۱۴ آذر ۱۴۰۳ |۲ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 4, 2024
العتبة العلوية المقدسة تُطلق المسابقة الفاطميّة الثالثة

حوزہ/ حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر کافی تعداد میں مضامین اور کتابیں لکھی جاچکی ہیں، خصوصاً عربی و فارسی میں بزرگان دین کی کافی تالیفات موجود ہیں۔ بندہ فقیر نے بھی حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی گزشتہ مجالسِ ایام فاطمیہ اور رواں ایام فاطمیہ کے دوران دریا میں عقیدت کا قطرہ ڈالنے کی دل و جان سے کوشش کی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین

حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر کافی تعداد میں مضامین اور کتابیں لکھی جاچکی ہیں، خصوصاً عربی و فارسی میں بزرگان دین کی کافی تالیفات موجود ہیں۔ بندہ فقیر نے بھی حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی گزشتہ مجالسِ ایام فاطمیہ اور رواں ایام فاطمیہ کے دوران دریا میں عقیدت کا قطرہ ڈالنے کی دل و جان سے کوشش کی ہے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری علم و عقل بضعت منی کی ذات اقدس کی حقیقی معرفت سے عاجز اور قلم اس عظیم ہستی کے حالات و صفات کو تحریر کرنے سے قاصر ہے۔ واقعی میں یہ اظہر من الشمس ہے کہ ادیبوں، دانشوروں، خطیبوں اور مقررین کی زبانیں ان کے خصائص و فضائل کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتیں۔ ایسی عظیم خاتون کی عظمت، فضائل و کمالات کس طرح قلمبند و بیان کیے جا سکتے ہیں جو نبوت و امامت کے یکجا ہونے کے مقام، رسالت و ولایت کا سنگم اور انسانی صورت میں حوراء و انسیہ ہو۔

وہ ذات جو مرکز عصمت و طہارت، جس کے احترام میں کائنات کا رسول اٹھ جائے، جس کا ہر ایک ایک پہلو ہمارے لیے نمونہ عمل اور جس ہستی کے لیے وقت کا امام یوں ارشاد فرمائے: "رسول کی بیٹی میرے لیے اسوۂ حسنہ ہین۔" (الغیبۃ طوسی صفحہ 286؛ الاحتجاج، جلد 2, صفحہ 467, بحار الانوار، جلد 53 صفحہ 180)

تاجدار انبیاء کی لخت جگر دختر، امام المتقین، شیر خدا فاتح خیبر کی شریک حیات، نوجوانان جنت کا سردار، حسنین کریمین کی مادر گرامی اور جو خود جنت کی سردار براۓ خواتین کے بارے میں مجھ جیسا ادنیٰ سا طالب علم اور قلم کا سپاہی کیا لکھ سکتا ہے۔ بہر کیف حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں قرآن کریم کی آیات کو اپنے علم میں اضافہ، ذہنی تقویت، قلبی سکون و شادمانی اور قارئین کی دلچسپی کے لیے تحریر کیا جارہا ہے۔ یہ بھی مقصد کے تحت کوشش ہے کہ زیادہ تفصیل سے بیان نہ کر فقط مختصر و مفید چیزوں کو ذکر کر کے اہل مطالعہ و علم دوست کے لیے ایک زینہ ہموار کریں تاکہ اہل ذوق کتابوں کا مطالعہ و تحقیق کر حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے متعلق معلومات حاصل کر سکیں۔

راقم الحروف ام الکتاب، کتاب ربانی کے چند آیات کو بیان کرنے کا خواہشمند ہے جو مقام و منزلت حضرت سیدہ فاطمہ (س) کو بیان کرتا ہو۔

ہمیں جن آیات مبارکہ پر ذہن عالیہ مرکوز کرنا ہے وہ ہیں آیات مودت، مباہلہ، تطہیر، ذی القربیٰ، مرج البحرین، ایثار، شجرہ طیبہ، صراط مستقیم، تعلیم اسماء، صبر اور لیلتہ القدر۔

آیت مودت میں ارشاد باری تعالیٰ ہو رہا ہے " قل لا ۔۔۔فی القربیٰ" کہہ دو میں تم سے صلہ نہیں مانگتا یہ کہ میرے اقرباء سے محبت کرو۔ اس آیت کے ذیل میں بزرگان اہل سنت نے بھی تواتر نقل کیا ہے کہ جب اس آیت کا نزول ہوا تو رسول اکرم سے عرض کیا: من قرابتک؟ آپ کے قرابت دار ہیں کون ہیں جن کی اطاعت واجب ہے۔ آپ نے فرمایا علی علیہ السّلام، فاطمہ س، حسن و حسین علیہم السلام۔ (تفسیر ابن عربی جلد ٢, صفحہ ٣٢١؛ تفسیر روح البیان مجلد ٨ صفحہ ٣١١؛ روح المعانی جلد ١٣ صفحہ ٣١)

آیت تطہیر " انما یرید۔۔۔۔۔تطہیرا" اس آیت نزول کی شان یہ ہے کہ جب پنجتن پاک چادر کے نیچے جمع ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا اے پروردگار! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ خدایا: تو ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو ایسے پاکیزہ رکھ جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ اس میں ذریعہ تعارف بزم کساء فاطمہ الزہرا س ہیں۔ یہ فاطمہ س کے بابا ہیں، یہ فاطمہ س کے شوہر ہیں اور یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بیٹے ہیں۔ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا مرکز محور تعارف قرار پائیں۔ یہ ہے عظمت و فضیلت، مقام و منزلت فاطمہ سلام اللہ علیہا!

آیت ذی القربیٰ (سورہ احزاب آیت ٣٣): اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے لکھا ہے کہ رسول خدا (ص) نے خود اپنے شریک کار رسالت، حضرت فاطمہ (س) کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا۔ لیکن افسوس کہ رسول (ص) کی رحلت کے بعد فدک آپ (ص) کی لخت جگر سے ملکیت 'فدک'چھین لیا۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ علمائے کرام و ذاکرین عظام اپنے خطاب میں آیت مرج البحرین کا تفصیل سے ذکر نہیں کرتے "مرج البحرین یلتقیان" (سورہ رحمٰن آیت ١٩) اس نے دو سمندروں کو جاری کیا کہ آپس میں مل جائیں۔ ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد علی۴ اور فاطمہ۴ ہیں۔ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (ص) نے فرمایا کہ خدا فرماتا ہے "میں خدا ہوں میں نے دو دریا رواں کیے ایک علی۴ جو علم کا سمندر ہیں اور دوسرا فاطمہ۴ جو نبوت کا سمندر ہیں۔ (مناقب آل ابی طالب جلد ٣, صفحہ ٣١٩؛ بحار الانوار جلد ٢٣, صفحہ ٩٩)

آیت ایثار (سورہ حشر آیت ٩) اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو تر جیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں۔ گھر میں کچھ نہیں لیکن مہمان بنایا۔ خود فاقہ کیا مگر ساںٔل کو روٹی دے دی۔آیت شجرہ طیبہ پر غور کریں "الم تر کیف۔۔۔۔۔فی السماء (سورہ ابراھیم آیت 24) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللّٰہ نے کیسے مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کے مانند ہے جس کی جڑیں مضبوط گڑی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ رسول اکرم (ص) نے فرمایا میں درخت ہوں اور فاطمہ اس کی فرح ہیں اور علی۴ اس کی جڑ ہیں اور حسن و حسین اس کے پھل ہیں۔ (کوثر جلد 5, صفحہ 611)

آیت صراط مستقیم "اھدنا الصراط المستقیم" (سورہ حمد آیت 6) اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت علی۴ اور ان کی زوجہ حضرت فاطمہ۴ اور ان کی اولاد (امام حسن۴ و امام حسین۴ تا آخر مہدی۴) کو اپنی حجت لوگوں پر قرار دیا اور یہ ہستیاں میری امت میں خدا کے دروازے ہیں جس نے ان سے ہدایت حاصل کی وہ سیدھے راستے کی طرف ہدایت پاگیا۔

آیت صبر (سورہ مومنون آیت 111) پر تدبر و تفکر کریں "آج میں نے ان کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہیں۔" یعنی صبر علی۴ و فاطمہ (س) و حسن۴ و حسین۴ ہیں جو انہوں نے دنیا میں طاعات الہٰی، بھوک، فقر پر کیا اور اسی طرح جو مصیبتیں اس دنیا میں ان پر آئیں، اس پر صبر کیا بے شک یہ لوگ روز قیامت کامیاب و کامران ہیں۔

آیت تعلیم اسماء پر غور و فکر کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے ذریعہ آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ سورہ بقرہ آیت 37 کا مطالعہ کریں جس میں ارشاد ہو رہا ہے، ابن عباس سے نقل ہو رہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے سیکھا جن کی وجہ سے ان کی توبہ قبول ہویٔ تو آپ نے فرمایا: "وہ کلمات محمد، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔ جن کہ حضرت آدم نے اپنی زبان پر جاری کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمایا (در المنثور جلد ١, صفحہ 40)

بہت معروف آیت ہے، آیت مباہلہ "فمن حاجک۔۔۔۔۔۔عل الکاذبین" (سورہ آل عمران آیت 61) نجران کے پادری نے پنجتن پاک کے نورانی چہروں کو دیکھ کر اپنی شکست مان لی۔

اب آخری آیت لیلتہ القدر"انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" (سورہ قدر آیت 1). امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اللیلتہ فاطمتہ ہیں القدر اللّٰہ ہے۔ اس مقام پر لیلتہ سے مراد فاطمہ (س) ہیں اور قدر سے مراد اللّٰہ ہے اور دوسری جگہ پر امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "جس نے فاطمہ (س) کی اس طرح معرفت حاصل کی جو معرفت کا حق ہے تو بے شک اس نے لیلتہ القدر کو پالیا۔ (قلب مصطفیٰ صفحہ 15؛ فاطمہ کوثر رسول صفحہ 102))

الحمدللہ! ان آیات کے مطالعہ سے حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے مقام کو اچھی طرح سمجھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ (س) کی منزلت کا احاطہ کرنا ناممکن کیونکہ ہم جیسے لوگوں کے علم میں وہ وسعت کہاں؟ اب انہیں آیات پر اکتفا کر لینا باعث تقویت و نجات قرار پائے! یقیناً معرفت حضرت سیدہ فاطمہ (س) کا حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر لوگ فاطمہ (س) کی معرفت حاصل کر لیتے تو لیلتہ القدر کو درک کر لیتے۔ یہ عیاں ہے کہ نہ فاطمہ (س) کی معرفت حاصل کی اور نہ ہی لیلتہ القدر کو پا سکے۔ اسی لیے رسول خدا صل اللّٰہ علیہ والہ و سلم کی رحلت کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے دروازے کو آگ لگادی۔ پسلی کی ہڈیاں ٹوٹیں، حضرت محسن شہید ہونے، جنازہ کو کاندھا دینے والے نہ ملے اور رات کے اندھیرے میں تدفین ہوئی۔ آپ (س) کے چاہنے والوں کو رونے کو یہی کافی بڑی بات ہے کہ زہراء سلام اللہ علیہا کھڑی دربار میں حق ما نگ رہی ہے، ملعون نے تحریر نبی (ص) پھاڑ کر کہا، یہ کون ضعیفہ ہے جو حق مانگ رہی ہے۔

ان باتوں پر توجہ مرکوز کریں اور عمل میں لائیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی جمھوریہ ایران آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ کے اہل منبر اور آپ کی مجالس کارساز ہوں، یعنی اس طرح کی مجالس ہوں کہ اگر انسان تین سال تک آپ کی مجالس میں شرکت کرے تو تین سال بعد وہ آدمی نہ ہو، بلکہ وہ ایک آگاہ آشنا اور معلومات رکھنے والا انسان ہو کہ منبر کو انسان ساز اور فکر ساز ہونا چاہیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .