1381ش، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص 384-379۔

فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ق، ص337.

کلینی، 1407ھ، الکافی، ج1، ص307-311

مفید|1413، الارشاد، ج2، ص216-222

طبرسی، 1417ھ،اعلام الوری، ج2، ص7-16

مجلسی، 1403ھ، بحارالانوار، ج48، ص12-29

جمعی از نویسندگان، 1392شمسی، مجموعہ مقالات سیرہ و زمانہ امام کاظمؑ، ج2، ص79، 81

طبرسی،1417ھ، اعلام الوری، ج2، ص10

مفید، الارشاد، ج2، ص220

صدوق، 1378ھ، عیون اخبار الرضا، ج1، ص91؛ عطاردی، 1409ھ، مسند الامام الکاظم، ج1، ص75

پیشوایی|1372شمشی، سیرہ پیشوایان، ص414

کشّی، 1409ھ، رجال، ص282-283

نوبختی، فرق الشیعه، 1404ق، ص66-79.

عاملی، التحریر الطاوسی ص524

طوسی، اختیار معرفة الرجال، 1409ق، ص482.

طوسی، اختیار معرفة الرجال، 1409ق، ص480.

طوسی، اختیار معرفة الرجال، 1409ق، ص480.

رک: حاجی‌زاده، «جریان غلو در عصر امام کاظم(ع)»، ص112.

کشّی 1409ق رجال ص482

طبرسی1403ق الاحتجاج ج2، ص385-396؛ مجلسی1403ق بحار الانوار ج10، ص234-249

کلینی1407ق ،الکافی ج1، ص141

کلینی 1407ق، الکافی ج1، ص148-149

کلینی،1407ق، الکافی ج2، ص38-39

قرشی1429ق، حیاة الامام موسی بن جعفر ج2، ص190-278، 297-307

کلینی 1407ق الکافی ج1، ص149

عطاردی 1409ق ، مسند امام الکاظم ج‌1، مقدمہ

مروزی 1425ق، مسندالاامام موسی بن جعفر علیہ السلام ص187-232

شیخ طوسی، فهرست، 1420ق، ص264.

نجاشی، رجال نجاشی، 1365ش، ص252.

کلینی 1407ق، الکافی ج1، ص13-20 ؛ احمدی میانجی|1426ق، مکاتیب الائمہ ج4، ص483-501

احمدی میانجی 1426ق، مکاتیب الائمہ ج4، ص357-359؛ قرشی1429ق،حیاة الامام موسی بن جعفر ج2، ص238

طوسی 1420ق ،الفہرست ص271؛ احمدی میانجی 1426ق، مکاتیب الائمہ ج4، ص357-359

ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص312-313. صدوق، عيون أخبار الرضا، ج1، ص84-85. کلینی، الکافی، ج6، ص406.

مجلسی، بحار الانوار، ج10، ص244-245.

ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص311-312.

کلینی، الکافی، ج3، ص297.

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج1، ص278-294.

کلینی، الکافی، ج6، ص406. حر عاملی و 1409ق، وسائل الشیعہ۔

صدوق، عيون أخبار الرضا، ج1، ص84-85. شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ص295. مجلسی، بحار الانوار، ج10، ص241-242.

مجلسی، بحار الانوار، ج10، ص244-245. ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص311-312. صدوق، توحید، ص270-275.

بغدادی، تاریخ بغداد، ج13، ص29. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص414.

بغدادی، تاریخ بغداد، ج13، ص33-32.

مفید، الارشاد، ج2، ص232-231.

مفید، الارشاد، ج2، ص240.

مجلسی، بحار الانوار، ج48، صص10-11۔

طبرسی، مکارم الاخلاق، 1412ق، ص91.

ابن اثیر، الکامل، ج6، ص164. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص312.

بغدادی، تاریخ بغداد، ج13، ص30-33. قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج2، ص154-167.

مفید، الارشاد، ج2، ص232-231

ابن عنبہ، عمده الطالب، ص177..

بغدادی، تاریخ بغداد، ج13، ص29.

مفید، الارشاد، ج2، ص232.

ابن اثیر، الکامل، ج6، ص164 ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص312.

مفید، الارشاد، ج2، ص233. قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج2، ص162-160.

حاج حسن، باب الحوائج، ص281. حلی، منہاج الکرامہ، ص59.

جعفریان، حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، ص406.

صدوق، عيون أخبار الرضا، ج1، ص84-85. شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ص295۔

طوسی، تہذیب الاحکام، ج4، ص149.

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ص472

کشّی، رجال، ص441.

کشّی، رجال، ص433

مجلسی، بحار الانوار، ج48، ص134.

صدوق، عیون اخبار الرضا، ج1، ص77

مفید، الارشاد، ج2، ص227-228

اللہ اکبری، رابطہ علویان و عباسیان، ص22-23.

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص385-384

کلینی، الكافى، ج1، ص367

رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995م، ص298؛ حسنی، المصابیح، 1423ق، ص482.

رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995م، ص298؛ حسنی، المصابیح، 1423ق، ص482.

رازی، اخبار فخ، تحقیق ماهر جرّار، 1995م، ص298؛ حسنی، المصابیح، 1423ق، ص482.

ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ق، ص380.

بیهقی، لباب الانساب، 1428ق، ج1، ص412.

سید ابن‌طاووس، مهج الدعوات، 1411ق، ص218.

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج1، ص494-496

کلینی، کافی، 1407ق، ج1، ص366.

مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، 1423ق، ج22، ص285-287.

شریفی، «ائمه و قیامهای شیعی»، ص89-90.

جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1387ش، ص389.

ابن‌جوزی، تذکرة الخواص، 1418ق، ص313.

رسول جعفریان، حیات فکری و سیاسی آئمہ، ص 393.

کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص476.

صدوق، عيون أخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج1، ص86.

شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ۔ ج2، ص239.

شیخ عباس قمی، الانوار البہیہ، ص 192 – 196.

مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج99، ص17.

زندگانی امام موسی کاظم علیه‌السلام، موسسه فرهنگی هدایت.

شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص237-238؛ اربلی، کشف الغمه، 1421ق، ج2، ص760ِ؛ ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ق، ص415-414.

صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص101.

صدوق، کمال الدین، 1395ش، ج2، ص361-363؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1381ش، ص398-400.

کشّی، رجال، 1409ق، ص270ـ 271؛مامقانی، تنقیح المقال، بی‌تا، ج3، ص298.

شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص242.

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، 1429ق، ج2، ص516.

صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص99و105.

مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص215.

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، 1429ق، ج2، ص516-517؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1381ش، ص404.

ابن‌شهرآشوب، مناقب آل أبي طالب، 1375ق، ج3، ص435.

شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص242-243.

شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص242؛ قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، 1429ق، ج2، ص508-510.

ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص 336.

اربلی، کشف الغمه، 1421ق، ج2، ص763.

صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص99و105.

ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، 1419ق، ص417.

کلینی، الکافی، ج4، ص583.

طوسی، رجال، ص329-347

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج2، ص231

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج2، 231-373.

طوسی، الغیبہ، ص65-64.

مراجعہ کریں: صفری فروشانی و بختیاری، امام رضا(ع) و فرقه واقفیه، پژوهش‌های تاریخی(علمی - پژوهشی)، تابستان 1391ش، ص98-79.

جباری، امام کاظم و سازمان وکالت، ص16.

جباری، سازمان وکالت، ص423-599.

طوسی، الغیبہ، ص65-64.

قرشی، حیاة الامام موسی بن جعفر، ج2، ص455

کلینی، الكافی، ج1، ص313.

امین، اعیان الشیعہ، ج1، ص100 جباری، امام کاظم و سازمان وکالت، ص16

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج15، ص273

ابن عنبہ و 1417ھ۔ بغدادی، تاریخ بغداد، ج13، ص29. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص312. ابن اثیر، الکامل، ج6، ص164. شامی، الدر النظیم، ص651-653.

بغدادی، تاریخ بغداد، ج13، ص29-33

سمعانی، الانساب، ج12، ص479.

بغدادی، تاریخ بغداد، ج1، ص133

کعبی، الامام موسی بن الکاظم علیہ السلام سیره و تاریخ، ص216

اباذری، کتاب‌ شناسی کاظمین، ص14.

انصاری قمی، کتاب نامہ امام کاظم

اباذری، کتاب‌ شناسی کاظمین

جمعی از نویسندگان و 1392ش، مجموعۂ مقالات ہمائش زمانہ و سیره امام کاظم

جمعی از نویسندگان، مجموعہ مقالات ہمایش سیره و زمانہ امام کاظم، ج1، ص30-31.

مآخذ

ابن‌ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نهج البلاغه، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراهیم، قم، کتابخانه عمومی حضرت آیت‌الله العظمی مرعشی نجفی، 1404ھ۔

ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارالصادر، 1385ھ۔

ابن‌جوزی، سبط، تذکرة الخواص، قم، منشورات شریف الرضی، 1418ھ۔‏

ابن‌شعبه حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، جامعه مدرسین، 1404ھ۔

ابن‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، نشر علامه، 1379ھ۔

ابن‌عنبه حسنی، سید جمال الدین احمد، عمدة الطالب فی أنساب آل ابى‌طالب، قم‏، انتشارات انصاریان، 1417ھ۔

احمدی میانجی، علی، مکاتیب الائمة علیهم السلام، تصحیح: مجتبی فرجی، قم، دارالحدیث، 1426ھ۔

اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه فی معرفه الائمه، قم، رضی|مکان، 1421ھ۔

ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1419ھ۔

الله‌اکبری، محمد، رابطه علویان و عباسیان(از سال11 تا 201 هجری)، در فصل‌نامه تاریخ در آینه پژوهش، پیش‌شماره اول، 1381ش.

امین، سید محسن، اعیان الشیعه، بیروت، دارالتعارف، 1403ھ۔

امین، سید محسن، سیره معصومان، ترجمه: علی حجتی کرمانی، تهران، انتشارات سروش، 1376ش.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .