جمعرات 20 نومبر 2025 - 18:25
مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا / ہم "فرزندِ حوزہ" ہیں، ہمارا مؤقف وہی ہے جو رہبر کبیر اور رہبر معظم کا مؤقف ہے

حوزہ /  حجت الاسلام والمسلمین سید احمد اقبال رضوی نے کہا: ہم نے ابتدا سے ہی اہل سنت جماعتوں، علما اور سیاسی قیادت سے مضبوط روابط قائم کیے۔ سیاسی سفر بھی ہم نے اہل سنت قیادت کے ساتھ مل کر شروع کیا۔ آج پاکستان میں شیعہ سنی ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے، ایک ساتھ کام کرتے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ کو دئے گئے انٹرویو میں مجلس وحدت مسلمین کے وائس چیئرمین حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی نے اپنی دینی و سیاسی زندگی کے مختلف پہلؤوں سمیت موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ذیل میں حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ نیوز: براہ کرم، سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنا تعارف کرائیں۔

حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، بندہ سید احمد اقبال رضوی، کراچی سے تعلق ہے اور میں 1991ء میں حوزہ علمیہ سیدہ زینب (س)، شام گیا اور وہاں حوزۃ الامام الخمینی، تقریباً چار ساڑھے چار سال تک کسبِ تحصیل کیا۔ 2 سال میں لبنان میں رہا اور پھر 1997ء میں حوزہ علمیہ قم آ گیا تھا۔ یہاں مختلف جید اساتید سے کسبِ فیض کے بعد 2008ء میں واپس پاکستان گیا۔ وہاں مختلف دینی و تبلیغی امور میں مشغولیت رہی۔ اس کے بعد آئی-ایس-او کے حوالے سے بھی مجھے تربیتی امور میں خدمات کا موقع ملا۔ پھر اس کے بعد ہم 2008ء/ 2009ء سے ہی مجلس وحدتِ مسلمین سے وابستہ رہے اور اب تک اسی میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا / ہم "فرزندِ حوزہ" ہیں، ہمارا مؤقف وہی ہے جو رہبر کبیر اور رہبر معظم کا مؤقف ہے

حوزہ نیوز: مجلس وحدت مسلمین کے قیام کے بنیادی مقاصد کیا تھے اور آپ کی نظر میں اسے موجودہ دور میں ان اہداف میں کس حد تک کامیابی مل سکی ہے؟۔

حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی:

دیکھیں، سن دو ہزار سے پیچھے اگر آپ چلے جائیں گذشتہ 10 سے 15 سال اور اس کے بعد 2014ء/ 15 تک۔ یہ سارا شیعوں کی نسل کشی کا زمانہ تھا، شیعوں کے خلاف شدید دہشت گردی ہو رہی تھی، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ جیسی صورتحال تھی۔ اس وقت میں بہرحال شیعہ پاکستان میں ایک خوف کی زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں کسی ایسی جماعت کی ضرورت تھی کہ جو ان کی پشتیبانی کرے، ان کی آواز بنے، ان کو اس دہشت گردی کے ماحول سے نکال کر ان کو شناخت کو باقاعدہ ان کی لوٹایا جائے۔ تو یہ ساری چیزیں بہرحال مدنظر تھیں۔ اس سے پہلے مجلس وحدت مسلمین کے ہی قائدین جن مین سرفہرت قبلہ علامہ راجہ ناصر صاحب ہی ہیں، ہم بغیر پلیٹ فارم کے اس وقت کام کرتے تھے مختلف جگہ، خاص کر جہاں جہاں یہ دہشت گردی کے واقعات تھے لیکن اس کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ جس کی وجہ سے پھر یہ طے ہوا کہ ہمیں اس قومی پلیٹ فارم کی تشکیل دینا پڑے گی کہ جو "شیعہ جینوسائیڈ" کے حوالے سے اور شیعوں کے جتنے بھی مسائل اس وقت ہیں ان کو حل کرنے کے حوالے سے وہ پلیٹ فارم کام کرے اور شیعوں کی ترجمانی کرے، ان کی آواز بنے۔ تو وہ الحمدللہ پہلا مرحلہ ہمارا فیز وہ تھا اور اس میں خدا کا شکر ہے کہ شیعہ کے ان میجر مسائل میں 2012ء، 13، 14 کے بعد کمی آنا شروع ہو گئی، شیعوں کی آواز سنی جانے لگی، شیعوں کی ترجمانی شروع ہو گئی کیونکہ ان کی پشتیبانی شروع ہو گئی۔ ڈی ائی خان کا مسئلہ تھا۔ وہاں پر وہ لوگ بیچارے ہجرت کر رہے تھے، پورے کے پورے شہر خالی ہو رہے تھے، پاراچنار محاصرے کے اندر تھا۔ تقریبا ساڑھے چار پانچ سال محاصرے کے اندر رہا۔ اس محاصرے کو توڑنے میں مجلس وحدت مسلمین نے الحمدللہ بہت کلیدی کردار ادا کیا، اسی طرح کوئٹہ میں صبح و شام دہشت گردی تھی، کراچی کے اندر مسلسل دہشت گردی تھی مطلب پورے پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا تو الحمدللہ اس پورے سیناریو کو چینج کرنے میں مجلس وحدت مسلمین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، مخصوصا علامہ راجہ ناصر عباس صاحب کی قیادت جو ایک حکیم قیادت ہے، انتہائی با بصیرت اور خود راجہ صاحب قبلہ کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے معنوی شاگرد ہیں، رہبر معظم کے۔ شہید سید حسن نصراللہ (خداوند متعال کے درجات بلند فرمائے) کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ اس طرح حاج قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور شہید قائد علامہ عارف الحسینی کے شاگردوں میں سے تھے۔ تو یہ ساری کارکردگی جو آج ہمیں نظر آتی ہے یہ سب اسی سوچ اور بصیرت کا نتیجہ ہے۔ الحمدللہ آج شیعہ بڑا باعزت اور پاکستان کے اندر تشیع کا ایک مقام ہے۔

مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا / ہم "فرزندِ حوزہ" ہیں، ہمارا مؤقف وہی ہے جو رہبر کبیر اور رہبر معظم کا مؤقف ہے

اس کے بعد میں 2013ء میں ہم سیاست میں وارد ہوئے، ہم نے پہلی دفعہ انتخابات اور پاکستان کی قومی سیاست میں حصہ لیا۔ اور ہم نے بلوچستان میں ایک سیٹ ایم پی اے کی جیتی۔ حالانکہ ہمارے پاس کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن بہرحال اللہ تعالی نے مدد کی۔ اس کے بعد پھر ہمارا سیاسی جریان اور تحریک آگے بڑھی اور 2015ء میں جی بی میں تین ایم ایل اے منتخب ہوئے اور اس کے بعد پھر 2018ء کے الیکشن میں پھر ہمارے پاس پنجاب اسمبلی سے ایک ایم پی اے تھیں اور اس کے بعد 2020ء میں پھر جی بی میں پھر ہمارے پاس الحمداللہ 3 وزارتیں تھیں اور ایم ایل ایز تھے۔ پھر اس کے بعد 2023ء میں جب الیکشن ہوئے تو ہم الحمدللہ پارلیمانی جماعت بنے اور قومی اسمبلی میں ہمارے ایک ایم این اے انجینئر حمید حسین صاحب پاراچنار سے کامیاب ہوئے۔

یعنی اگر دیکھیں تو پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک شیعہ جماعت پارلیمانی جماعت بنی اور پھر علامہ راجہ ناصر صاحب سینیٹر بنے اور یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے چونکہ پاکستان کی شیعہ تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی شیعہ عالم دین بطورِ شیعہ سینٹر منتخب ہوا اور"حوزہ میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں" الحمدللہ ان کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ "فرزندِ حوزہ" ہیں، انقلابی سوچ رکھنے والے، رہبرِ معظم کے پیروکار، جو اسی شیعہ شناخت کے ساتھ، عبا قبا کے ساتھ وہ سینیٹ کے اندر موجود ہیں اور اب وہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے سامنے آ رہے ہیں۔ الغرض مذہبی فعالیت کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی الحمداللہ مجلس وحدت مسلمین کا ایک بہترین کردار رہا ہے۔

حوزہ نیوز: مختلف مسالک کے درمیان رواداری اور افہام و تفہیم کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے، اسی طرح تشیع کے درمیان بہتر روابط اور بین المذاہب ہماہنگی کو بھی مختصر انداز میں بیان کریں۔

حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی:

مجلس وحدت مسلمین جب بنی تھی، تو اس میں ٹائٹل ہی "وحدتِ مسلمین" رکھا گیا تھا اور الحمدللہ اس کا یہ نام شعوری طور پر رکھا گیا تاکہ ہم اہلسنت بھائیوں کو اپنے آپ سے نزدیک کر سکیں اور ہم نے شروع سے ہی اہلسنت بھائیوں کے ساتھ روابط قائم کئے اور حتی پولیٹکلی بھی یعنی سیاسی حوالے سے بھی جو ہم نے اپنی سیاست کا آغاز کیا وہ کیا ہی سنی دوستوں کے ساتھ، سنی اتحاد کونسل جناب حامد رضا صاحب کے ساتھ مل کر کیا۔ ان کے والد صاحب ایک بہت بڑے مدرسے کے بانی رہے اور ان کا ایک بہت بڑا نام ہے تو اس میں دو فائدے ہوئے: ایک سیاسی طور پر ہم لوگوں نے رشد کیا اور ساتھ میں آٹومیٹکلی اتحاد بین المسلمین کا سبب بنا۔ چونکہ جب ایک طرف شیعہ عالم دین ہے، دوسری سنی عالم دین اور پیر ہے تو یہ باہمی وحدت میں انتہائی مؤثر ثابت ہوا۔

پھر طاہر القادری صاحب سے ہمارے نزدیکی تعلقات ہوئے اور پھر دیگر لوگوں سے ہوئے تو الحمدللہ اس وقت شیعہ و اہل سنت کے اندر ایک بہت اچھی اور محبت والی فضا ہے، آج پاکستان میں شیعہ سنی ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے، ایک ساتھ کام کرتے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ شیعہ ہوں یا سنی ہو ہمیں بہرحال ایک دوسرے کو قبول کرنا پڑے گا، محبت کرنی پڑے گی۔ میں خصوصا کہوں گا کہ اگر ہم دوسروں کو محبت دیں گے تو دوسری طرف سے بھی محبت ملے گی۔ لہذا ہمیں دوسروں کے ساتھ حسنِ ظن بھی رکھنا چاہیے، محبت سے پیش آنا چاہیے، ان کے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں ان سے بات کرنی چاہیے۔ اگر ہم صرف اپنی بات کریں گے تو نتیجے میں ظاہر ہے وہ بھی پھر اپنی بات کریں گے۔ تو اس طرح معاملات خراب ہو جاتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا / ہم "فرزندِ حوزہ" ہیں، ہمارا مؤقف وہی ہے جو رہبر کبیر اور رہبر معظم کا مؤقف ہے

اسی طرح ہم آپس میں شیعوں کے حوالے سے بھی بہرحال جب ہمارا رشتہ ولایت سے منسلک ہے اور امام حسین علیہ السلام ہمارے دلوں کا کعبہ ہے، عزاداری سید الشہداء (ع) ہمارا مشترکہ عقیدہ ہے اور ایک عبادت ہے تو میرا خیال شیعوں کے درمیان بھی کوئی ایسا بڑا اختلاف نہیں ہونا چاہیے اور میں اس لحاظ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس وقت پاکستان میں الحمدللہ، میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے بہت سارے ممالک کی نسبت پاکستان میں شیعوں کا آپس میں بہت زیادہ اتحاد و اتفاق اختلاف ہے، یعنی اگر زیادہ سے زیادہ کہا جائے کہ "اختلاف ہے لیکن عناد نہیں ہے، دشمنی نہیں ہے، اشتراکِ عمل ہے"۔ دیکھیں پاکستان میں دو میجر شیعہ قومی جماعتیں ہیں؛ شیعہ علماء کونسل اور مجلس وحدت مسلمین۔ باقی تو کوئی اس طرح کی جماعت نہیں ہے۔ پاکستان لیول پر جماعتیں یہی دو ہیں اور یہ دونوں انقلابی ہیں اور الحمداللہ قومی ایشوز کے اندر دونوں کا اشتراکِ عمل رہتا ہے، جو بھی بڑا ایشو ہوتا ہے۔ پاکستان میں شیعوں کے خلاف عزاداری کا ایشو ہو، شیعوں کے حقوق کا مسئلہ ہو، پاکستان میں سلیبس کا مسئلہ ہو، ہمارے خلاف سازشیں ہوتی ہیں، بل لایا جاتا ہے مثلا پنجاب اسمبلی میں، قومی اسمبلی میں۔ ان تمام ایشوز میں دونوں جماعتیں باہم بیٹھتی اور آپس میں ہم اہنگی کرتے ہیں، ایک موقف اختیار کرتے ہیں اللہ کا شکر ہے اور پھر ہم ایک موقف کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ الحمداللہ اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ حتی سیاسی عمل میں بھی اس طرح اشتراکِ عمل ہے الحمداللہ۔

وہ لوگ جو دور سے دیکھتے ہیں کہ دو جماعتیں ہیں! حالانکہ الحمداللہ بہت زیادہ ہمارے درمیان اشتراکِ عمل ہے۔ میں مثالیں نہیں دینا چاہتا ہوں ورنہ تو دوسرے ممالک میں تو شیعوں کے درمیان جنگیں ہوئیں لیکن الحمدللہ ہمارے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں الگ الگ جماعتیں ضرور ہیں لیکن الحمداللہ آپس میں محبتیں ہیں اور ایک دوسرے کا احترام ہے۔

مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا / ہم "فرزندِ حوزہ" ہیں، ہمارا مؤقف وہی ہے جو رہبر کبیر اور رہبر معظم کا مؤقف ہے

حوزہ نیوز: مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے دیگر مسائل پر مجلس وحدت مسلمین کا کیا کردار رہا ہے؟ اسی طرح موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آپ کیسا سمجھتے ہیں؟

حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی:

مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سبھی نے الحمد للہ بہت اچھا رول پلے کیا ہے۔ اسی طرح مجلس وحدت مسلمین کا تمام پلیٹ فارمز پر اس مسئلہ کو اجاگر کرنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فلسطین ایک اولین مسئلہ ہونا چاہیے لیکن افسوس کے ساتھ، بہرحال کچھ وجوہات کی بنیاد پر صورتحال ذرا مختلف ہے لہذا ہم عوامی سطح پر چاہتے ہیں کہ شیعہ سنی دونوں مشترکہ طور پر فلسطین کے مسئلے پر مضبوط موقف اختیار کریں چونکہ ہمارے ملک کے اندر اس وقت بہت بڑی سازش ہے کہ پاکستان کو "ابراہیم اکارڈ" کا حصہ بنایا جائے اور اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ اس کے لئے بہت زیادہ اس وقت جو ہے وہ زور دیا جارہا ہے اور تیاری ہو رہی ہے تو ہمارا سارا زور اس بات پر ہے کہ پاکستان کی تمام اکائیاں متحد ہو کر اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔ تحریک تحفظ ائین پاکستان اس کا بھی ایک مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح (رہ) کے موقف پر قائم ہے اور ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ ایک ناجائز ریاست ہے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ بھی جو ہمارا لائنس ہوا ہے وہ بھی سات نکاتی ہے۔ ان سات نکات میں سے دوسرا جو نکتہ ہے وہ ہے ہی اسرائیل کے بارے میں کہ "ہمار اسرائیل کے بارے میں وہی نظریہ ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح (رہ) کا تھا اور وہ یہ کہتے تھے کہ یہ غاصب ریاست ہے، ناجائز ریاست ہے جسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جا سکتا"۔ تو پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ہم کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔

مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا / ہم "فرزندِ حوزہ" ہیں، ہمارا مؤقف وہی ہے جو رہبر کبیر اور رہبر معظم کا مؤقف ہے

حوزہ نیوز: نوجوانوں کے مسائل کا حل اور موجودہ صورتحال کے مطابق دینی اور دنیاوی تعلیم میں توازن کیسے قائم کرنا چاہیے؟

حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی:

یوتھ کے حوالے سے الحمد للہ ہمارا یوتھ کا ایک شعبہ موجود ہے جس کا پورے پاکستان کے اندر اس کا نیٹ ورک ہے اور اس شعبے کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمیں نئی نسل کی جامع انداز سے تربیت جو ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کے افکار و نظریات کے مطابق ہو، قرآن و سنت کے مطابق ہو، امام خمینی (رہ) کے وژن کے مطابق ہو، رہبر معظم کے وژن کے مطابق ہو۔ انہی وژن کے تحت الحمدللہ وہاں پے نوجوانوں کی تربیت ہو رہی ہے، ان کے ورکشاپس ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی مختلف ایکٹیویٹیز ہیں، گیمز ہیں اور ساتھ میں ان کی ٹیکنیکل ٹریننگ ہے مثلا مختلف کمپیوٹر کورسز کروائے جا رہے ہیں، تجارت کے حوالے سے، بزنس کے حوالے سے انہیں مختلف کورسز کروائے گئے تاکہ وہ اپنے پاؤں پے کھڑے ہوں تو یہ سب یوتھ کے حوالے سے کام ہو رہا ہے۔

حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں زائرین کے مسائل کا حل کیا ہے؟

حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی:

زائرین کے مسائل کے لحاظ سے خاص کر جو لاسٹ مسئلہ ہوا۔ افسوس کے ساتھ ہماری حکومت نے زیارتِ اربعین کے اوپر جو اچانک سے پابندی لگا دی یہ بہت بڑا ظلم اور بہت بڑی زیادتی تھی اور ہم نے اس کے اوپر خاموشی اختیار نہیں کی۔ راجہ صاحب سینٹ میں اس پہ کئی دفعہ بولے راجہ صاحب نے اس پے مختلف حکومتی اداروں، وزراء سے بات کی اور اس کے بعد جب مسئلہ حل نہیں ہوا تو پھر ہم نے ایک ریلی کا آغاز کیا۔ "کراچی سے لے کے ریمدان تک" کہ ہم اس ظلم کو نہیں مانتے۔ ہم امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام کی زیارت اور اربعین کو نہیں چھوڑ سکتے۔ بہرحال وہ ریلی ہماری اس لحاظ سے کہ مذاکرات کامیاب ہوئے اور اس کے بعد پھر بہرحال گورنمنٹ نے وعدہ کیا کہ جی ہم اس راستے میں فیسلیٹیٹ کریں گے اور اس راستے کو کھولیں گے۔ یہ گورنمنٹ کا کہنا تھا کہ "یہ صرف اس سال کا مسئلہ ہے، ہم اگلے سال یہ راستہ کھول دیں گے"۔ لیکن ہم نے اپنے شیعہ قوم سے یہی کہا ہے کہ بھئی ہمیں ہر طرح کے مسائل کو فیس کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے، نہیں معلوم آئندہ گورنمنٹ کیا صورتحال اختیار کرے گی۔ عین ممکن ہے اگلے سال بھی اسی طرح سے تنگ کریں۔ تو جب تک عوامی پریشر اس کے اوپر نہیں پڑے گا گورنمنٹ مسئلے حل نہیں کرے گی۔ بلوچستان کے لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے تو خود بلوچوں نے، جتنی جماعتیں ہیں وہاں پر ان سب نے ہمیں یہی کہا ہے کہ کہ "ہم آپ کو ویلکم کریں گے"۔ اور پھر دو بارڈر ہیں: ایک ریمدان بارڈر اور دوسرا تفتان بارڈر۔ اگر تفتان بارڈر کی طرف کچھ ایشوز ہیں بھی تو ریمدان بارڈر کی طرف تو یہ مسائل بھی نہیں ہیں۔ سب کو یہ معلوم ہے کہ اس مسئلہ میں گورنمنٹ نے صرف تنگ کیا ہے، شیعوں کو اذیت دی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو کوئی مقصد نہیں تھا۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ ملک پاکستان سمیت ہر جگہ تشیع اور عالم اسلام کے مسائل کا خاتمہ ہو۔

مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا / ہم "فرزندِ حوزہ" ہیں، ہمارا مؤقف وہی ہے جو رہبر کبیر اور رہبر معظم کا مؤقف ہے

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha