حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی نے حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیھا) کی شہادت کے موقع پر منعقدہ مجلس عزاء میں فرمایا کہ عزاداری اور ذکر مصیبت اہم ہے، لیکن ان کے ساتھ ساتھ حضرات معصومین علیہم السلام کے فضائل اور ان کی تعلیمات کو بھی بیان کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے فرمایا کہ دنیاوی حادثات جیسے دوسری جنگ عظیم، جس میں کروڑوں افراد مارے گئے، وقت گزرنے کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں، لیکن معنوی واقعات جیسے شہادت حضرت فاطمہ زہراء (س) اور واقعہ کربلا وقت کے ساتھ مزید روشن اور نمایاں ہوتے ہیں۔ یہی حقیقت مجالس عزاء کے تسلسل سے ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے اربعین کے موقع پر لاکھوں زائرین کی شرکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے پہلے اربعین پر صرف جابر بن عبداللہ انصاری اور عطیہ شریک تھے، لیکن آج یہ تعداد 20 ملین تک پہنچ چکی ہے۔
آیت اللہ مکارم شیرازی نے حضرت فاطمہ زہراء (س) کی سادگی کو قابل تقلید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نکاح کی تقریب نہایت سادگی سے منعقد ہوئی، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خرما اور روغن سے مہمانوں کی خاطر داری کی، جب کہ آج کل شادیوں میں بے تحاشہ اخراجات کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے عبادتِ حضرت زہراء (س) کو بے مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جب وہ عبادت کے لیے محراب میں کھڑی ہوتیں تو ان کا نور آسمان تک پہنچتا اور فرشتے اس سے مستفید ہوتے۔
مزید برآں، خطبہ فدکیہ کو ان کی شجاعت کا مظہر قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ خطبہ ہزار سال بعد بھی اپنی معنویت اور گہرائی میں بے مثال ہے۔
آخر میں، انہوں نے صبر و استقامت کو حضرت زہراء (س) کی زندگی کی نمایاں خصوصیت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنے مصائب حتیٰ کہ اپنی تکلیفیں بھی امیر المؤمنین علیہ السلام سے بیان نہ کرتی تھیں۔ یہ صبر اس وقت آشکار ہوا جب امیر المؤمنین علیہ السلام نے غسل کے دوران ان کے جسم اطہر پر ضرب کے نشانات دیکھے۔