حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آنلائن سیمینار سے ماہر امور مشرق وسطیٰ مرکزی جنرل سیکرٹری مجلس وحدت مسلمین پاکستان و صدر سنٹر فار پاکستان اینڈ گلف اسٹڈیز ڈاکٹر سید ناصر عباس شیرازی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شام دنیا کی قدیم ترین تہذیب و تمدن والا ملک ہے، جس کا دارالحکومت دمشق ہر دور میں سماجی، سیاسی، مذہبی اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، شام میں اسرائیل دشمنی کی وجہ سے بار بار مسلح گروہوں سے یلغار کروائی گئی، تاکہ اسرائیل کی سرحدوں پر کوئی بھی ہمسایہ دفاعی حوالے سے مضبوط نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ بشار الاسد نے امریکہ و مغرب کی پروردہ داعش کے خلاف بارہ سالہ دہشت گردانہ یلغار کو کامیابی سے ناکام کیا، جس میں شامی حکومت کی درخواست پر روس، ایران اور حزب اللہ کا تعاون اہمیت کا حامل تھا، جس کی بدولت وسطی ایشیاء، ترکی، اردن، عراق اور دیگر ممالک سے داخل کیے گئے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا گیا، لیکن اب چودہ ماہ کی غزہ اسرائیل جنگ کے دوران صدر بشار کی خاموشی سوالیہ نشان تھی، اس سارے دورانیہ میں شام پر صہیونی حکومت نے کئی حملے کیئے لیکن شامی حکومت نے ان کا نہ صرف کوئی جواب نہیں دیا بلکہ ایران اور حزب اللہ کے لیے سپیس بھی محدود کر دی۔
سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ جو قوم اپنے مقاصد سے آگاہ نہیں ہوتی وہ اپنی ذمہ داری بھی انجام نہیں دیتی، اب ایک طرف بشار الاسد کو مغرب اور عرب دنیا کے ساتھ جوڑنے کی غلط راہ دکھائی گئی تو دوسری طرف امریکہ و اسرائیل کی ایماء پر ترکی کے ذریعے ادلب میں مسلح گروہوں کو مکمل ٹریننگ اور وسائل فراہم کیے گئے، اندر سے شامی فوج کے سرکردہ آفیسرز کو بھی خریدہ گیا اور یہی وجہ تھی کہ باہر سے آئے متشدد گروہ حلب سے حماہ اور حمص سے دمشق تک بغیر کسی مزاحمت کے پہنچ گئے، شامی فوج نے کسی ایک محاذ پر بھی انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی، شامی صدر خوف زدہ ہو کر عرب و مغرب کے ہاتھوں دھوکہ کھا گئے، آخر کار انہیں شام میں 53 سالہ علوی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور بڑی رازداری کے ساتھ روس میں جا کر سیاسی پناہ لینا پڑی، اس ساری صورتحال میں اس کے اتحادی بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ خود صدر بشار نے جب شکست مان لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ شامی صدر سے جب ایران، روس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے اس بیرونی صہیونی یلغار کے خلاف تعاون کی بات کی تو وہ نہ صرف مدد لینے سے گریزاں تھے بلکہ خوف زدہ نظر آئے، یہ دہشت ان پر اسرائیلی و امریکی سفاکیت اور درندگی کی وجہ سے تھی، امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی کھل کر امداد کر رہا ہے، کیونکہ اس خطے میں اسرائیل امریکہ کی طاقت کا ستون ہے امریکہ جانتا ہے کہ اگر اسرائیل مکمل ناکام ہو گیا تو یہ شکست امریکہ کی شکست فاش ہو گی اور مشرق وسطیٰ سے امریکی وجود مٹ جائے گا، اس لیے شام کو شیطانی ہتھکنڈوں سے کمزور کیا گیا، اب صورتحال سب پر واضح ہے کہ اسرائیل نے شام کی فضائیہ، بحریہ اور بری دفاعی نظام کو تباہ کر دیا ہے، جولان کی شامی چوٹیوں پر قابض ہو کر دمشق تک پہنچ گیا ہے، لیکن شامی مسلح گروہ جشن منانے میں مگن ہیں اور شام کو اب کسی بھی صورت میں مستحکم نہیں ہونے دیا جائے گا جو کہ اس سارے صیہونی منصوبے کا بنیادی مقصد ہے۔
آپ کا تبصرہ