۲۶ آذر ۱۴۰۳ |۱۴ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 16, 2024
News ID: 405460
16 دسمبر 2024 - 09:30
حضرت ام البنین

حوزہ/ان کا نام نامی فاطمہ تھا، وہ ان بہادر اور جانباز لڑکیوں میں سے تھیں، جنھیں تلوار چلانا اور نیزوں سے کھیلنا بہت اچھی طرح آتا تھا، وہ جنگ وجہاد میں اپنی قوم کے جوانوں کے ہم پلہ تھیں۔

انتخاب و ترجمہ: سید حمید الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| ان کا نام نامی فاطمہ تھا، وہ ان بہادر اور جانباز لڑکیوں میں سے تھیں، جنھیں تلوار چلانا اور نیزوں سے کھیلنا بہت اچھی طرح آتا تھا، وہ جنگ وجہاد میں اپنی قوم کے جوانوں کے ہم پلہ تھیں۔

اپنے شیر دل بیٹے جناب ابو الفضل العباس علیہ السلام اور ان کے بہادر بھائیوں کی تیراندازی اور شمشیر زنی کی پہلی مربیہ خود جناب ام البنین سلام اللہ علیہا تھیں۔

ایسا نہیں تھا کہ صرف آپ ہی شجاع و بہادر تھیں، بلکہ آپ کا پورا قبیلہ شجاعت، ہمت اور جواں مردی میں زباں زد خاص وعام تھا؛ لیکن آپ کی جو خصوصیت آپ کو سب سے منفرد اور ممتاز بناتی تھی وہ آپ کی پردہ نشینی بے مثال حیا,پاکدامنی اور آپ کا خاص نسوانی حسن وجمال تھا جس نے آپ کی شیرانہ جرآت و ہمت اور بہادری کے ساتھ مل کر آپ کو ایک بے مثال اور آئیڈیل خاتون بنا دیا تھا۔

بہت کم لوگ ہی آپ کا رشتہ مانگنے کی ہمت کر پا رہے تھے اور وہ بھی اس زمانے کے اشراف اور نمایاں صفات وکمالات کے حامل لیکن انھیں سوائے نہ کے اور کچھ سننے کو نہیں ملتا تھا، جب آپ سے دریافت کیا جاتا کہ آخر آپ شادی کیوں نہیں کرتیں تو آپ جواب دیتیں کہ ان رشتہ دینے والوں میں کوئی جواں مرد نہیں ہے جس دن کوئی جواں مرد رشتہ لیکر آئے گا ہاں کردوں گی۔ معاویہ آپ سے شادی کرنے کا بہت تمنائی تھا اور بار بار رشتہ بھیجتا تھا لیکن ہر بار سوائے رد اور انکار کے کچھ ہاتھ نہ لگتا اور رشتہ لے جانے والے منہ کی کھا کر ذلت کے ساتھ خالی ہاتھ واپس آجاتے۔

یہاں تک کہ ایک رات آپ نے ایک خواب دیکھا۔

اس کی صبح جناب «عقیل»، مولائے کائنات کے بھائی اور آپ کے قاصد جو عرب کے سب سے بڑے نسب شناس تھے حضرت علی بن ابیطالب (علیه السلام)، کا رشتہ لیکر پہونچے، یہ دیکھ کر جناب فاطمه کلابیہ کے پاکیزہ لبوں پر بے ساختہ ایک معنی خیز مسکراہٹ آگئی آپ سمجھ گئیں کہ آپ کا خواب سچا تھا۔

آپ خوشی اور مسرت کی بناپر شدت شوق میں گریہ کرنے لگیں آپ کی زبان پر یہ فقرے تھے: خداکا شکر!میں کسی جوانمرد سے شادی کرنا چاہتی تھی جبکہ خدا نے میرے لئے جوانمردوں کے سیدو سردار کو بھیج دیا۔ آپ نے اپنے ماں باپ کی مرضی اور خوشی کو بھی اپنی اس مسرت میں شامل کرکے فورا اس پاکیزہ رشتہ کے لئے "ہاں "کردی اور اس طرح آپ جانشین رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کی شریک حیات بن گئیں۔

آپ کی سب سے نمایاں خصوصیت آپ کا ادب تھا۔آپ موقع و محل دیکھ کر گفتگو فرماتی تھیں۔آپ اپنے مرتبہ اور اس کی حدود سے پوری طرح آگاہ تھیں۔ آپ کے کردار میں کسی طرح کی غلطی خطا اور گناہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

جس دن آپ نے جناب امیر المؤمنین حضرت علی (علیہ السلام ) کے گھر میں قدم رکھا آپ کے بچوں سے مخاطب ہوکر پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا: میں اس گھر میں آپ کی ماں بن کر نہیں آئی ہوں۔

میں کہاں اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد کہاں ؟

میں تمہاری کنیزی کرنے کے لئے آئی ہوں اور آپ نے حقیقت میں دکھا دیا کہ آپ سچ کہ رہی تھیں۔

اس دن امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام بیمار تھے اپ سب سے پہلے ان کے سرھانے پہونچیں اور انتہائی محبت کے ساتھ ان کی احوال پرسی کی اور بے پناہ محبت کے ساتھ تیمارداری کے فرائض انجام دئیے آپ نے شادی کے بعد کے اپنے شوہر کے ساتھ مشترک زندگی کے کئی دن جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بچوں کی تیمار داری میں گزار دئیے۔

آپ اپنی اس خدمت کو آپ ہمیشہ اپنے لئے باعث فخر سمجھتی تھیں۔

کہتے ہیں کہ حب تک حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بچے چھوٹے رہے آپ کے یہاں کوئ اولاد نہیں ہوئی کہ کہیں اپنے بچوں کی پرورش میں مشغول ہونے کی بناء پر کہیں ان بچوں کی دیکھ ریکھ میں کوتاہی نہ ہو جائے۔

آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے بھی یہ درخواست کی تھی کہ وہ آپ کو فاطمہ کے نام سے نہ بلایا کریں کہ اس طرح کہیں اپنی ماں کو یاد کرکے بچوں کا دل نہ ٹوٹے۔

جب جناب ام البنین کے چاند جناب عباس (علیه السلام) کی ولادت ہوئی تو آپ نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بچوں کو جمع کیا، انھیں اپنے نزدیک بٹھایا اپنے ایک دن کے نومولود کو ہمراہ لیا کھڑی ہوئیں، جناب عباس کو دونوں بچوں کے سروں کا صدقہ اتارا تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ ام البنین کے بچے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بچوں کی بلائیں ٹالنے کا ذریعہ اور ان کا صدقہ ہیں۔

آپ ہمیشہ اور ہر جگہ اپنے بچوں کو یہ سمجھاتی رہتی تھی کہ ہر گز اپنے کو امام حسن اور امام حسین (علیهما السلام)کا بھائی اور ان کے برابر نہ سمجھیں، ان کی تخلیق ممتاز منفرد اور نورانی ہے وہ آسمانی شخصیات ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں»

اسی تربیت کا نتیجہ تھا جو سرزمین کربلا پر جناب عباس نے اپنی عظیم فداکاری کی شکل میں پیش کیا!

آپ وہی خاتون تھیں جنھوں نے کربلا کی طرف روانگی کے وقت اپنے چارو بچوں کو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ روانہ فرما دیا اس کے بعد تمام قافلہ والوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: میرے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کی آنکھ اور ان کا دل اوران کے تابع فرمان بن کے رہنا اور ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی حمایت سے غفلت نہ برتنا۔

جناب ام البنین، اور حضرت علی (ع)کے یہاں چار درخشندہ ستاروں کی ولادت ہوئی جن کے اسمائے گرامی اس طرح تھے: عباس، عبدالله، جعفر، عثمان

یہ تمام کے تمام بہادر کربلا کے میدان میں شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے۔

ان پر خداوند عالم کی رحمت اور اس کا درود وسلام ہو!

تبصرہ ارسال

You are replying to: .