جمعرات 19 دسمبر 2024 - 16:44
خدا صابرین کے ساتھ ہے

حوزہ/ اگر انسان قرآن کریم کے 114 سوروں کی تلاوت کرے، غور وفکر، تدبر و تفکر سے ترجمہ و تفاسیر کا مطالعہ کرے تو 6666 آیات میں کسی مقام پر خدا یہ نہیں فرما رہا ہے کہ وہ نمازی، روزہ دار، حاجی، حافظ، قاضی، قاری، عالم، ذاکر، شاعر، مصنف، صحافی، پروفیسر یا عابد کے ساتھ ہے۔ بے شک ارشاد باری تعالیٰ ہو رہا ہے:"و اصبرو ان اللہ مع الصبرین" میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔ (سورہ انفال ،آیت مبارکہ نمبر 46)

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| اگر انسان قرآن کریم کے 114 سوروں کی تلاوت کرے، غور وفکر، تدبر و تفکر سے ترجمہ و تفاسیر کا مطالعہ کرے تو 6666 آیات میں کسی مقام پر خدا یہ نہیں فرما رہا ہے کہ وہ نمازی، روزہ دار، حاجی، حافظ، قاضی، قاری، عالم، ذاکر، شاعر، مصنف، صحافی، پروفیسر یا عابد کے ساتھ ہے۔ بے شک ارشاد باری تعالیٰ ہو رہا ہے:"و اصبرو ان اللہ مع الصبرین" میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔ (سورہ انفال ،آیت مبارکہ نمبر 46)

مندرجہ بالا آیت کے علاوہ معروف سورہ الفجر کی آیات نمبر 30-27) کے ترجمے کو پڑھیں " اے نفس مطمئن اپنے رب کی طرف اس حال میں چل کہ تو خوش ہو اور پسندیدہ قرار پاۓ۔ پس! میرے بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں چلا جا۔" اس آیات کا حقیقی و عملی نمونہ 10 محرم الحرام، 61 ہجری میدان کربلا ہے جہاں نواسہ رسول سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام تین دن کے بھوکے پیاسے، 71 لاشے اٹھاۓ، یزید ابن معاویہ لعنت اللہ کا لشکر گلے پر کند خنجر چلا رہا ہے اور حسین علیہ السلام سجدے میں صبر و شکر بجا لانے ہیں۔

صبر کے معنی ہیں کسی خوشی، مصیبت، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھنا اور خلاف شریعت کاموں سے بچنا۔ لفظ "صبر" کے لغوی معنی رکنے، ٹھہرنے، یا باز رہنے کے ہیں اور نفس کو اس چیز پر روکنا (یعنی ڈٹ جانا) جس پر رکنے (ڈٹے رہنے کا) کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو صبر کہلاتا ہے۔

عربی لغت میں صبر کا معنی برداشت سے کام لینے، خود کو کسی بات سے روکنے اور باز رکھنے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔

صبر کا مقام بہت بلند ہے اور اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے اور عہدہ و منصب سے بھی نوازا ہے۔ اللہ عزوجل قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے واصبرو ان اللہ مع الصبرین (سورۃ انفال، آیت مبارکہ نمبر 46) "اور صبر کرو بیشک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" پروردگار سورۃ العنکبوت کی آیات مبارکہ نمبر 58-57 صبر کرنے والوں سے وعدہ کر رہا ہے "جن لوگوں نے صبر کیا ہے انھیں ہم جنت کے جھروکوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ہمیشہ انھیں میں رہیں گے کہ یہ ان عمل کرنے والوں کا بہترین اجر ہے۔" سورۃ لقمان کی آیت نمبر 17 میں صابروں کی تعریف کرتے ہوئے رب ذوالجلال فرماتا ہے "صبر کرو کہ یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔" سورۃ السجدہ، آیت نمبر 24 کی تلاوت کریں تو مشاہدہ کرتے ہیں "انھوں (انبیاء) نے صبر کیا ہے تو خدا نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے۔" سورۃ العصر میں نورالسموات والارض میں زمانہ کی قسم کھا کر فرما رہا ہے کہ وہ روابط و تعلقات خسارہ کی بنیاد ہیں جن کی اساس صبر و حق کی وصیت و نصیحت پر قائم نہیں ہے۔

پاک رب العزت نے حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا اور صبر و مدارات کرنے کا حکم دیا۔ پس رسول اللہ نے صبر کیا۔ دشمنان اسلام نے آپؐ کو عیب لگائے۔ دل تنگ ہوئے تو خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کی، ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا آپ کا دل تنگ بناتا ہے، اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو سجدہ کرنے والوں میں بنو۔ رسولؐ کو پھر جھٹلایا اور تہمت تراشی کی، حضرتؐ غمگین ہوئے تو خالق کائنات نے آیت نازل کی، ہم جانتے ہیں اے حبیبؐ کبریا ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا میرے محبوبؐ کو رنجیدہ کرتا ہے لیکن اس تکذیب پر انھوں نے صبر کیا۔ ہماری نصرت ان کے پاس آئی، پس رسولؐ ﷲ نے صبر کواپنے اوپر لازم قرار دیا۔

کوئی مصیبت آتی ہے تو اس پر صبر کرنا چاہیے۔ اگر مصائب ہجوم کرتے ہیں تو اس پر بھی اس کا دل شکستہ نہیں ہوتا۔ قصص الانبیاء کرام کی حیات طیبہ ہمارے سامنے ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو غلام بننے سے حیرت پسندی سے نہیں روکا وہ مغلوب ہوئے، قید کئے گئے لیکن وہ اپنے موقف سے نہ ہٹے، قدم میں جنبش تک نہ آئ یعنی ثابت قدم رہے۔ کنوئیں کی تاریکی و وحشت نے انھیں افسردہ و مایوس نہ کر سکا یہاں تک کہ پاک پروردگار نے ان پر احسان کیا اور نافرمان و سرکش کو ان کا غلام بنا دیا جو پہلے ان کا مالک تھا۔ رب العالمین نے ان کو اپنا رسول بنا دیا۔ اس طرح صبر کے بعد بہتری، انعام، اعجاز، اکرام و افتخار نصیب ہوئی۔ لہٰذا ہمہ وقت صبر کرنا چاہیے۔ جو اپنے نفس کے لیے صبر کو لازم قرار دے وہ خدا سے اجر پائے گا۔

ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا "جب مومن قبر میں داخل ہوتا ہے تو نماز اس کے داہنی طرف ہوتی ہے اور زکات بائیں جانب اور نیکی اس پر سایہ کئے ہوتی ہے اور صبر گوشہ گیر ہوتا ہے جب منکر و نکیر آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں تو صبر نماز، زکات و نیکی سے کہتا ہے اگر تم اس کو نجات نہیں دلا سکتے تو ہٹ جاؤ میں اس کے لیے کافی ہوں۔ (حضرت ثقتہ الاسلام علامہ فہامہ مولانا الشیخ بن محمد یعقوب کلینی علیہ الرحمتہ، اصول کافی، جلد 3، صفحہ 339-338)

رحمت العالمینؐ نے فرمایا: صبر کی تین صورتیں ہیں۔ مصیبت پر صبر، اطاعت پر صبر اور معصیت پر صبر۔ جس نے مصیبت پر مکمل صبر کیا، اللہ اس کے تین سو درجے معین کرتا ہے جس کے ایک درجے کو دوسرے سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے اور جس نے اطاعت پر صبر کیا، خدا اس کے لیے چھ سو درجے ایسے لکھتا ہے جس کے درجے کو دوسرے سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین کے آخری حصہ کو عرش سے ہے۔ جس نے معصیت پر صبر کیا اس کے لئے نو سو درجے ایسے لکھتا ہے جن میں ایک فاصلہ دوسرے سے اتنا ہے جتنا آخر حصہ زمین سے انتہائے عرش تک ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے ابو عبداللہ سے فرمایا جس نے مصائب زمانہ پر صبر نہ کیا زمانہ اسے عاجز کر دے گا۔ ابو حمزہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا جو مومن کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور اس پر صبر کرے تو اس خو ہزار شہید کا ثواب ملتا ہے۔

واقعہ کربلا کے چشم دید گواہ، حضرت زین العابدینؑ کے لخت جگر، امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے پدر بزرگوار حضرت علی بن الحسین کے رخصت وقت شہادت مجھے اپنے سینے سے لگا کر تلقین کی، بیٹا میں تم کو وصیت کرتا ہوں جو مجھے وصیت میرے بابا نے مجھ سے کی ہے کہ بیٹا امر حق میں صبر کرنا اگر وہ کتنا ہی تلخ ہو۔

صبر جمیل کیا ہے؟ اس کی وضاحت بہرحال قارئین کرام کے لیے تحریر کرنا ضروری ہے۔ صبر جمیل یعنی سب سے بہترین صبر یہ یے کہ مصیبت میں مبتلا شخص کو کوئی نہ پہچان سکے، اس کی پیشانی کسی پر ظاہر نہ ہو۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر ابن عبداللہ کو بتایا کہ صبر جمیل وہ ہے جس میں لوگوں کی طرف شکایت نہ ہو۔ (اصول کافی، جلد 3، باب الصبر)

کیا راقم الحروف لکھ دے کہ شیعہ زیادہ صبر کرنے والے ہیں تو سُن کر شاید ہی کوئی اس بات پر یقین کرے۔ لیکن پڑھ کر یقین کامل ہونا چاہیے چاہے وہ عمل میں نہ ہوں۔ ابو عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا "ہم صبر کرنے والے ہیں اور ہمارے شیعہ ہم سے زیادہ صبر کرنے والے ہیں۔ میں نے کہا، میں آپ پر فدا ہوں، شیعہ آپ سے زیادہ صابر کیسے ہو گئے۔ فرمایا ہم صبر کرتے ہیں اس صورت میں کہ حقیقت امر جانتے ہیں اور شیعہ صبر کرتے ہیں باوجود لا علمی کے۔ (اصول کافی، جلد 3، صفحہ 344)

سید الشہداء اور شریکت الحسین صبر کے جوہر دکھا گئے۔ اے حسین تو نے لاشۂ اکبر اٹھایا صبر کیا، ششماہ لعل کو خود دفن کیا صبر کیا، عباس باوفا کے لاش کے ٹکڑے چنے صبر کیا، شیر خدا کی بیٹی زینبؑ نے بھائی حلقوم پر چھڑی چلتے دیکھا صبر کیا، شام غریباں دیکھی صبر کیا، بازار شام میں بے ردا گُھمایا گیا صبر کیا گویا صبر کو صبر بخشی!

آج بھی پوری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ رہبر معظم اسلامی جمھوریہ ایران آیت اللّٰہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ تمام طرح معاشی پابندیاں اور جنگ اور ان سب میں نام نہاد مسلم عرب حکمران بھی ملوث ہیں لیکن واہ ان کے صبر و استقامت کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ وہ کم۔ آپ لوگوں نے دیکھا طوفان الاقصٰی میں کامیابی، کامرانی، شہرت اور مقبولیت سے مسلم حکمران نام نہاد خلیفہ طیب اردوغان وغیرہ بغض و حسد میں صیہونیوں کو بنو امیہ اور بنو عباسیہ کی دارالحکومت، شام سو تحفہ میں پیش کردیا۔ تمام اہلسنت والجماعت شرمندہ ہیں۔ اے پروردگار! ہم لوگوں کو سید الشہداءؑ اور زینب (س) کے صدقے میں صابر بنا دے اور ہم لوگ صبر کے نمونہ قرار پایٔں اور پروردگار تیرا ساتھ نصیب ہو!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .