حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سرپرست مرکز افکار اسلامی حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی نے اپنے پاکستان کے دورہ کے دوران نمائندہ حوزہ نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کی ہے جسے حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: الحمد للہ آپ نے اپنی زندگی کا محور نہج البلاغہ کی خدمت کو بنایا ہے۔ آپ کے نزدیک أمیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام کی سب سے نمایاں خصوصیت کیا ہے جو اسے دیگر حکمت آمیز متون سے ممتاز کرتی ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمداللہ ہماری زندگی کا ایک خاصا وقت نہج البلاغہ کی خدمت میں گزرا ہے۔ میرے نزدیک نہج البلاغہ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ نہج البلاغہ اس فرمانِ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق علی مع القرآن و القرآن مع علی۔ یا خود امیر المومنین فرماتے ہیں وَاِنَّ الْكِتَابَ لَمَعِیْ، مَا فَارَقْتُهٗ مُذْ صَحِبْتُهٗ (اور کتاب خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اس کا ساتھ ہوا ہے میں اس سے الگ نہیں ہوا) اس حساب سے قرآن مجید کی بہترین تفسیر کا نام نہج البلاغہ ہے اور کلام امیر علیہ السلام کے باقی حکمت آمیز کلمات سے بڑھ کے اس کی خصوصی تعریف بھی یہی ہے کہ "یہ قرآن مجید کی تفسیر ہے" اور ساتھ اگر یہ کہا جائے کہ جناب امیر علیہ السلام کی زندگی کی عملی تفسیر ہے۔

حوزہ: مرکز افکار اسلامی کے زیرِ انتظام نہج البلاغہ کے فروغ اور تدریس کے لیے اب تک کیا عملی اقدامات انجام دیے گئے ہیں اور مستقبل کے لیے آپ کی منصوبہ بندی کیا ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی: مرکز افکار اسلامی کے زیر انتظام الحمدللہ درجنوں ایسے کام انجام دیے گئے ہیں جو نہج البلاغہ کے فروغ اور ترویج کا سبب بنے۔ مثلاً کانفرنسز کا انعقاد ہے، مختلف انعامی مقابلے ہیں۔ تدریس کے لئے بھی ہم نے مقالہ نویسی کے مسابقے کرائے ہیں۔ الحمد للہ 40 کے قریب کتابیں آ چکی ہیں اور حفظ کے مقابلے ہوئے ہیں۔ مستقبل کے لئے ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ اگر توفیق الہی شامل حال ہو تو ہم نہج البلاغہ پر مبنی ایک مجلہ نکالیں اور دینی مدارس میں نہج البلاغہ کو بطور سلیبس شامل کروائیں۔ یہ دو کام بھی ہمارے چل رہے ہیں کچھ علمائے کرام سے بات ہورہی ہے۔ دعا فرمائیں پروردگار اس میں ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔
حوزہ: موجودہ دور کا نوجوان متعدد فکری و تہذیبی چیلنجز سے دوچار ہے۔ آپ کے نزدیک نہج البلاغہ، جدید دور اور طالب علم کے فکری بحرانوں کا حل کس طرح پیش کرتی ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی: موجودہ دور کے نوجوان متعدد فکری اور تہذیبی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ ظاہر سب سے بڑا اس کا حل قرآن مجید ہے لیکن قرآن مجید کو اپنی عملی زندگی میں اگر اپنایا ہے تو وہ بعد از پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ذات امیرالمومنین علیہ السلام ہے۔ اب اس عملی زندگی کو دیکھ کے قران فہمی بھی آسان ہو جاتی ہے اور جوانوں کی اس فکری اور تہذیبی مشکل کا حل بھی اس عملی زندگی سے نظر آتا ہے۔ نہج البلاغہ جناب امیرالمومنین علیہ السلام کا حقیقت میں عملی زندگی کی ایک جھلک ہے۔ البتہ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ کیا کیا مشکلات جوانوں کو لاحق ہیں اور ان کے کیا کیا حل ہیں؟ مثلاً ایک لفظ عدالت ہے قرآن مجید نے کلی طور پر عدالت کا کہا تو امیر المومنین علیہ السلام نے عدالت کے عملی نمونے پیش کیے۔

حوزہ: آپ نے پاکستان میں نہج البلاغہ کے ساتھ انس کیسا پایا۔ مختلف شہروں اور طبقات سے ملاقاتوں میں عوامی و دینی سطح پر اس سلسلہ میں کیسا رجحان یا ضرورت محسوس کی؟
حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی: پاکستان ہو یا دنیا کے مختلف ممالک ہوں، جہاں بھی ہم نے نہج البلاغہ کا پروگرام منعقد کیا ہے اور لوگوں تک نہج البلاغہ کے ذریعے سے جناب امیر المومنین علیہ السلام کا پیغام پہنچایا ہے۔ ہمیں واقعی انتہائی خوشی ہوئی اور کہیں بھی ہمیں یہ مایوسی نہیں ہوئی کہ لوگوں نے توجہ نہیں دی۔ کئی شہروں میں ہم نے نہج اللہ کانفرنسیں کرائیں تو لوگوں نے کہا اور کانفرنسیں ہونی چاہئیں اور خود بہت سارے مالی امور میں تعاون بھی کیا۔ جب کہیں ہم نے دروس کا سلسلہ شروع کیا لوگوں نے اس میں دلچسپی لی۔ کتابوں کی پبلشنگ میں لوگوں نے دلچسپی لی۔ ابھی بھی ہمارے پاس کئی علاقے ہیں جو کہتے ہیں کہ "ہمارے علاقے میں کانفرنسیں کرائیں، ہمارے علاقے میں دروس منعقد کریں۔ الحمدللہ اگر کلام امام علیہ السلام کو لوگوں تک پہنچایا جائے تو اس کلام میں آٹھویں امام علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اتنا اثر ہے اور حسن ہے کہ لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ نہج البلاغہ سے لوگوں کا انس مرکز افکار اسلامی کے ذریعے سے بہت بڑھا ہے۔

حوزہ: آپ اہل منبر، دینی مدارس اور علمی مراکز کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے تاکہ نہج البلاغہ کو درس و تبلیغ کے ایک مؤثر منہج کے طور پر اپنایا جا سکے؟
حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی: اہل منبر کے لئے ہم نے ایک کتاب ترتیب دی ہے جس کا نام رکھا گیا "نہج البلاغہ اور معرفتِ امیر المومنین علیہ السلام"۔ میرے خیال میں 22 موضوعات پر مبنی یہ بہترین کتاب ہے جو اہل منبر کے لئے مفید ہے۔ لبنان کے ایک مشہور عالم دین علامہ جواد مغنیہ نے نہج البلاغہ کی چار جلدوں میں شرح لکھی ہے "فی ظلال نہج البلاغہ"۔ انہوں نے بعض مواقع پہ جہاں منبر کے لئے اور خطیب کے لیے جو نکات تھے تو انہوں نے اسے الگ منبر کا عنوان دیا۔ لفظ "منبر" لکھا ہے اور پھر اس حصہ کو لکھا ہے۔ ہماری اگلی کوشش یہ ہے کہ اس کا بھی ترجمہ کیا جائے جو یقینا اہلِ منبر کے لئے مفید ہو گی۔
دینی مدارس کے لئے، ہم یہی کہیں گے کہ ہم نے اہلسنت علماء سے سنا ہے کہ "اے کاش نہج البلاغہ دینی مدارس کے سلیبس میں ہو" مثلا بعض ممالک میں جیسے تیونس وغیرہ ہے ، وہاں دینی مدارس میں نہج البلاغہ بطور سلیبس شامل ہے۔ اس کے بہت سارے پہلو ہیں جو ایک پہلو فقط اس کا "معانی و بیان" کا پہلو ہے۔ خود روحانیت کا ایک سلسلہ ہے۔
علمی مراکز کے لئے ہمارا پیغام یہی ہے کہ ان مراکز کی حیثیت کو دیکھئے اور کچھ علماء آگے بڑھیں اور ان مراکز سے مربوط افراد کے علمی معیار کو دیکھ کے نہج البلاغہ سے وہ پیغام نکالا جائے مثلا جوانوں کے لئے اور بچوں کے لئے اور خواتین کے لئے اور اس انداز سے نہج اللہ کے اقتباسات استعمال کرکے لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے۔









آپ کا تبصرہ