حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکز احیاء آثار برصغیر کے مدیر حجت الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان کی حوزہ نیوز کے نمائندہ کے ساتھ گفتگو کا حصہ اول قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
حوزہ: ہم حوزہ نیوز کی ٹیم کی جانب سے آپ کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ یہاں تشریف لائے۔ براہ کرم سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنا تعارف کرا دیں۔
حجت الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان: میں بھی حوزہ نیوز کی ٹیم کا شکرگزار ہوں کہ آپ لوگوں نے حوزاتِ علمیہ کے نمائندہ پلیٹ فارم پر مجھے گفتگو کا موقع دیا۔ خداوند متعال آپ سب کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔
جہاں تک بندۂ حقیر کی بائیوگرافی کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ ہم پاکستان کے صوبہ سندھ کے ایک پس مانندہ ترین دیہات کے رہنے والے ہیں۔ 1970ء میں میری ولادت ہوئی ہے تو وہیں پر ہم نے اپنے دیہات میں ابتدائی تعلیم حال کی۔ پانچویں جماعت کے بعد ہمارے استاد قبلہ مولانا سید ریاض حسین شاہ صاحب، جو آج کل ضلع اٹک کے گاؤں چھپڑی میں رہتے ہیں۔ وہ ہمارے استاد بھی ہیں، ہمارے مربی بھی ہیں، ہمارے سرپرست بھی رہے۔ ان کا گھر اور ہمارے گھر بھی ایک تھا اور صحیح معنوں میں میرے مربی وہی ہیں، اس طرف لانے والے بھی اور محنت و تربیت کرنے والے بھی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد میں نے اپنی تعلیم کو شہر "باندی" میں جاری رکھا۔ باندی شہر کا جو علاقہ ہے وہ ہمارے دیہات سے تقریبا آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے تو جب ابتدا میں پیدل کا سفر ہوتا تھا اور آٹھ کلومیٹر تک ہم سب پیدل جاتے تھے۔ بعد میں پھر ایک بس کا انتظام ہوا لیکن وہ بس بھی ایک حد تک آتی تھی۔ تقریبا تین ساڑھے تین کلومیٹر پیدل چل کر جاتے تھے وہاں سے آگے پھر ہمیں بس ملتی تھی۔ وہ بس اگر نکل گئی تو پھر پیدل چل کر ہی جانا پڑتا تھا۔ تو ہم جب آگے ہائی اسکول میں گئے تو میرے والد بزرگوار مرحوم کو سید ریاض شاہ صاحب قبلہ نے کہا کہ "آپ کو خدا نے چار بیٹے دئے ہیں تو ایک بیٹا دین کے نام پہ دو" تو انہوں نے ہمیں 1984 کا آخر اور 85 کی ابتدا تھی کہ سندھ سے نکالا اور لاہور، جامعۃ المنتظر لے کر آئے۔ غربت کی ہمارا یہ حال تھا کہ میرے والد بزرگوار نے اس زمانے میں مجھے 10 روپے پاکستانی دیے تھے کہا کہ اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور الحمدللہ اس طلبگی کے ماحول میں بھی کہ جب پہلے لاہور میں رہا پھر ہم کراچی آ گئے تو وہ 10 روپے ایسے بابرکت ثابت ہوئے کہ اس کے بعد سے میں نے پھر آج تک گیارواں روپیہ اپنے والد سے نہیں لیا۔
جامعہ منتظر لاہور والوں کی کراچی کے اندر اپنی ایک شاخ بنی "جامعہ علمیہ" تو جو اعلان ہوا تھا کہ جو سندھ کے رہنے والے طالب علم ہیں وہ ادھر چلے جائیں۔تو 1985 یا 1986ء کے اندر جامعہ علمیہ کراچی کی پہلی کھیپ ہماری تھی۔ میں جامعہ منتظر لاہور میں 10 مہینے رہا تھا۔ پھر جامعہ علمیہ سے ہم مدرسہ جعفریہ منتقل ہو گئے۔ مدرسہ جعفریہ شیخ نوروز صاحب رضوان اللہ تعالی علیہ کا مدرسہ تھا۔ وہاں میں نے لمعہ تک پڑھا تھا پھر علامہ جان علی کاظمی صاحب نے جامعہ اطہر کے نام سے مدرسہ بنایا تو شیخ نوروز صاحب نے وہاں ہمیں تدریس کا حکم دیا جو 90 سے 92ء تک وہاں میں نے تدریس کی۔ 1992ء کے اختتام میں 14 اگست کو ہم نے پاک ایران بارڈر کراس کیا اور ہم ایران میں آ گئے۔ یہاں تقریبا ایک سال کے بعد مرکز جہانی کے امتحان میں قبول ہوئے اور پھر اپنی تحصیلات کو جاری رکھا۔
حوزہ: مرکز احیاء آثار برصغیر کا تاریخچہ اور اس کے قیام کا ہدف کیا ہے؟ برصغیر کی علمی و ادبی تاریخ کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان: حوزہ میں پہلے دن سے ہی علماء کے حالات پڑھنے سے میری دلچسپی رہی ہے۔ اور اس کی داستان یہ ہے کہ ہمارے نانا بزرگوار جو ہے وہ ہمیں انبیاء کے اور علماء کے قصے بہت سناتے تھے۔ ان سے ہم کہتے تھے کہ یہ آپ کہاں سے یاد کرتے ہیں؟ تو کہتے تھے کہ جب آپ مولوی بنو گے نا، تو کتابیں پڑھو گے تو یہ خود بخود یاد آ جائیں گے۔
اب اگر بات کریں احیاء آثار برصغیر کی تو میرے پایان نامہ (تھیسز) کا موضوع تھا "کتاب شناسی توصیفی تالیفات شیعہ در ردّ اہلسنت"۔ تو اس سلسلہ میں آپ مستحضر ہیں کہ جب ایران کے اندر دسویں صدی کی ابتدا میں شیعہ حکومت حکومت صفویہ قائم ہوئی تو اطراف کی حکومتیں بھی ساری فعال ہو گئیں۔ اس زمانے میں اطراف میں حکومتِ عثمانیہ بھی تھی تو عثمانیوں نے یہاں پر قتل عام کیا ہے، تقریبا 25 ہزار افراد شیعیانِ اہل بیت کا قتل کیا ہے۔ اسی زمانے میں ابن حجر مکی صاحبِ صواعق محرقہ جو ہے وہ مکہ میں رہتا تھا تو آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ ابن حجر مکی صواعق محرقہ کی ابتدا میں لکھتا ہے کہ "یہ کتاب میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ تاکہ مکہ کی سرزمین میں شیعت کی بڑھتی ہوئی تبلیغ کو روکا جائے"۔
البتہ اسی وقت علماء شیعہ نے بھی اس کا ردّ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ میرا جوپایان نامہ تھا تو اس کتاب شناسی کے دوران پھر مجھے کمر درد ہو گئی اور میں چار مہینے تک بستری ہو گیا (ڈسک کمر کی وجہ سے بیڈ پر رہا)۔ حاج آقای عبدالحسین محمدی جو میرے استاد رہنما بھی تھے اور بہت شفقت بھی کیا کرتے تھے حتی بعض اوقات گھر آ جاتے تھے کہ تیمارداری کےساتھ ساتھ پوچھتے رہتے کہ تحقیق کے سلسلہ میں کیا کام انجام دیا ہے۔۔۔ پھر انہوں نے ہی کہا کہ اب تک جتنا کام مکمل ہوا ہے اسے فائنل کریں اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔
استاد حسینی قزوینی میرے دوسرے استاد داور (جج) قرار پائے، جب میں انہیں اپنا پایان نامہ دینے کے لئے گیا تو انہوں نے پہلے تو مجھے منع کر دیا کہ میں دفاع نہیں کروں گا۔ میں نے عرض کی کہ آپ بااختیار ہیں لیکن میں اس موضوع پر پہلا بندہ ہوں جو وارد ہوا ہوں اور آپ اس موضوع کے متخصص ہیں کم از کم میری رہنمائی تو کریں۔ میں آپ کو اپنا پایان نامہ دے کر جا رہا ہوں۔ اس میں، میں نے تقریبا سوا تین سو کتابوں کی معرفی کی ہے آپ صرف یہ کریں کہ کسی ایک کتاب کا کام ہی دیکھ لیں، باقی سب کتب کی روش ایک ہی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ "ٹھیک ہے آپ رکھ کر جائیں، مجھے فرصت ملی تو مطالعہ کر لوں گا"۔ دوسرے دن جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا کہ "میں اس پایان نامہ کا داور بنوں گا"۔ تو یہ ان کی جانب سے پہلی تشویق تھی۔پھر جب دفاعیہ ہوا تو اس دفاعیہ کے اندر بھی یہ ان کی ہمارے لئے تشویق تھی کہ انہوں نے دوران دفاعیہ کہہ دیا کہ "یہ واحد پایان نامہ ہے کہ جس کے ایک ایک صفحے سے خود میں نے استفادہ کیا ہے"۔ پھر آغا نے آقای اعرافی حفظہ اللہ کو ایک لیٹر لکھا کہ "اس بچے کی آپ لوگ تشویق کریں"۔ ابھی تازہ ہی غدیر کے موقع پر ہمارے مؤسسہ میں ایک پروگرام تھا جس کے خطیب آقای قزوینی تھے، انہوں نے دوبارہ یہاں نقل کیا کہ "میں ان پایان نامہ دفاعیہ نہیں کر رہا تھا لیکن اس کے اصرار پر میں پایان نامہ رکھ کر جانے کا کہا تو یہاں پر فرمایا کہ "من دیدم کہ این یک گوھرست، من فقط برای دو تا طلاب بہ آقای اعرافی نامہ نوشتم، یکی از عربستان بود و دیگری آقای طاھر"۔
پھر یہی چیز باعث بنی کہ مرکز جہانی (موجودہ جامعۃ المصطفی) کی جانب سے مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ "آپ اس کام کو آگے بڑھائیں"۔ اب جب یہ طے پایا تھا کہ میں اس کام کو مزید وسعت دوں تو میں نے اس کام کو غیبت صغری سے لے کر عصرِ حاضر تک" پھیلا دیا۔ تو تقریبا سوا سولہ سو (1625) کتابیں میں نے متعارف کرائیں۔ اس کے لیے میرے پاس ایک مجبوری تھی کہ میں علماء کے حالات اور کتاب خانوں کی فہرستوں کا مطالعہ کروں۔ پہلے بھی موضوع یہ تھا کتاب شناسی کرنی ہے تو پھر کتب بھی دیکھنی ہوں گی اور علماء کی حالات بھی پڑھنے ہوں گے۔ تو اولین بار جو ہے اس موضوع کو لکھنے کے لیے جب میں متوجہ ہوا ہوں علماء کے حالات کی طرف تو دیکھا کہ بھئی ایک صاحب بزرگوار ہیں 200 کتابیں لکھ رہے ہیں، ایک ڈھائی سو کتابیں لکھ رہے ہیں، ایک پانچ سو کتاب لکھ رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اتنی قربانیاں ہو چکی ہیں اور کتابیں مارکیٹ میں ہیں ہی نہیں!!۔ یہ کتابیں کہاں چلی گئیں؟، کہاں مفقود ہو گئی ہیں، مہجور ہو گئی ہیں یا ختم ہو گئی ہیں؟!۔ یہ دغدغہ میرے ذہن میں آگیا کہ جب مجھے اطلاع ملی کہ کچھ کتابیں رام پور میں پڑی ہیں، کچھ دہلی میں پڑی ہیں، کچھ پٹنہ میں پڑی ہیں، کچھ ایران میں پڑی ہیں تو کچھ باہر نکل گئی ہیں۔ فلان نے اتنی کتب لکھیں، فلاں نے اتنی لکھیں۔ بعض کتاب خانہ شخصی اور بعض کتاب خانۂ عمومیوں کے اندر گم ہیں، کچھ کتابیں فہرستوں کے طور پر نشاندہی ہو رہی ہیں لیکن مارکیٹ میں نہیں ہے تو میں نے اپنے ساتھ یہ عہد کیا کہ "طاہر، مساجد آباد ہیں، منبر آباد ہیں، مدرسے آباد ہیں لیکن یہ میدان کاملا خالی ہے۔ اب جب تک آپ کو پتا نہیں تھا تو نہیں تھا لیکن ابھی تو سب پتہ چل گیا ہے کہ ان بزرگوں کی میراث کہاں پر پڑی ہے؟ کہاں بکھری پڑی ہے؟ ان کے اوپر کیا مصیبتیں نازل ہوئی ہیں؟ تو اس میراث کو ہی جمع کرنا شروع کر دے، چونکہ یہ میدان بالکل خالی پڑا ہے۔ تو ہم بالکل تن تنہا اس میدان میں اترے، اب میرے پاس کیمرہ نہیں تھا تو ہمارے ایک دوست نے آقای مجتبی پیری نژاد، تہران میں رہتے ہیں، ان سے میں نے کیمرہ ادھار مانگا اور مختلف جگہ پر کتاب خانوں میں جا کر، اب ان کی چاپلوسیاں کر کے، منتیں سماجتیں کر کے، سفارشیں کرا کے ان کتابوں کی عکس برداری شروع کی اور اس طریقہ سے ہی ہمارے ایک دوست تھے تو میں اب دن بھر کتاب خانے گھومتا اور پھر اس کے پاس رات کو جاتا تھا تو جو کیمرے کے اندر کارڈ لگا ہوتا تھا وہ اس کے کمپیوٹر میں خالی اور ڈیٹا کاپی کرتا تھا تاکہ پھر دوبارہ سے اس کارڈ سے استفادہ کر سکوں چونکہ میرے پاس اپنا کمپیوٹر بھی نہیں تھا۔ یہ کارڈ بھی اس کیمرہ کے ساتھ قرض لیا ہوا اور کمپیوٹر بھی اپنا نہیں۔
چھ مہینے کے بعد میں نے اس برادر سے کہا کہ اب تو بہت کچھ ڈیٹا جمع ہو گیا ہو گا۔ تو اب مجھے وہ کسی سی ڈی یا ڈی وی ڈی میں ڈال دیں تو اس کے جواب میں اس نے ایک مسکراہٹ کی اور جواب دیا کہ "وہ تو میں نے ونڈو انسٹال کی تو سارا ڈیٹ اڑ گیا ہے"۔ پھر ایک لمحے کے لیے تو جیسے میری دنیا ہی تاریک ہو گئی تھی لیکن بہرحال کیا کیا جا سکتا تھا۔ البتہ اس وقت ہمت تھی، جوانی بھی تھی۔ تو پھر سے شروع کر دیا۔ جو ڈیٹا ڈیلیٹ ہو گیا تھا وہ تو ہم نے دوبارہ سے محفوظ کر لیا لیکن اب ہم نے الحمدللہ مزید جذبے کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھایا۔ پھر جب میں سفر بھی جاتا تھا پاکستان میں وہاں میں نے اپنے بڑے بھائی سے کہا (جو کچھ وقت ہوا مرحوم ہو گئے ہیں)۔ کہ یار میں اکیلا ہوں اور یہ مجھے کام بہت زیادہ پڑتے ہیں تو میں اگر ایک لائبریری میں جاتا ہوں تو اس سے فوٹو لینے شروع کرتا ہوں تو پھر دوسری لائبریری میں چیکنگ بھول جاتا ہوں کہ اس کے اندر کیا کتاب پڑی ہے اور ادھا میں انا مجھے ارام سے پیر بیوی کے لیے ہوتا ہے ساری محنت خود کو کرنی پڑتی ہے، آپ میرا ساتھ دیں۔ تو انہوں نے اپنے بعض مسائل بیان کرنے کے بعد بالآخرہ کہا ٹھیک ہے۔ ہم نے صفر سے کام شروع کیا تھا اور الحمدللہ اب جب اس وقت میں آپ کی خدمت میں موجود ہوں، یہ پایان نامہ جو کتاب شناسی کے لحاظ سے اطلاع رسانی تھی، یہ سبب بنا تھا کہ میں علماء اور ان کی کتابوں سے آشنائی حاصل کروں اور پھر یہ آشنائی حاصل کرنے کے بعد میرے وجدان و ضمیرنے مجھے مجبور کیا کہ اب آپ جب سمجھ گئے ہو تو ان کے مقابلے میں میرا کچھ فریضہ بھی بنتا ہے لہذا ان کے فوٹوز وغیرہ اور کاپی لینے کے لیے ہم نے شروعات کر دیں۔
یہ دوسرا مرحلہ تھا، تیسرے مرحلے ہم نے کتابوں سے جب آشنائی پیدا کر لی تو اب یہ سوچا کہ ان کتابوں کا کریں کیا؟؟ چونکہ یہ تو پہلے بھی کسی لائبریری میں محفوظ پڑی تھیں اور اب میرے پاس محفوظ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ تو فرق کیا ہوگا؟! تو میں نے کہا کہ نہیں ہم نے اپنے پاس صرف محفوظ ہی نہیں رکھنی ہیں۔ یہاں یہ عرض کروں کہ میں یہاں قم میں مرکز احیاء آثار برصغیر کے 2010ء کے اندر 20 جمادی الثانی 1431ھ حضرت بی بی ہراء سلام اللہ علیہا کے روزِولادت کو رسمی طور پر تاسیس کر چکا تھا، جس کے لئے محلہ نیروگاہ میں ہم نے دو کمروں کا ایک گھر کرایہ پر لیا اور جو گھر کا مالک تھا سید مراد علی شاہ صاحب، خداوند ان کو حفظ کرے۔ میں نے اس سے کہا کہ آب پاکستان میں رہتے ہیں۔ آپ کو ماہانہ کرایہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ مجھ سے سال کی قرارداد کریں کہ سال کے بعد کرایہ لیں گے تو میں یہاں اس مؤسسہ کو بنانا چاہتا ہوں۔ ورنہ ماہانہ کرایہ دینے کے لیے میرے پاس فعلا پیسے نہیں ہیں۔ تو انہوں نے اوکے کر دیا کہ مجھے کوئی مشکل نہیں ہے۔ آپ سال کے بعد دے دیا کریں۔ تو وہ ہم نے دو کمروں سے مؤسسہ کی ابتدا کی۔ کافی ساری کتب میں پہلے ہی جمع کر چکا تھا۔
جب یہ مؤسسہ تاسسیس ہو گیا تو پھر ہم نے کتب کی ٹائپنگ کا سلسلہ شروع کر دیا تاکہ کچھ اہم کتابوں کو احیاء کیا جائے۔ پھر ویب سائٹ ایک بنا لی کہ کتابوں کو وہاں اپلوڈ کیا جائے۔ مرکز احیاء آثار کی ویب سائٹ maablib.org ہے جہاں ہم اپنی کتابوں کو اپلوڈ کرتے ہیں، مطالعہ بھی مفت میں ہے اور وہاں پر اگر کوئی کتاب کو ڈاؤلوڈ کرنا چاہیں تو وہ بھی مفت میں ہے۔ برصغیر کی کتابوں کو یہاں پر اپلوڈ کیا جاتا ہے۔ کتابوں کو احیاء کرنے کا ہمارا ایک طریقہ یہ ہے۔
دوسرا طریقہ ان کو چھاپنے کا ہے اور تیسرا طریقہ جگہ جگہ لائبریریز کے قیام کا ہے۔ الحمد للہ یہ سارے مراحل شروع ہو چکے ہیں۔ اس وقت نجف اشرف میں بھی موسسہ کی بنیاد ہو چکی ہے۔ کراچی کے اندر بھی شروع ہو چکا ہے۔ انڈیا، دہلی کے اندر بھی ہے الحمدللہ۔ آقای سید محسن کشمیری حفظہ اللہ اس کی خود سرپرستی کر رہے ہیں، سنبھال رہے ہیں۔ البتہ کراچی میں ہمارا الحمدللہ اصلی مرکز ہے اس وقت وہاں ڈاکٹر محمد رضا داودانی صاحب اس کی سرپرستی کر رہے ہیں۔کراچی میں 555 میٹر زمین پر دو طبقہ لائبریری الحمدللہ فعال ہے۔
حوزہ: آپ عمومی طور پہ جو بھی کتب تھیں ان کے احیاء پر فوکس کرتے ہیں مثلا جو بھی قیمتی نسخے تھے یا ایک خاص ذہن کے ساتھ کتابوں کی طرف جاتے ہیں۔
حجت الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان: مرکز احیاء آثار برصغیر کو جو ہم نے شروع کیا ہے وہ میں اس کی تفصیلات بتاتا ہوں لیکن کتاب عنوان بعنوان کتاب ہمارا ایک موضوع ہے۔ ہمارے موضوعات دیگر مثال کے طور پر وہ بزرگانِ برصغیر کہ جنہوں نے بہت زحمتیں کر کے، بہت محنتیں کر کے مکتب کو احیاءکیا تھا لیکن ان کی قبور تک مجہول ہیں۔ ہم ان کی قبور تک کو بھی تلاش کرتے ہیں، ان کی قبروں پہ جاتے ہیں، بعض افراد کو ڈھونڈتے ہیں۔ اس وقت تک مرکز تقریبا سات بزرگوں کی قبروں کی تعمیرات بھی کرا چکا ہے۔ ایک موضوع یہ ہے اور سنگین ترین موضوع جس کو ہم نے شروع کیا ہوا ہے اور وہ ابھی تک ابتدائی مرحلہ حل کر رہا ہے وہ ہے "انسائیکلوپیڈیا شیعیان برصغیر"۔ اس کو مقدماتی جو کہ بالکل اس موضوع کا باب خالی ہے اس کے لیے مقدماتی طور پر ہم تقریبا ساڑھے نو ہزار فارم جمع کر چکے ہیں۔ ایک فارم ہم نے تیار کیا ہے جو شخصیت کے اعتبار سے بھی ہے، امام بارگاہ، مساجد، لائبریری، قبرستان، علماء کے مقابر وغیرہ اور دوسرا جو ہے وہ شخصیات کا جیسے علماء، شعراء، مرثیہ نگار، عزاداری کے بانی، عزاداری کی مروجین ۔۔۔ تقریبا آٹھ سے دس عناوین ہم نے تیار کئے ہیں جس میں ان سب کی تفصیلات جمع کی جاتی ہیں............. (جاری ہے)