حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ کو دئے گئے انٹرویو میں نجف اشرف سمیت کشمیر، پاکستان میں دینی و سماجی طور پر فعال حجت الاسلام سید ذہین علی کاظمی نجفی نے اپنی گفتگو میں اپنی دینی و تعلیمی زندگی کے مختلف پہلؤوں سمیت مختلف امور پر گفتگو کی۔ ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ذیل میں حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ نیوز: براہ کرم، اپنا تعارف کرائیں اور حوزہ علمیہ نجف میں اپنے تعلیمی و تربیتی سفر اور وہاں کے علمی و روحانی ماحول کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں۔
حجت الاسلام سید ذہین علی کاظمی نجفی: حقیر کو سید ذُہین علی کاظمی کہتے ہیں، سنہ 2012 میں حوزۂ علمیہ نجفِ اشرف میں اپنے علمی سفر کو مزید جاری رکھنے کا شرف حاصل ہوا، جہاں معتبر عربی مدارس اور نامور اساتذہ کی عنایات کے زیرِ سایہ مقدمات اور سطوح کی تکمیل کی۔ اس وقت بندۂ ناچیز کفایہ و مکاسب کے دروس کے ساتھ سطوحِ عالیہ کا طالبِ علم ہے۔
نجفِ اشرف کا تعلیمی و تربیتی ماحول اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں درس و تدریس کے ساتھ باقاعدہ مباحثہ، مسلسل مطالعہ، تحقیق اور علمی نشستیں طالبِ علم کی فکری بنیادوں کو اس سلیقے اور استحکام سے مضبوط کرتی ہیں کہ دل شکرِ خدا سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ روضۂ مبارک امیرالمؤمنینؑ کی حاضری وہ روحانی لذت، وہ سکونِ قلب اور وہ تربیتِ نفس عطا کرتی ہے جسے الفاظ میں سمیٹنا مشکل ہے—گویا یہی فیضانِ نجف کا حقیقی سرمایہ ہے۔
نجف کی فضائیں علم، اخوت اور باہمی تعاون کے رنگوں سے ایسی مزین ہیں کہ ہر قدم پر اس سرزمین کی برکت کا احساس دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ طلبہ کے درمیان علمی معاونت، اخلاقی تربیت اور ایک دوسرے کے لیے اخلاصِ نیت اس شہر کی روح میں رچا بسا محسوس ہوتا ہے۔ ہر لمحہ یہی احساس تازہ رہتا ہے کہ انسان اس مقدس شہر میں سانس لے رہا ہے جسے بابِ مدینۃ العلمؑ کی نسبت نے بے پناہ شرف بخش رکھا ہے۔
نجفِ اشرف آج بھی عالمِ اسلام کا مرکزِ علم، مذہبِ حق کی نشانی اور ولایتِ امیرالمؤمنینؑ کے پیغام کا سب سے روشن مینار ہے۔ اسی نسبت نے اس شہر کو تا قیامت امت کی فکری و روحانی رہنمائی کا سرچشمہ اور اہلِ دل کے لیے قافلۂ یقین کا قبلہ بنا دیا ہے۔

حوزہ نیوز: نجفِ اشرف میں موکب و حسینیہ بیتُ الاحزان سمیت آزاد کشمیر میں آپ کی دینی و سماجی خدمات کے جاری منصوبوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
حجت الاسلام سید ذہین علی کاظمی نجفی: حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام خدمات چاہے نجفِ اشرف میں موکب و حسینیہ بیتُ الاحزان کی سعادت ہو یا آزاد کشمیر میں تبلیغی و سماجی منصوبے، سب خدا کے لطف و کرم، اہلبیتؑ کی عنایات اور والدین و مومنین کی دعاؤں کا نتیجہ ہیں۔ میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ مومنین کی خدمت اور ان کے لیے آسانی پیدا کرنا ایسی عبادت ہے جس کا سکون دنیا کی کسی نعمت میں نہیں ملتا۔
آزاد کشمیر میں تبلیغاتِ دینیہ، مذہبی بیداری، غدیر شناسی، علماء کے لیے ہنر مند علماء پروگرام، سماجی رابطہ کاری اور مختلف طبقات تک دین کا پیغام پہنچانا یہ سب ایک ہی مشن کا حصہ ہیں۔ مختلف علاقوں کے دورے اور ہر طبقے کے افراد سے ملاقاتوں کا مقصد یہ ہے کہ دینِ محمد و آل محمدؑ کی خوشبو ہر دل تک پہنچے اور شدت پسندی کے خاتمے و بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے۔
خصوصاً اربعینِ حسینی میں جو لاکھوں زائرین کا بے مثال اجتماع نجف سے کربلا کی سمت رواں ہوتا ہے، وہ واقعاً عصرِ ظہور کی جھلک دکھاتا ہے۔ جہاں مختلف علاقوں، مختلف زبانوں اور مختلف پس منظر کے لوگ ایک دل، ایک صدا اور ایک مقصد کے تحت جمع ہوتے ہیں۔ یہی منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق کے علم تلے امت ایک ہو سکتی ہے۔
اور جیسا کہ مرحوم علامہ باقر شریف القرشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: "اگر دنیا و آخرت کی سعادت چاہیے تو امام حسینؑ کی خدمت کرو۔"
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ خدمت میں جو روحانی سکون، قربِ الٰہی اور لذتِ بندگی ہے، وہ دنیا کی کسی اور چیز میں نہیں۔

حوزہ نیوز: اتحاد و وحدت مسلمین کے حوالے سے آپ کن عملی حکمت عملیوں کو سب سے زیادہ مؤثر سمجھتے ہیں، خصوصاً نوجوان نسل میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے؟
حجت الاسلام سید ذہین علی کاظمی نجفی: اتحاد بین المسلمین کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے آپس میں بھائی چارہ قائم رکھیں۔ اختلاف فطری چیز ہے، مگر یہ علمی اور تحقیقی بنیاد پر ہونا چاہیے تاکہ فتنہ و فساد نہ پیدا ہو اور اسلام کے دشمن کو موقع نہ ملے۔
نوجوان نسل کو فرقہ واریت سے بچنے کے لیے درج ذیل عملی راستے اختیار کرنے چاہئیں:
1. علم و تحقیق کی روش اپنائیں: کسی بات کو صرف سنی سنائی، یا “ہمارے بڑے ایسے مانتے تھے” کی بنیاد پر نہ مانیں۔ ہر اعتقاد کے لیے دلیل ہونی چاہیے۔
2. دوسروں کی رائے غور سے سنیں: فوری منفی ردعمل نہ دیں، بلکہ تحقیق اور دلیل سے بات سمجھیں اور جواب دیں۔
3. قرآن و احادیث کی رسی تھامیں: اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر زندگی میں عمل کریں، یہی سب سے مضبوط ذریعہ ہے جو فرقہ واریت سے بچاتا ہے۔
4. اہلِ بیت علیہم السلام سے جڑے رہیں: ان کی تعلیمات پر عمل اور دامن پکڑنا نوجوانوں کو اتحاد کی راہ پر قائم رکھتا ہے۔
5. اختلاف کو احترام کے ساتھ قبول کریں: دلیل اور تحقیق کی بنیاد پر اختلاف اچھی بات ہے، لیکن برداشت اور احترام ضروری ہے۔
نتیجہ: نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمی تحقیق، دلیل اور اہلِ بیت علیہ السلام کی تعلیمات کے ساتھ جڑیں، تاکہ نہ صرف اپنی شخصیت مضبوط بنائیں بلکہ مسلم امہ میں حقیقی اتحاد اور بھائی چارہ قائم کریں۔

حوزہ نیوز: موجودہ عالمی حالات میں مسلم امہ کو درپیش فکری و تہذیبی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں دینی مراکز اور میڈیا (خصوصاً حوزہ نیوز ایجنسی) کا کردار آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
حجت الاسلام سید ذہین علی کاظمی نجفی: موجودہ عالمی حالات میں مسلم اُمہ کو فکری، تہذیبی اور سماجی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی استکباری طاقتیں مختلف محاذوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جس میں سیاسی، معاشی اور ثقافتی دباؤ کے ساتھ ساتھ شدت پسندی اور فکری انتشار کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں مسلم اُمہ کی یکجہتی، مشترکہ فکری و اخلاقی بنیادوں پر عمل، اور اپنے دینی و تہذیبی ورثے سے واقفیت، نہایت اہمیت اختیار کر لیتے ہیں۔
یہاں حوزہ نیوز ایجنسی کا کردار انتہائی نمایاں اور فکری سطح پر ایک نعمت سے کم نہیں۔ اس پلیٹ فارم نے حوزہ علمیہ کے اشراف میں درست خبر رسانی، تحقیقی مضامین، فکری و تہذیبی تجزیے، اور عالمی و مسلم اُمہ کے مسائل سے آگاہی فراہم کرنے کا عمل نہایت مؤثر انداز میں جاری رکھا ہے۔ ایسے میں جب شدت پسندی، فرقہ واریت اور غیر مستند اطلاعات پھیلانے کی کوششیں عالمی سطح پر زور پکڑ رہی ہیں، یہ پلیٹ فارم مسلم نوجوانوں اور عوام کو علمی بصیرت اور درست فکری رہنمائی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔
مزید برآں، حوزہ نیوز ایجنسی کا پلیٹ فارم مختلف علماء اور طلبہ کو اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے۔ یہاں علماء اپنی تحقیقی قابلیت، تجزیاتی سوچ اور فکری بصیرت کو مؤثر انداز میں پیش کر سکتے ہیں، اور طلبہ بھی فرنٹ پر آ کر علمی مباحثے، مقالہ نویسی اور سنجیدہ تحقیق میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس طرح، یہ پلیٹ فارم نہ صرف خبر رسانی کا ذریعہ ہے بلکہ ایک فکری و تحقیقی فورم کے طور پر امت مسلمہ کی علمی تربیت اور یکجہتی میں اضافہ کرتا ہے۔
لہٰذا، حوزہ نیوز ایجنسی کے کردار کو مزید بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف طلبہ اور نوجوان علماء کو فرنٹ پر آنے کی حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ امت مسلمہ کے اندر علمی و فکری ارتقاء، اجتماعی شعور اور دینی و تہذیبی اقدار کے فروغ کے لیے ایک مضبوط بنیاد قائم ہو سکے۔

قابل ذکر ہے کہ انہوں نے حوزہ علمیہ قم المقدسہ اور نجف اشرف کے درمیان روابط کی اہمیت اور ان دو حوزاتِ علمیہ کی تاثیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: نجف اور قم کے درمیان علمی، تخصصی اور تبلیغی تعاون نہ صرف تجربات کے تبادلے کا ذریعہ ہے بلکہ اس سے دونوں جانب کے طلباء اور اساتذہ کو ایک دوسرے کی زبانیں سیکھنے اور ثقافتی فہم بڑھانے کا قیمتی موقع بھی ملے گا۔
زبان اور ثقافت کی یہ باہمی آگاہی علمی مباحث کو گہرائی بخشنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں مشترکہ علمی پروجیکٹس، ترجمہ کاری، اور بین الاقوامی تبلیغی مؤثرات میں اضافہ کا سبب بنے گی۔
اسی طرح انہوں نے ان مقدس شہروں میں طلبہ کو دی جانے والی رفاہی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: نجف و قم میں آنے والے طلباء اور ان کے خانوادوں کے لیے کم از کم مناسب رہائش اور ضروری سہولیات کا بندوبست حوزہ علمیہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہونا چاہیے تاکہ طلباء ذہنی سکون کے ساتھ اپنی علمی و دینی ذمہ داریوں کو بہتر طور پر ادا کر سکیں۔









آپ کا تبصرہ