تحریر: سکندر علی ناصری
حوزہ نیوز ایجنسی| غزہ کی جنگ کو دوسرے سال میں داخل ہوئے تیں مہینے ہو چکے ہیں۔ جس میں صیہونی غاصب حکومت نے کوئی جرم ایسا نہیں چھوڑا ہے، جس کا وہ مرتکب نہ ہوئی ہو، اس نے تمام تر جرائم اور مظالم بے گناہ غزہ پر ڈھائے۔ ان کو بیان کرنے سے انسان کی زبان کی عاجز ہے، ان کو لکھنے سے ہاتھ کانپ رہے ہیں، ان پر قلم ہچکیاں لے رہا ہے۔
صیہونی مظالم پر قلم کی سسکیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں، صفحہِ قرطاس پر سکوت طاری ہے، ان مناظر کو دیکھ کر ہر ایک کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، عالم کی پوری فضاء سوگوار ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل نے خواتین، بچوں، زخمیوں، رہائشی علاقوں، پناہ گزینوں، ان کے کیمپوں، اسپتالوں، کلینکوں، مساجد، گرجا گھروں، اسکولوں، خبرنگاروں اور میڈیا کے مراکز اور بین الاقوامی امدادی ٹیموں وغیرہ کو نشانہ بنایا ہے۔ اس جنگ میں قیدیوں کی عصمت دری ہوئی، شہیدوں کو مسخ کیا اور دیگر ہزاروں جرائم صیہونی حکومت کے ریکارڈ میں درج ہیں۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ کے پہلے سال میں شہید ہونے والوں کی تعداد 42 ہزار ہیں اور زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ فلسطینی طبی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کی وجہ سے 50 ہزار سے زائد حاملہ خواتین صحت اور طبی خدمات سے محروم ہیں۔ بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق صیہونی حکومت بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے اور گزشتہ ایک سال میں غذائی قلت اور بھوک کی وجہ سے بہت سے بچے شھید ہو چکے ہیں۔ شہداء میں 60 فیصد سے زائد خواتین اور بچے ہیں۔ شہداء میں سے تقریباً 1000 کا تعلق طبی عملے اور امدادی فورسز سے ہے۔ اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ کے 38 ہسپتالوں میں سے 23 ہسپتال تباہ اور سروس سے باہر ہو گئے ہیں۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق اسرائیلی حملوں کے دوران رپورٹرز، فوٹوگرافرز اور ویڈیو گرافرز سمیت میڈیا کے 175 ارکان شہید ہوچکے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حکومت کے اقدامات یقیناً نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی واضح مثال ہیں۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فلسطینیوں اور لبنانی عوام کی نسل کشی کا واحد الزام اسرائیل پر نہیں ہے، بلکہ اس میں امریکی فوج، انٹلیجنس اور سفارتی عملے ملوّث ہیں، ان کی مدد کے بغیر صیہونی حکومت کبھی بھی غزہ اور لبنان کے خلاف ایسے اقدامات نہیں کرسکتی۔
اگر امریکہ چاہے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی طاقت اور اثرورسوخ استعمال کر کے اسرائیل کو ان جرائم سے روک سکتا تھا، لیکن بائیڈن حکومت نے نہ صرف ایسا نہیں کیا بلکہ غزہ میں جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کی کم از کم 4 قراردادوں کو ویٹو بھی کر دیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران جو بائیڈن اور ان کی نائب کملا ہیرس نے بارہا اعلان کیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے لئے کوشاں ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دعوے عملی طور پر جھوٹے ہیں، جنہیں چھپانے سے چھپ نہیں سکتے؛ کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ نہ صرف فلسطین اور لبنان میں اسرائیل کی نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ کچھ معاملات میں نیتن یاہو کو جرائم کرنے کی ترغیب بھی دی ہے، خاص طور پر لبنان کے لوگوں کو مارنے کے لئے 2000 پاؤنڈ کے دھماکہ خیز بموں کی فراہمی ہے، جسے امریکہ چھپا نہیں سکتا۔ بائیڈن انتظامیہ کی سفارتی اور نظامی حمایت کے بغیر نیتن یاہو کو یقینی طور پر خطے میں ایسے جرائم کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔ بائیڈن اور کم و بیش دیگر مغربی ممالک کے سربراہان ان تمام ہلاکتوں اور نسل کشی میں نیتن یاہو کے ساتھ شریک جرم ہیں اور انہیں عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنے جرائم کا جواب دینا ہوگا۔ یورپ اور امریکہ کے مین سٹریم میڈیا کو قرار واقعی سزا دی جائے، جنہوں نے اسرائیلی جرائم کو سنسر کیا اس نسل کشی کو جاری رکھنے میں کردار ادا کیا، سچ کو چھپانے، جھوٹ بولنے اور ظالم کو مظلوم دکھانے کی کوششوں کی ہے، یہ مغربی ممالک ہیں، جن کے بل بوتے پر اسرائیل حماس اور حزب اللہ سے لڑ رہا ہے، ورنہ یہ کب سے زمین گیر ہوچکا ہوتا؛ اس وقت پوری عالمی طاقتیں اسرائیل کو بچانے میں مصروف ہیں۔ حزب اللہ اور حماس نہ صرف اسرائیل سے لڑ رہی ہیں، بلکہ در حقیقت ان طاقتوں سے میدان نبرد میں ہیں اس کے علاوہ کچھ اسلامی غدار حکمران بھی اسلام دشمن طاقتوں سے ملکر مقاومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
سوریہ میں بشار اسد کی حکومت کے جانے کے بعد جو حکومت بنے گی اس کے متعلق ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن یہ تبدیلی وقتی طو پر ایران اور محور مقاومت کے لئے نیک شگون نہ ہو، لیکن سیاسی سناریو سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تبدیلی سے سب سے زیادہ فائدہ ایران اور محور مقاومت ہی کو ہوگا؛ اگر آپ گزشتہ ان دو دہائیوں پر دقت سے نگاہ کریں تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، مثلاً امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا، تاکہ ایران کو ختم کرسکے، پھر عراق پر حملہ کیا تاکہ ایران مجبور ہو کر تسلیم ہو، لیکن ہم آج دیکھ رہے ہیں امریکہ ان ممالک میں ناکام ہوا اور شکست ہوکر حقارت اور ذلت کے ساتھ افغانستان کو چھوڑنا پڑا اور عراق سے باہر کرنے کے لئے عراقی حکومت کی جانب سے اس پر پریشر ہے اور نکلنے کی تاریخ معین ہوچکی ہے اور اس کو یہاں سے بھی ذلت و پستی کے ساتھ نکلنا ہوگا۔ اس وقت دمشق پر پوری دنیا خصوصی طور پر عالمی طاقتوں کی نگاہیں مرکوز ہیں، ایک ہی وقت میں دمشق میں دو سپر پاور امریکہ اور روس پہلے سے موجود ہیں اور مستقبل قریب یا بعید میں اسرائیل بھی داخل ہوگا، بلکہ غیر رسمی طور پر داخل ہوچکا ہے، دوسرے سپرپاور ممالک اسرائیل اور امریکہ کی حمایت کرنے کے لئے حاضر ہوں گے، یہ سب اپنے مفادات کے حصول کے لئے موجود ہیں، اس پر مزید معارض جماعتوں کی موجودگی ہے، ان میں سے کچھ کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، کچھ ترکی کی زیر قیادت میں ہیں، کچھ روس کے حامی ہیں، کچھ جماعتیں خود سوری آزاد آرمی پارٹی کی ہیں، ان تمام گروہوں کے درمیان سے ایران اور عراق اپنی حامی جماعت بنانے میں کامیاب ہوں گے اور جس طرح ایران نے عراق میں حشد الشعبی تشکیل دیکر دنیا کو حیران کر دیا تھا، اسی طرح دمشق میں بھی دنیا حیران ہوگی۔
آپ کا تبصرہ