۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
سید دست نقوی

حوزہ/ حجت السلام والمسلمین الحاج سید دست علی نقوی نے حوزہ علمیہ امام ھادی علیہ السلام اوڑی کشمیر میں شہادت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مناسبت سے منعقدہ مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ،رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتویں جانشین، ہمارے ساتویں امام  اور سلسلہء عصمت کی نویں کڑی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت السلام والمسلمین الحاج سید دست علی نقوی نے حوزہ علمیہ امام ھادی علیہ السلام اوڑی کشمیر میں شہادت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مناسبت سے منعقدہ مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ،رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتویں جانشین، ہمارے ساتویں امام اور سلسلہء عصمت کی نویں کڑی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امام موسیٰ کاظم کے والد محترم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ خاتون تھیں امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں۔حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ٧صفر المظفر ۸۲۱ھ ہفتہ کے دن ابوا کے مقام جو مدینہ و مکہ کے درمیان واقع ہےپیداہوئے۔۱۴۸ھ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو شہید کیا گیا ۔باپ کی شہادت کے بعد آپ منصب امامت پر فائز ہوئے اور امامت کے تمام فرائض کے ذمہ دار ہوئے ۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے دور کے سب سے زیادہ با فضل اورعالم شخصیت تھے امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے ایک صحابی کے جواب میں اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ میرا بیٹا موسیٰ کاظم (ع) علم و فضل کے اس درجہ کمال پر فائز ہے کہ اگر قرآن کے تمام مطالب و مفاہیم اس سے پوچھو تو وہ اپنے علم و دانش کے ذریعے انتہائی محکم اور مدلّل جواب دے گا ۔ وہ حکمت و فہم و معرفت کاخزانہ ہے ، تاريخ میں منقول ہے تقریبا" 300 افراد نے امام موسیٰ کاظم (ع) سے حدیث نقل کی ہے جن میں سے بعض راویوں کا نام انتہائی درجے کے علماء میں لیا جاتا ہے۔

انہوں نے امام علیہ السلام کے صبر واستقامت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی یہ عظیم ہستیاں معاشرے میں رونما ہونے والے ہرطرح کے واقعات وحادثات کی گہرائیوں اوران کےمضمرات سے بھی مکمل آگاہی رکھتی تھیں اور یہ لوگ اپنی خاص درایت و تدبیر کے ذریعے واقعات کے تاریک اور پنہاں پہلوؤں کو آشکارا کرتے تھے تا کہ لوگ حق و باطل میں تمیز دے کر صحیح راستے کی طرف گامزن ہوں۔فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام تقریبا" 35 سال مسند امامت پر فائز رہے مگر اس میں سے بیشتر حصہ قید و بند میں گزارا یا پھر جلد وطن رہے یہ حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں اہل بیت علیہم السلام کے سلسلے میں عباسی حکمرانوں کی سختیاں اور دشمنی کس قدر شدت اختیار کرگئی تھی جس چیز نے فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو اپنے دور کے حالات کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا وہ مسلمانوں پر حکم فرما فاسد سیاسی اور سماجی نظام تھا ۔عباسی حکمرانوں نے حکومت کو موروثی اور آمرانہ نظام میں تبدیل کردیا تھا۔ ان کے محل بھی حکمرانوں کے لہو ولعب اور عیش و نوش و شراب و کباب کا مرکز تھےاور ان بے پناہ دولت و ثروت کا خزانہ تھے جو انہوں نے لوٹ رکھے تھے۔جبکہ مفلس و نادار طبقہ غربت ، فاقہ کشی اور امتیازی سلوک کی سختیاں جھیل رہا تھا ۔اس صورتحال میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام لوگوں کی سیاسی اور سماجی آگہی و بصیرت میں اضافہ فرماتےاور بنی عباس کے حکمرانوں کی روش کو اسلامی تعلیمات کے منافی قراردیتے دوسری طرف ہارون الرشید اس بات کی اجازت نہيں دیتا کہ لوگ امام کے علم و فضل کے بحر بیکران سے فیضیاب ہوں اوروہ اس سلسلے میں لوگوں پر سختیاں کرتا ۔لیکن ہارون الرشید کی ان سختیوں کے جواب میں امام کا ردعمل قابل غور تھا۔

حجت الاسلام سید دست نقوی نے کہا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہر مناسب وقت سے فائدہ اٹھا کرخداوند عالم کے حضور نماز و نیایش اور تقرب الہی میں مصروف ہوجاتے ۔آپ پرجتنا بھی ظلم و ستم ہوتا وہ صبر اور نماز سے سہارا لیتے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہرحال میں صبر و شکر ادا کرتے بصرہ کا زندانباں عیسی بن جعفر کہتا ہے ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ امام پر ہر لحاظ سے نظر رکھوں یہاں تک کہ چھپ چھپ کران کی دعاؤں اور نیایش کو سنتا تھا مگر وہ فقط درگاہ خداوند سے طلب رحمت و مغفرت کرتے اور وہ اس دعا کی بہت زيادہ تکرار فرماتے ،خدایا تو جانتا ہے کہ میں تیری عبادت کے لئے ایک تنہائي کی جگہ چاہتا تھا اور اب جبکہ تو نے ایک ایسی جگہ میرے لئے مہیا کردی ہے میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں ۔

فرزند رسول امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے ایک مقام پر فرماتے ہیں ، عرش الہی پرایک سایہ ہے جہاں ایسے لوگوں کو جگہ ملے گی جنہوں نے اپنے بھائیوں کے حق میں نیکی اور بھلائی کی ہوگی، یا مشکلات میں ان کی مدد کی ہوگی ۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا روز مرہ کا ایک معمول محتاجوں اور ناداروں کی خبر گیری کرنا تھا ۔

انہوں نے امام علیہ السلام کی شہادت پر تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ امام موسیٰ کاظم (ع) کوجس آخری قید خانے میں قید کیا گيا اس کا زندان بان انتہائي سنگدل تھا جس کا نام سندی بن شاہک تھا ۔ اس زندان میں امام پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھایا گيا اس وقت ہارون رشیدملعون کی حکومت تھی ۔ یہ وہی ظالم و جابر بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ ہارون رشید کے حکم پر ایک سازش کے ذریعہ امام کو زہر دے دیا گیا اور تین دن تک سخت رنج و تعب برداشت کرنے کے بعد 55 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت 25 رجب المرجب بروز جمعہ ۱۸۳ھ میں واقع ہوئی آپ نے ۱۴سال ہارون رشید کے قید خانہ میں گزارے۔شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو قید خانہ سے ہتھکڑی اور بیڑی سمیت نکال کر بغداد کے پل پر ڈال دیا گیا تھا اور نہایت ہی توہین آمیز الفاظ میں آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو یاد کیا گیا۔سلیمان بن جعفر ابن ابی جعفر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہمت کرکے نعش مبارک کو دشمنوں سے چھین کر لے گئے اور غسل و کفن دے کر بڑی شان سے جنازہ کو لے کر چلے ۔ ان لوگوں کے گریبان امام مظلوم کے غم میں چاک تھے انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں جنازہ کو لے کر مقبرہ قریش میں پہنچے۔امام علی رضا علیہ السلام کفن و دفن اور نماز کے لئے مدینہ منورہ سے با اعجاز پہنچ گئے۔آپ نے اپنے والد ماجد کو سپرد خاک فرمایا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .