۲۴ آذر ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 14, 2024
سید دست نقوی

حوزہ/ حجت السلام والمسلمین سید دست علی نقوی نے حوزہ علمیہ امام ھادی علیہ السلام اوڑی کشمیر میں منعقدہ محفل سے خطاب کیا، جبکہ محفل میں کثیر تعداد میں مؤمنین شریک ہوئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت السلام والمسلمین سید دست علی نقوی نے حوزہ علمیہ امام ھادی علیہ السلام اوڑی کشمیر میں منعقدہ محفل سے خطاب کیا، جبکہ محفل میں کثیر تعداد میں مؤمنین شریک ہوئے۔

حوزہ علمیہ امام ہادی علیہ السّلام اوڑی کشمیر میں منعقدہ محفل سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام سید دست نقوی نے کہا کہ آیت اسراء سورۂ اسراء کی پہلی آیت ہے، جو پیغمبر اکرمؐ کے معراج کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس آیت کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاَقصی تک لے جایا گیا۔

سید دست نقوی نے کہا کہ معراج کا مقصد پیغمبر اکرمؐ کو خدا کی عظمتوں کا مشاہدہ کرانا تھا۔ اس آیت سے معراج کے جسمانی ہونے اور معراج کا پیغمبر اکرمؐ کے لئے معجزہ ہونا استنباط کیا جاتا ہے۔

حجت الاسلام سید دست نقوی نے مزید کہا کہ آیت آسرا پیغمبر اکرمؐ کے مکہ میں مسجد الحرام سے بیت‌ المُقَدَّس اور مسجد الاَقصی تک کے سفر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر شیخ طَبْرِسی کے مطابق مسجد الحرام میں نماز مغرب و عشاء پڑھنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی معراج کا آغاز ہوا اور اسی رات واپس آکر دوبارہ مسجد الحرام میں نماز صبح ادا کی۔

انہوں شب معراج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور بعض صحابہ جیسے ابن‌ عباس، ابن‌ مسعود، جابر بن عبد اللَّہ انصاری اور حُذَیفہ یمانی وغیرہ نے اس واقعے کو نقل کیا ہے۔

حجت الاسلام سید دست نقوی نے کہا کہ مفسرین نے آیت آسرا کے ذیل میں پیغمبر اکرمؐ کے اس سفر کی تفصیلات جیسے زمان، مکان اور سفر کی نوعیت وغیره سے بحث کی ہے۔
بعض مفسرین آیت اسراء کو پیغمبر اکرمؐ کے معجزات میں شمار کرتے ہیں۔ آیت اللہ جعفر سبحانی اپنی کتاب تفسیر منشور جاوید میں ذکر کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کا راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصی تک کا سفر آنحضرتؐ کے معجزات میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ سفر آج کل کے جدید وسائل کے بغیر انسانی توانائی سے بالاتر معجزہ کے سوا امکان پذیر نہیں ہے۔ شیعہ مفکر شہید مطہری (متوفی: 1358ہجری شمسی) کہتے ہیں کہ اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کے ایک غیر معمولی اور جسمانی سفر کا تذکرہ ہوا ہے؛ کیونکہ یہ سفر ایک ایسے دور میں ایک رات کے اندر پایہ تکمل تک پہنچا ہے جس میں سفر کا ذریعہ اونٹ تھا، جو معجزہ کے بغیر نا ممکن ہے، البتہ آیت‌ اللہ مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف اس آیت سے اس سفر کے معجزہ ہونے کو صراحتا ثابت نہیں کر سکتے، بلکہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی روایات اور شأن نزول کو جمع کرنے کے بعد اسے پیغمبر اکرمؐ کے معجزات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مفسرین کے مطابق "لنریہ من آیاتنا" معراج کے مقصد کی طرف اشارہ ہے۔یعنی معراج کا ہدف اور مقصد پیغمبر اکرمؐ کے لئے خدا کی عضمتوں کا مشاہدہ کرانا تھا، تاکہ آپ کی روح بھی عظمت کی بلندیوں تک پہنچ سکے اور انسانوں کی ہدایت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیار ہو۔ طَبْرِسی کتاب مجمع البیان میں پیغمبر اکرمؐ کا مکہ سے بیت‌ المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی طرف عروج نیز انبیاء الہی کا دیدار اس سفر کے اہداف و مقاصد میں شمار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں لفظ "مِنْ" سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سفر میں پیغمبر اکرمؐ کو خدا کی عظمتوں میں سے بعض کا مشاہدہ کرایا گیا تھا نہ تمام عضمتوں کا۔
مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج12، ص9.

تبصرہ ارسال

You are replying to: .