پیر 16 دسمبر 2024 - 17:29
اردوغان کی دعویدار پالیسی اور عثمانی خلافت کا احیاء: حقیقت یا سیاسی شطرنج؟

حوزہ/ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے شام کے کچھ شہروں حلب، حمص، حما وغیرہ پر دعویٰ کرنا ایک سیاسی بیان سے زیادہ دور رس مضمرات رکھنے والا معاملہ ہے۔ یہ بیان، جسے ترکی کی عثمانی سلطنت کی یادوں کو تازہ کرنے کے ایک حربے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خطے میں نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

تحریر: مولانا امداد علی گھلو

حوزہ نیوز ایجنسی| ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے شام کے کچھ شہروں حلب، حمص، حما وغیرہ پر دعویٰ کرنا ایک سیاسی بیان سے زیادہ دور رس مضمرات رکھنے والا معاملہ ہے۔ یہ بیان، جسے ترکی کی عثمانی سلطنت کی یادوں کو تازہ کرنے کے ایک حربے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خطے میں نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

ایران کے معروف دانشور و سابق رکن اسمبلی علی مطہری کی یہ تلخ مگر برمحل یاد دہانی کہ "فلسطین بھی تو عثمانی سلطنت کا حصہ تھا، پھر اس پر دعویٰ کیوں نہیں؟" اس ساری بحث کا رخ اسرائیل اور ترکی کے ممکنہ سیاسی تعلقات کی جانب موڑ دیتی ہے۔

اردوغان نے اپنی سیاست میں کئی بار عثمانی خلافت کے احیا کی بات کی ہے، جسے ترکی کے نیشنلزم اور اسلامی شناخت کے احیا کے ساتھ جوڑا جاتا ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترکی کا یہ نعرہ ایک سیاسی مفاد کے سوا کچھ نہیں، جسے مختلف مواقع پر خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ عثمانی سلطنت کے دور میں شام کے متعدد علاقے ترکی کے زیر نگین تھے، مگر ان علاقوں پر دعویٰ کرنا بیسویں صدی کے جغرافیائی حقائق اور عالمی معاہدات کے سراسر منافی ہے۔

سیاسی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ اردوغان کا یہ دعویٰ محض ایک داخلی سیاسی حربہ ہے، تاکہ ترکی کی معیشتی مشکلات اور بین الاقوامی تنہائی کے درمیان قوم پرستی کے جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔

ایرانی دانشور علی مطہری نے اردوغان کے بیان پر نہایت زیرک سوال اٹھایا ہے کہ اگر اردوغان عثمانی سلطنت کی تاریخ کو بنیاد بنا کر شام کے شہروں پر دعویٰ کر رہے ہیں، تو وہ فلسطین پر دعویٰ کیوں نہیں کرتے؟ فلسطین بھی عثمانی سلطنت کے عہد میں اس کا حصہ تھا، لیکن آج ترکی اس مسئلے پر اسرائیل سے براہِ راست ٹکراؤ سے گریزاں نظر آتا ہے۔

یہ سوال اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ موجودہ تعلقات اس کے دیگر دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تجارتی، سفارتی اور حتیٰ کہ بعض خفیہ تعلقات ایک کھلا راز ہیں، جس پر ترکی اکثر دوہرا معیار اختیار کرتا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر اردوغان کی تقریریں جذباتی ہوتی ہیں، مگر عملی اقدامات محض علامتی رہ جاتے ہیں۔

ترکی کی جانب سے شام کے کچھ علاقوں پر دعویٰ محض تاریخی نہیں بلکہ زمینی حقائق پر مبنی سیاسی اقدام بھی ہے۔ شام میں ترکی کی مداخلت اس بات کی علامت ہے کہ اردوغان اپنے جغرافیائی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی کر چکے ہیں؛ لیکن اس کے جواب میں خطے میں موجود مقاومت کے حامی ترکی کے ان اقدامات کو "جارحیت" قرار دیتے ہیں۔ اردوغان کے "عثمانی خلافت" کے خواب کو حقیقت کا روپ دینا نہ صرف شام کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

ایران اور ترکی کے درمیان ہمیشہ سے ایک نظریاتی فرق رہا ہے۔ ایران نے اپنی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی حمایت کو ترجیح دی ہے، جبکہ ترکی نے عملی طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

علی مطہری کا یہ سوال اردوغان کی پالیسی پر ایک منطقی چوٹ ہے۔ اگر عثمانی خلافت کی تاریخی حدود کی بات کی جائے تو پھر ترکی کو فلسطین پر بھی اسی شد و مد سے دعویٰ کرنا چاہیے؛ لیکن چونکہ اسرائیل کے ساتھ ترکی کے سیاسی و معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں، اس لیے اردوغان نے اس "تاریخی دعوے" کو نظر انداز کر دیا۔

اردوغان کی عثمانی خلافت کے احیا کی باتیں سننے میں تو پُرکشش لگتی ہیں، مگر اس کی عملی حیثیت سیاسی نعروں سے زیادہ کچھ نہیں۔ شام پر دعویٰ کرنا محض ترکی کی علاقائی بالادستی کے خواب کی جھلک ہے، جبکہ فلسطین جیسے حقیقی مسائل پر ان کا عملی رویہ ان کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے۔

علی مطہری جیسے دانشوروں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اردوغان کی پالیسی کی اصلیت کو واضح کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ عثمانی خلافت کے نعرے کے پیچھے چھپے مقاصد کچھ اور ہیں۔ اگر واقعی یہ دعوے اصولی بنیادوں پر کیے جاتے تو فلسطین جیسے اہم مسئلے پر ترکی کی پالیسی یکسر مختلف ہوتی۔

اردوغان کی یہ اسٹریٹیجی ایک سیاسی شطرنج ہے، جس میں وہ داخلی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس شطرنج کی بساط پر ترکی کا یہ "عثمانی خواب" باقی رہ سکے گا یا حقیقت کی کسوٹی پر بکھر جائے گا؟

یہ سوال آنے والے وقت میں ترکی کی سیاست اور خطے میں طاقت کے توازن کا فیصلہ کرے گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .