۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
ووٹ کی حیثیت اور ہماری ذمہ داری

حوزہ/میری کیا حیثیت کہ امام (ع) کے فرمان کی ترجمانی کرسکوں؟آپ نے فرمایا تو طبق دستور عرض کرتا ہوں۔امام کا فرمان فارمولا ہوتا ہے، لیکن ہر فرمان نہیں، جو فارمولا ہیں وہ ہر زمانے سے مخصوص ہوتا ہے جیسا امام علی علیہ السلام کا فرمانا: اوصیکم بتقوی اللہ ونظم امرکم یعنی میں تمھیں وصیت کرتا ہوں تقوی الٰہی اختیار کرنے کی یعنی عبد بننے کی بندگی کی اور اپنے امور میں منظم ہونے کی اب یہ فرمان قیامت تک کیلئے فارمولا ہے یہ کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں۔

تحریر: سید علی بنیامین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | میری کیا حیثیت کہ امام (ع) کے فرمان کی ترجمانی کرسکوں؟آپ نے فرمایا تو طبق دستور عرض کرتا ہوں۔امام کا فرمان فارمولا ہوتا ہے، لیکن ہر فرمان نہیں، جو فارمولا ہیں وہ ہر زمانے سے مخصوص ہوتا ہے جیسا امام علی علیہ السلام کا فرمانا: اوصیکم بتقوی اللہ ونظم امرکم یعنی میں تمھیں وصیت کرتا ہوں تقوی الٰہی اختیار کرنے کی یعنی عبد بننے کی بندگی کی اور اپنے امور میں منظم ہونے کی اب یہ فرمان قیامت تک کیلئے فارمولا ہے یہ کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں۔اسی طرح اور فرامین ہیں۔علی ھذا القیاس

لیکن امام علیہ السلام کا مالک اشتر نخعی کو فرمانا کہ ان لوگوں کو وزارتیں نہ دینا جنہوں نے سابقہ حکومتوں میں خیانت کی۔اب یہ فرمان اس وقت فارمولا بھی ہے اور ایک خاص زمانے سے مخصوص بھی فارمولا اس لیے کہ خیانتکار کبھی ایمانداری کی ثبوت نہیں دے سکتا خائن عادی گنہگار ہوتا ہےاور خاص زمانے سے مخصوص اس لحاظ سے کہ امام عالی مقام علیہ السلام امیر المؤمنین سابقہ حکومتوں اور انکی جانب سے جاری مشکلات کو واشگاف فرمانا چاہ رہے تھے، کیونکہ امام علیہ السلام نے مشروط خلافت قبول نہیں فرمائی یعنی امام نے فرمایا میں سنت شیخین پر عمل نہیں کرونگا۔ ہمیں اپنے اجتہاد پر عمل کرنا ہے۔قرآن و سنت رسول اللہ ص اور امام علیہ السلام کا اپنا اجتہاد، مالک اشتر کو متنبہ کرنا اور ساتھ وہاں کے لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود تھا کہ انہوں نے سنت رسول اللہ پر عمل نہیں کیا۔یہ ایک قسم کا امیر المؤمنین علیہ السلام کا احتجاج تھا اور اظہار برائت تھا، اب آتے ہیں اس جانب کہ اس فرمان کو اس ووٹنگ سسٹم کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

تو عرض یہ ہے!! اسلامی نظام آئیڈیل ہے، اگر اسلامی نظام نہیں تو، اس صورت میں باقی ائمہ ھدی علیھم السلام کی سیرت پر عمل کرنا ہوگا، چونکہ سب کے سب حجت خدا ہیں زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ معصومین علیھم السلام کی روش بھی جدا گانہ رہی۔

امام علی علیہ السلام نے پچیس سال قیام نہیں فرمایا،مصلحت اسلام و مسلمین کی خاطر اور وصیت رسول خدا ص کی وجہ سے جب حالات سازگار ہوئے تو امیر المومنین علیہ السلام نے خلافت قبول فرمائی۔سابقین اور شیخین کے دور میں جہاں مناسب سمجھا انکی رہنمائی فرمائی لیکن واضح رہے امیر المومنین کبھی انکے مشیر یا وزیر نہیں رہے جب رائے مانگی گئی دی گئی۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے امیر شام کے ساتھ جنگ نہیں کی کیونکہ امیر شام ظواھرات کا لحاظ رکھتا تھا یعنی علی الاعلان گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا تھا۔ امام حسین علیہ السّلام نے اسی کے بیٹے کے خلاف قیام فرمایا:امام زین العابدین علیہ السّلام نے مصلحتاً سکوت اختیار فرمایا اور اپنی ساری حیات میں قیام نہیں فرمایا:ہاں جس جس نے قیام کیا امام علیہ السّلام کی تائید اسے شامل رہی۔

امام باقر علیہ السلام نے قیام نہیں فرمایا، امام جعفر صادق علیہ السّلام نے قیام نہیں فرمایا، کیونکہ حالات سازگار نہیں تھے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے بھی قیام نہیں فرمایا۔

ہاں ہارون الرشید کے وزیر خاص جو کہ علوی تھے علی بن یقطین انکو نہ صرف عہدے سے ہٹنے کا فرمایا بلکہ تاکید فرمائی کے تمھارا وہاں رہنا ہمارے شیعوں کیلئے ضروری ہے۔

امام علی رضا علیہ السلام نے مامون کے خلاف قیام نہیں فرمایا، نہ ہی اسکی جانب سے ولی عہد قبول فرمائی،علی ھذا القیاس۔یہ ائمہ ھدی علیھم السلام کی روش رہی جوکہ امام منصوص من اللہ حجت خدا ہیں۔ تمام ائمہ کی سیرت حالات و واقعات اور زمانے کے ساتھ مختلف رہی۔ یہ سب کس کیلئے سبق ہے ؟

ظاھری بات ہے ہمارے لیے امام معصوم کا طاغوت وقت کے دور میں علی بن یقطین کو فرمانا کہ حکومت میں تمھارا رینا سود مند ہوگا تمھیں رہنا چاہیے اسے بحال رہنے کا حکم دینا۔ کیا ہم امام معصوم سے زیادہ دین کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔امام خمینی رح کا فرمانا میزان رای ملت است،یعنی میزان عوامی ووٹ ہی ہے یعنی جمہوریت سے عہدے پر آنا۔

اب آتے ہیں کہ ووٹ دینا چاہیئے یا نہیں ؟

حکم اولی میں ووٹ دینا جائز نہیں کہ آپ جمہوریت کو بطور آئیڈیالوجی تسلیم کریں جیسا کہ مغرب جمہوریت کو بطور آئیڈیالوجی تسلیم کرتے ہیں۔

حکم ثانوی میں ووٹ دے سکتے ہیں، یعنی موجودہ جمہوریت کو بطور مروجہ روش گردانتے ہوئے نہ کہ بطور کلی آئیڈیل جان کر، اسی وجہ سے ایران کے تمام علماء بشمول آیت اللہ جوادی آملی دامت برکاتہ سمیت یہ فرمایا ہے کہ پاکستان میں کسی معتدل شخصیت کو ووٹ دینے میں حرج نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .