تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی| مسجد الاقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مسجد الاقصٰی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے۔ قرآن کریم میں سفر معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے۔ دمشق (شام) میں سیدہ زینب کبریٰ بنت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا روضۂ اقدس ہے۔
یزید ابن معاویہ لعنت اللہ کے دور حکومت آپ (س) کی شہادت 15 رجب المرجب 62 ہجری کو ہویٔ۔ انگریزی کیلنڈر کے مطابق 29 مارچ 682 عیسوی میں ہویٔ یعنی قمری اعداد وشمار کے مطابق 57 سال اور شمسی حساب سے 55 سال میں۔ آپ کی عمر 56-55 تھی۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا روضۂ اقدس انگریزی کیلنڈر کے اعداد وشمار کے مطابق 1342 سال اور اردو کیلنڈر کے مطابق 1384 سال سے اپنے آب و تاب سے عقیدت مندوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آپ مسلمانوں کے دل، فکر، اور احساس میں رہتی ہیں۔ دیواروں پر تحریر کیا ہوا نام مٹایا جا سکتا ہے لیکن آپ کا اصل مقام دل و فکر ہے۔ وہاں تک کسی کی رسائی ناممکن ہے۔
طوفان الاقصٰی کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کی صبح ہوا، رفتہ رفتہ اس کا اثر و داںٔرہ وسیع ہوتا گیا، لبنان، یمن, عراق اور شام تک طوفان الاقصٰی کا اثر دکھایٔ دے رہا ہے اگر یہ کہا جائے کہ پوری دنیا پر اثرات مرتب ہوۓ تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگا۔ حالانکہ اس طوفان میں شام کے میدان میں حیات تحریر الشام، کرد، داعش، امریکہ، اسرائیل اور طیب اردوغان اور دیگر دہشتگرد گروہ کو یکا یک نہایت ڈرامائی انداز میں داخلہ حاصل ہوا ہے جس کی وجہ سے طوفان کا رخ بدلتا نظر آرہا ہے، حولناک اور دلچسپ ہوا ہے۔ شام کے حکمران ملک چھوڑ کر فرار ہو گۓ ہیں۔ ایران اور روس نے فی الحال اپنے آپ کو اس میدان سے الگ کر لیا ہے۔ دو کردار اہم بغور دیکھے جارہے ہیں ایک وہ جو بہت تیزی سے منظر پر لایا گیا ہے وہ ہے ابو محمد الجولانی جس کے دماغ کا چپس تبدیل کردیا گیا ہے جو اسرائیل اور امریکہ کے مفاد کا ایپس ہے اور ان کے لیے ہتھیار چلا رہا ہے اور اپنے آقا کے مطابق چلتا ہے اور گفتگو کرتا ہے۔ابتک حماس کے اعلیٰ عہدیداران اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار، حذب اللّٰہ کے سکریٹری جنرل آیت اللّٰہ سید حسن نصراللہ اور ان کے قاںٔم مقام، آیت اللّٰہ سید صفی الدین شہید کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد جنرل، کمانڈر اور اعلیٰ عہدیداران مسجد الاقصی کی بازیابی اور اپنے برادر ایمانی کی مدد، حفاظت اور ہمدردی میں شہید ہوۓ۔ مزاحمت کو قوت بخشنے کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے دی۔اگر کتب خانے میں دستیاب تاریخی، اسلامی، مذہبی، جنگ و جدل پر کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان کے اوراق میں اس قدر ہولناک و دل سوز جنگوں، قتل و غارتگری کی لرزہ خیز داستانیں ملیں گی جنھیں انسان بُھلا نہیں پائے گا۔ جنگ اگرچہ انسانی فطرت کا حصہ نہیں سمجھی جاتی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان قدیم۔
زیادہ تر جنگیں بادشاہوں، ریاستوں اور حکومتوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر شروع ہوئیں لیکن اب اس نظریے پر جنگ نہیں ہوتی۔ اب جنگیں لڑیں نہیں جاتی بلکہ جنگیں ذاتی مفاد کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کروائی جاتی ہیں۔ اپنا اسلحہ فروخت کرتے ہیں اور اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں۔ کئی ممالک مل کر کسی ملک پر قابض ہوتے ہیں اور اس ملک کے وسائل کو لوٹ تے ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ کچھ اسی طرح کی شازشیں رچی گیٔں اور چالیں چلی جا رہی ہیں۔ شیخین ہاتھ پہ ہاتھ رکھے کٹھپتلی بادشاہ بنے ہیں۔
فلسطینیوں کی جنگ "طوفان الا قصٰی" حق، عدالت، توحید، ظلم، فساد، انحراف اور کجروی کے رَو سے درست ہے۔
اسرائیل نے 70 سال سے حقوق چھین رکھی ہے، عدل و انصاف کی پامالی ہے، قبلۂ اوّل اور مسجد اقصٰی پر قابض اور جارحیت پر آمادہ ہے، ظلم، تشدد اور بربریت کی انتہا کر رکھی ہے، فساد برپا کئے ہوئے ہے، سبھی قوانین سے انحراف اور کجروی ہے اس کے علاوہ زمینی، فضائی اور بحری محاصرے ہیں، خوراک، دوائیاں اور ضروریات کے ساز و سامان پر زبردست پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اگر ان آیت مبارکہ پر تدبر و تفکر کریں "الذّین یُقاتٍلو نکم" ان سے لڑو جو تم سے جنگ کریں۔ اب دنیا کیا کہے گی کہ صہیونیوں نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں 2,00,000 معصوم فلسطینیوں کو شہید کر دیا، قیدی بنا کر ان پر مظالم، زد و کوب اور طرح آطرح کی تکالیف دیں۔ جب سب کچھ چھین لیا، ان کے ماں، باپ، بیٹے، بیٹی، بھائی، بہن، میاں اور بیوی کو قتل کیا، رہنے کا مکان چھینا، کاشتکاری کی زمین پر قابض ہوئے گویا ہر طرح سے تباہ و برباد کر دیا تو صرف جان بچی، اب انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے لیے سارا جہاں اندھا، گونگا اور بہرا ہو گیا ہے تو اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے اور بے غیرت، بے حیا، بے شرم، ذلیل، عیاش عرب حکمرانوں کو احساس دلانے کے لیے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ آور ہوکر تاریخ رقم کی، اس فقرے "ہیہات منا الذلہ" پر عمل کیا۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کی جنگ اب تیسری عالمی جنگ کا رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس جنگ میں اب تک جو ملک شامل ہو چکے ہیں ان کے نام ہیں: فلسطین، عراق، شام، لبنان، یمن، اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، اردن، ترکیہ، مصر، قطر، کینیڈا، ایران، روس، چین اور شمالی کوریا وغیرہ ہیں۔ غزہ اور لبنان میں اب تک 55,000 معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ 25,000 لا پتہ ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 90,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
دنیا اسرائیل اور فلسطین جنگ کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ 435 دن جنگ کے آغاز کو ہوا لیکن اسرائیل ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکا جیسے، زیر زمین سرنگوں کو پکڑنا، اپنے یرغمال فوجیوں کی رہائی یا غزہ پر مکمل فتح مگر ان میں سے ایک بھی ہدف عبور نہیں کر پایا۔
صیہونی افواج نے بچوں، خواتین، مکان، مسجد، اسکول، کالج، یونیورسٹی، کتب خانہ، کلیسا، اور ہسپتال پر بم اور گولے برسائے۔ اسے جنگی جیت نہیں کہتے بلکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کہا جائے گا۔ چونکہ اس جنگ میں شیطانٍ بزرگ، امریکہ بھی شامل ہے، یہ ہر ملک پر حملہ کرتا ہے اور کرتا رہا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل جنگ میں یمن کا ہمدردانہ، یگانہ اور دلیرانہ مداخلت پوری دنیا، خصوصی طور پر اسلامی ملکوں کے رہنماؤں اور وہاں کی عوام الناس کو دنیا کے سامنے رسوا کر دیا ہے۔ ایمانی و اخلاقی فریضہ تو یہ تھا کہ فلسطینیوں کی ہر طرح سے مدد کریں اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم جنگ بندی کی کوشش کرتے۔ بہر کیف، یہ آلٍ سعود، نصرانی و یہود عمل و کردار میں یکسانیت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے یمن پر آٹھ سال تک جنگ مسلط کر رکھی تھی۔ اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ غریب ملک پر خوراک، دوائیاں اور ضروریات کے ساز و سامان کی برآمدگی پر محاصرہ کر رکھا تھا۔ بھوک سے کافی تعداد میں جاں بحق ہوئے۔ لیکن پروردگار کی جود و کرم و مدد سے گزرے عرصے میں دفاعی میدان میں قابل قدر و ستائشی قوت و صلاحیت پیدا کی کہ اب امریکہ اور مغربی ممالک کو یمن کھلم کھلا چیلنج کرتا ہے کہ اگر اسرائیل ہمارے بھائی پر ظلم و ستم، بمباری، اور ضروریات خوراک اور ادویات کا محاصرہ ختم نہیں کیا تو ہم بھی بحیرہ احمر (Red Sea) سے ہر وہ جہاز جو اسرائیل کے لیے سامان لیکر جانے والا اور وہاں سے آنے والے جہازوں کو نشانہ بنائے گا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ ممالک اپنے اسلحہ کے زور پر آگے آئے، یمن کو دھمکایا اور پھر اس پر زبردست طریقے سے بمباری کی۔ امریکہ اور اس کے ساتھ دیگر ممالک یمن کی ہمت و حوصلہ پست نہ کر سکے بلکہ فلسطینیوں کی مدد کا وعدہ دہرایا۔ ان کے جہازوں پر بھی ڈرونز اور میزائلوں سے ایسے حملے کر رہے ہیں کہ دنیا آنکھ پھاڑ کر دیکھ رہی ہے کہ یمنی کے پاس خدا داد مدد ہے۔
اب شام کی بغاوت میں بشار الاسد کا کردار کی تفتیش اور تجزیے کی ضرورت ہے جو اہل اسلام سمجھ سکیں۔
گزشتہ سال سے بشار الاسد کے وہ اقدامات جس سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ مقاومتی اتحاد سے نکلنا چاہتا ہے۔ ان اقدامات کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ ان 16 نکات کا بغور مطالعہ کریں، شام کے موجودہ حالات واضح ہو جائے گا۔ مارچ 2023 میں اسد نے UAE کا دورہ کیا، مئی 2023 میں سعودی عرب کا دورہ، اکتوبر 2023 شام میں یمن حوثی دفاتر کو بند کرا دیا گیا، دسمبر 2023 شام میں IRGC کے اعلیٰ ترین کمانڈر سید رضی موسوی کو دمشق میں اسرائیل کے ہاتھوں شہادت، دسمبر 2023 کے بعد ایران اور IRGC کی سرگرمیوں پر قدغن، مئی 2024 ایک ملاقات میں سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی جانب سے سعودی/یو اے ای کے خالی وعدوں کے بارے میں خبردار کیا گیا کہ یہ وعدہ اسد کو ختم کرنے کی کوششیں ہیں، جولائی 2024 حزب اللہ کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندیاں (جبکہ حزبِ اللہ حالت جنگ میں تھی)، ستمبر 2024 اسرائیل کے ہاتھوں حزب اللہ کے کمانڈروں کی شام میں شہادتیں، 27 ستمبر 2024 شام کا دورہ کرنے یا اسد کے ساتھ بات چیت کے ایک دن بعد حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت، اکتوبر 2024 ایران کا اسد کو ادلب میں دہشت گردی کی سازش سے خبردار کرنا اور حمایت کی پیشکش کرنا لیکن اسد کا نظر انداز اور مسترد کرنا، 14 نومبر 2024 لاریجانی، آیت اللہ خامنہ ای کے مشیروں کے سربراہ نے دمشق میں اسد سے ملاقات کی تاکہ ایرانی انٹیلی جنس کی رپورٹ کے بعد دہشت گردوں کی طرف سے "آنے والے خطرے" پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اسد نے اس خطرہ کو معمولی قرار دیکر ایران کے تعاون کرنے کی پیشکش سے انکار کر دیا، 30 نومبر 2024 اسد کی فوج حلب سے پیچھے ہٹ گئی، منگل 3 دسمبر 2024 ایران نے IRGC کمانڈر جنرل جواد غفاری، جنھیں دوسرا سلیمانی کہا جاتا ہے کو شام بھیجا۔ انکی تشخیص کے مطابق اسد کی فوج مکمل ناکام ہے اور اسد کی لڑائی لڑنے کی کوئی خواہش نہیں ہے اور جمعہ 6 دسمبر 2024 ایران کے ایلچی لاریجانی جو آیت اللہ خامنہ ای کے ایڈوائزرز کے سربراہ ہیں سے اسد کا مبینہ طور پر ملاقات سے انکار ، و ہفتہ 7 دسمبر 2024: امریکہ ،اسرائیل کی طرف سے نامزد القاعدہ/داعش دہشت گرد جولانی کی قیادت میں شامی باغی شام کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہوئے اور ہفتہ 7 دسمبر 2024 دن ڈھلے روس کی مدد سے بشار الاسد شام سے فرار ہوکر ماسکو میں پہلے سے ہی پہنچ گئے اپنے خاندان کے ساتھ جا ملے اور خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔
سپاہ پاسداران کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج شام میں ہونے والے واقعات ایک تلخ سبق ہیں۔ ہم مسلمانوں کی عزت و آبرو کو تباہ ہونے سے بچانے گئے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ شام میں آگ بھڑکانے والی یہ غیر ملکی طاقتیں کیسے بھوکے بھیڑیوں کی طرح صحرا میں اکیلے ہرن کی جان پر ٹوٹ پڑیں، ہر ایک اس کے جسم کا ایک ایک ٹکڑا نوچ رہا ہے- ان صہیونیوں نے ملک کے جنوب، شمال اور مشرق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور عوام ان کے درمیان تنہائی میں ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔ سب نے دیکھا کہ شامی اس وقت تک محفوظ رہے جب تک ہم وہاں تھے کیونکہ ہم ان کی عزت کے متلاشی تھے اور ان کی سرزمین کو اپنے ساتھ ضم کرنے نہیں گئے تھے۔ آج صہیونی دمشق کے اندر کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ واقعی ناقابل برداشت ہے۔ صیہونیوں کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ انہیں اسی سرزمین میں دفن کیا جائے گا- یہ واقعات ہمارے لئے سبق ہیں اور ہمیں ثابت قدم رہنا چاہیے، جیسا کہ ہمارے عزیز رہبر انقلاب نے فرمایا کہ شام اپنے غیور اور بہادر نوجوانوں کے ہاتھوں خدا کے فضل سے آزاد ہو جائے گا- دمشق کے لوگ سمجھ گئے ہیں۔
علامہ کاشفی کا بیان ہے کہ جب کربلا میں صبح کا ابتدائی حصہ ظاہر ہو گیا تو آسمان سے آواز آئی یا خلیل اللہ ارکبی۔ اے اللہ کے بہادر سپاہیوں! تیار ہو جاؤ۔ موقع امتحان اور وقت موت آرہا ہے۔ (روضتہ الشہداء، صفحہ 312، مہیج الاحزان، صفحہ 102) اہلبیت علیھم السّلام شہید کیے گئے اور آپ علیہم السلام کے لیے مودت رکھنے والے مسلسل شہادتیں پیش کرتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ ایرانی، یمنی، لبنانی، شامی، فلسطینی و عراقی سر فہرست ہیں۔اگر اسلامی تاریخ میں سن 61 ہجری کا مطالعہ کیا جائے تو حضرت زینبؑ، بضعت مصطفیٰ لخت جگر فا طمتہ الزہراؑ، دختر شیر خدا اور نواسیٔ رحمتہ للعالمین کا بڑا سخت ترین وقت رہا ہے، اتنی فصیح و بلیغ شخصیتیں جن کا احاطہ صرف ملک شام اور آپ (س) کے روضہ اطہر کے حوالے سے چند باتیں پیش کرنا اسی مثال کے مترادف ہے کہ سمندر کو کوزہ میں ڈالنا۔
یہ حقیقت ہے کہ دختر شیر خدا توحید کی بقا کے لیے قربان ہو گئیں لیکن آج تک کوئی عالم، فاضل، ذاکر، محقق، مورخ، دانشور یا ادیب انہیں ادراک انسانی کی حد تک بھی جامع خراج تحسین پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، 1385 سال گزر چکے ہیں اور ابھی کتنا وقت درکار ہے یہ معین کرنا مشکل ہے۔
حضرت زینب (س) نے بعد شہادت سیدالشہدا جو کمال و فضائل کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے بازار شام اور دربار یزید (ملعون) میں مظاہرے کئے ان کارناموں سے عرب کے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہزادی نے یزید ابن معاویہ (لعنت اللہ) کی 38 لاکھ مربع کلومیٹر میں پھیلی حکومت کو محض دو سال نو مہینوں میں ختم کر دی۔
حضرت زینبؑ کے خطبے، کربلا کے مقصد و پیغام کی تشہیر نے مضبوط، منظم، ظالم و فاسق حکومت کو نیست و نابود کر دیا۔
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شریکتہ المقاصد بقائے دیں ہمشیرہ، حضرت زینبؑ سلام اللہ علیہا نے توحید کی چھاؤں میں، رسالت کی آغوش میں، عصمت و طہارت کی گود میں اور پانچ امامتوں کے ماحول میں زندگی گزاری۔ آپؑ کو روضہ اقدس میں نہیں بلکہ توحید میں تلاش کریں، رسالت میں ڈھونڈیں، سیدہ عالمیانؑ کی حیات مقدسہ میں تلاش کریں، مدینتہ العلم و سلونی سلونی کے فصاحت، بلاغت اور لب و لہجے میں مشاہدہ کریں، مظہر شجاعت حیدرٍ کرار ہیں، حکمت صُلحٍ حسنؑ میں دیکھیں، آپؑ کے صبر، شکر و قربانیٔ حسین علیہ السلام میں موجزن پائیں گے۔ تفسیر، تقریر، تحریر و تدریس کے میدان میں لاثانی تھیں۔ (مراقد اہل بیت درشام از سید احمد فہری، صفحہ 68)
سید الشہداء، حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کا باب معرکہ خون کے ذریعہ تلوار پر فتح حاصل کر رقم کیا اور یہ آٹھ دنوں میں ہو گیا اُس وقت آپؑ کے ہمراہ حضرت عباس علمبردار جن کی انگڑائ لینےپر لشکر یزید سمجھتی کہ حملہ ہو گیا، حضرت اکبرؑ ہم شبیہ پیمبرؐ، اور دوسرے شجاع دوست و اقرباء موجود تھے لیکن زینبؑ کو اپنی ذمہ داریاں مکمل کرنے، باب رقم ہونے اور سلسلۂ بازیابی و کامرانی میں سولہ ماہ کا طویل لمحہ انتہائی اذیت سے گزارنا پڑا۔ بہرحال، کوفہ اور شام کو فتح کر کربلا کی آبرو کی حفاظت کی۔ دراصل آپؑ کے بغیر نامکمل رہتی۔ سرکار عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس نیزے پر قرآن پڑھ رہے تھے آپ تفسیر کرتی جا رہی تھیں، پتھر کھارہی تھیں اور فنافی اللہ کی منزل سے بھی گزر رہی تھیں۔
واقعہ کربلا کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مرحلہ "تلوار کے ساتھ جہاد اور شہادت" ہے، جبکہ دوسرا مرحلہ "پیغامٍ شہادت کو عام لوگوں تک پہنچانا اور واقعہ کربلا کو تا قیامت تک کے لیے زندۂ جاوید کر دینا" ہے۔ واقعہ کربلا کے ان دو مرحلوں میں سے پہلے مرحلے کی قیادت امام حسین علیہ السلام نے کی جبکہ دوسرے مرحلے کی قیادت سیدہ زینبؑ نے کی:
حدیثٍ عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسینٔ رقم کرد و دیگرے زینبؑ
سیدہ زینبؑ کے خطبات بازارٍ کوفہ، دربارٍ ابن زیاد (لعنت اللہ) اور دربارٍ یزید (لعنت اللہ) میں ہیں۔
آپؑ نے اپنے خطبہ میں فریب خوردہ لوگوں کو مخاطب کرکے کربلا کے اصل حقائق سے لوگوں کو آگاہ کرایا کہ یزید اور اُس کے سپاہیوں نے کربلا میں ایک ایسی عظیم شخصیت کو تین دن کا بھوکا پیاسہ شہید کیا ہے جو رسول اکرمؐ کا فرزند، ہدایت کا چراغ تھا لیکن آج پھر 61 ہجری کے بعد نام نہاد مسلمان یزید ابن معاویہ لعنت اللہ کے نام سے حلف لے رہے ہیں۔ ان کی مدد یا دفع کرنے والے مسلمانوں کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت کہاں، ان کو تو ابتر رہنا ہے۔
خطبہ کا تیسرا، اہم اور آخری مقام یزید ملعون کا سجا ہوا دربار ہے۔ آپؑ نے دندان شکن خطبہ کے ذریعہ یزید کے ساتھ تمام بنی اُمیہ کو ذلّت و رسوائی کے ایسے غلیظ ڈبّے میں پھینک دیا کہ اب قیامت تک بنی اُمیہ ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے۔
دختر فاتح خیبر و خندق نے دربار یزید نیست و نابود کیا۔ یزید کے تخت کو ایسا غرق کیا کہ یزید کی نشانی ہی ختم کر دی اور جو یزیدی اس کی نشانی تلاش کرتا رہا وہ بھی گمراہی کی تاریکی میں غرق ہوتا رہا:
چراغ را کہ ایزد بر فروزد
کسے گرپف کند، ریشش بسوزد
علم کے ذریعہ زبان کا استعمال کر زینبؑ نے اپنے آپ کو پہچنوایا، اہلبیت علیہم السلام کی پہچان کروائی، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی شناخت کروائی اور اللہ کا نمائندہ ہونے کی خصوصیات بتائیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آپؑ توحید، رسالت و امامت کی سرپرست، مشن حسینؑ کی نگراں، اور کربلا کی ترجمان اور سالار قافلہ ہیں، فضائل و مصائب محمدؐ اور آلٍ محمدؐ بیان کیا۔ اسیری کی حالت میں بھی فریب خوردہ کو مقصدٍ حسین علیہ السلام سے آگاہ کیا۔ ظلم و زیادتی کے خلاف مظلوم کو آواز بلند کرنے کا سبق سکھایا۔ باطل کے خلاف پرچمٍ حق بلند کرنے کا بہترین طریقہ و سلیقہ سکھایا۔
ملک شام میں دیکھا جارہا ہے کہ یزید اور معاویہ کے ماننے والے، بغض علی علیہ السلام رکھنے والے، من کنت مولا بھلانے والے، باغ فدک غصب کرنے والے، نواسہ رسول کا گلا نعرہ تکبیر میں کاٹنے والوں کی ٹولی کے منظر نامے آشکار ہو چکے ہیں۔ یہ دور دشمن اسلام، دشمن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بے نقاب ہونے کا ہے کیونکہ ظہور یوسف زہرا کی علامتیں نمایاں ہو رہی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی جمھوریہ ایران سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایسے واقعات و حالات کے قریب آ رہے ہیں جو کمزور ایمان اور محدود بیداری والے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ جو لوگ اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے وہ نقصان اٹھائیں گے۔ ہمیں بیداری، سمجھ اور بصیرت کی اعلیٰ سطح حاصل کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ