تحریر: سید قمر نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی | اگر ایک فرد اندرونی یا بیرونی پریشر سے ڈپریشن کا شکار ہو جائے تو وہ اپنی حرکات و افعال معمول سے ہٹ کر انجام دینے لگتا ہے اور قوموں کی حالت بھی یہی ہوتی ہے۔ قوموں کا ڈپریشن کا شکار ہونے کا سب سے بنیادی سبب جس سرزمین میں وہ رہ رہی ہیں وہاں غلط سیاست کا رائج ہونا ہے، جب قدرت کی منتقلی ایک جماعت سے دوسری جماعت کو عدل اور انصاف کے پیمانوں پر نہ ہو وہیں سے پولیٹکل ڈپریشن شروع ہو جاتا ہے۔
کوئی بھی حکومت ہو، یہ معاشرے کو کنٹرول کرنے کیلئے بنائی جاتی ہے.اور جس طرح اٹماسفئر پورے کرہ زمین کو گھیرتی ہے حکومت بھی معاشرے کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے۔اگر یہ حکومت عدل و انصاف سے عاری اور ظالم ہو تو پورا معاشرہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے.اس سے لوگوں میں ناامیدی پیدا ہوتی ہے،لوگ اپنے معاشرہ سے جدائی اختیار کرنے لگتے ہیں،لوگ خود خواہی کا شکار ہونے لگتے ہیں اور بعض اوقات وطن چھوڑنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایک قوم جتنی پولیٹکل ڈپریشن کا شکار ہو بیرونی طاقت کے نفوذ کی کیپسٹی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔
پولیٹکل ڈپریشن کا شکار تاریخ میں چند قوموں کا نمونہ:
(1)1919ء تک جرمنی اتنا ویران ہوچکا تھا کہ انہوں نے ڈپریشن کا شکار ہو کر ہٹلر نازی کو انتخاب کیا اور اس نے دوسری عالمی جنگ چھیڑ دی جسکا توان اور اثرات دنیا ابھی تک بھگت رہی ہے۔
(2) دانشوروں کے مطابق جاپان کا دوسری عالمی جنگ میں شکست کھانے اور انکی اس وقت رائج بادشاہت کے خاتمے کے تقریباً نصف صدی بعد ان میں اسکے اثرات یہ ظاہر ہوئے کہ یہ قوم ایک طویل عرصہ تک ڈپریشن میں چلی گئی اور اس ڈپریشن کے نتیجہ میں انہوں نے اجتماعی طور پر جنسی سرگرمی انجام دینا شروع کردی،کہا جاتا ہے پچاس یا سو لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور اجتماعی جنسی فعل انجام دیتے تھے جوکہ در اصل قدیم روم کی سنت تھی۔
(3) ایران میں مغلوں کی عظیم ترین لوٹ مار اور قتل و غارت کے نتیجہ میں قدرت متزلزل ہونے کی وجہ سے کئی سو سال تک وہاں تصوف اور گوشی نشینی اختیار کی جانے لگی۔
اسکے اور بھی کئی نمونے موجود ہیں لیکن اختصار کی غرض سے انہی پر اکتفا کرتے ہیں.
ایک فرد اندر سے ٹوٹ جائے تو جوڑنا آسان ہے لیکن اگر ایک قوم ٹوٹ جائے تو اسے جوڑنے میں کئی صدیاں لگ جاتی ہیں۔
مادر وطن کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا ہم خودکشی کریں؟نہیں بالکل ابھی اسکی نوبت نہیں پہنچی.اس پورے مقدمہ کا مقصد فقط آپکو سوچنے پر مجبور کرنا تھا کیونکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آج میں ادنی سا طالبعلم آپ کیلئے آلارم نہ بجاؤں تو کل دشمن حتمی بجائے گا اور اس صورت میں ہماری غیور قوم کو سنگین خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
میں مانتا ہوں وطن عزیز پاکستان بہت سارے کرائسز سے گزر رہا ہے.لیکن اسکے باوجود جب میں دنیا پر نگاہ ڈالتا ہوں اور کہیں مجھے آذربائجان کی بدبختی نظر آتی ہے تو کہیں ویتنام کی،کہیں بوسنیا کی تو کہیں یوکرائن کی.اور جاپان کی صورت حال اس وقت آپکے سامنے ہے ناگاساکی اور یوگوسلاویہ پر امریکی حملہ کے بعد ابھی تک اس میں جرآت نہیں ہوئی کہ امریکی عالمی استکبار کے خلاف ایک جملہ اعتراض کا کہہ سکے۔
اس سارے سناریو کو مدنظر رکھتے ہوئے جب میں مادر وطن پر نگاہ ڈالتا ہوں تو سب مشکلات اور مسائل کے باوجود مجھے ابھی یہ سرزمین بڑی زرخیز نظر آتی ہے، اس زرخیزی کی ایک اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اس سرزمین پر ابھی ابوذر موجود ہیں، جو حق و باطل کو اچھی طرح پہچانتے ہیں،شجاع ہیں،بابصیرت ہیں،وفادار ہیں اور اپنی مادر وطن پر جان تک قربان کرنے کیلئے حاضر ہیں، لہٰذا ان سخت ترین شرائط میں ہمارا مہم ترین فریضہ ہے کہ ان ابوذری کردار والوں کو پہچانیں اور انکی رہبری میں آگے بڑھیں.انتخابات میں حصہ نہ لینے والوں سے بھی جدال احسن کرکے انکو شرکت کی دعوت دیں کیونکہ یہ نادان دوست ہیں نہ تو انکو لیبرل،،سوشل اور اسلامک ڈیموکریسی میں فرق کا پتہ ہے اور نہ ہی انکو یہ پتہ ہے کہ ڈیموکریسی بذات خود ہدف ہے یا وسیلہ اور آلہ ہے؟اور ہمارے انبیاء،آئمہ اور فقہاء کی روش بھی انکی اس سوچ سے مختلف رہی ہے، لہٰذا مشکلات اور فتنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اسٹراٹیجک سطح کا صبر،شجاعت اور بصیرت چاہیے۔ غیور ملت سے گزارش ہے کہ بالکل مایوس نہ ہوں،بھرپور انتخابات میں شرکت کریں، اپنے حقوق کی آواز اٹھائیں اور اپنا حق لینے تک چین سے نہ بیٹھیں.عالمی استکبار امریکہ کی وابستگی کبھی قبول نہ کریں، یہ سرزمین، یہ قوم اور یہ ملک سب ہمارا ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور انشاء اللہ اپنے ملک سے شر پسند،ڈکٹیٹ کیے ہوئے اور چوروں, ڈاکوؤں سے آزاد کر کے ایک خوبصورت گلستان میں بدلیں گے.اور اس زرخیز سرزمین سے امن و وحدت کا پیغام پوری دنیا میں پھیلائیں گے۔