تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی سربلندی اور ان کی عظمت کا راستہ مزاحمت، استقامت اور ظلم کے خلاف قیام سے گزرتا ہے؛ لیکن جب ایک قوم یا اس کے رہنما اس راستے سے منہ موڑ لیں، تو نتیجہ ذلت، پچھتاوا اور بدترین انجام کی صورت میں نکلتا ہے۔ شام کی حالیہ صورتحال، خصوصاً بشار الاسد کی حکومت کے زوال، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ طاقت، وسائل اور فوجی قوّت کے باوجود جب قیادت خوف یا مصلحت کا شکار ہو جائے، تو نہ صرف قیادت، بلکہ قوم بھی تاریخ کے اندھے کنویں میں دھکیل دی جاتی ہے۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کو اندرونی بغاوت اور بیرونی سازشوں کا سامنا تھا، تو یہ ایک فیصلہ کُن لمحہ تھا۔ شام کے پاس وسائل تھے، جنگی طیارے، ہیلی کاپٹرز اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج تھی؛ لیکن ان وسائل کو اسرائیل جیسی قابض طاقت کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے، انہیں گوداموں اور بیس کیمپس میں ضائع کر دیا گیا۔ سقوط اسد کے ساتھ ہی اسرائیلی فضائی حملوں نے شام کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے اور اربوں ڈالرز کی مالیت کے اسلحے، جو کبھی ایک مضبوط دفاع کی علامت تھے، بغیر کسی مزاحمتی فائدے کے برباد ہو گئے۔
تصور کریں اگر بشار الاسد نے اپنی فوجی قوّت کو اسرائیل کے خلاف استعمال کیا ہوتا۔ شاید کچھ جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز تباہ ہو جاتے؛ لیکن تل ابیب اور حیفا جیسے اہم اسرائیلی شہروں پر بمباری کر کے، نہ صرف شام کے عوام بلکہ عرب دنیا کے دیگر ممالک میں بھی بشار الاسد کو ایک ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا۔ یہ اقدام شام کو ایک نئی حیثیت دے سکتا تھا؛ لیکن اسد کی خاموشی اور غیر فعالیت نے انہیں تاریخ کے اوراق میں ایک شکست خوردہ اور مجبور رہنما کے طور پر درج کر دیا۔
بشار الاسد کی ناکامی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی حکومت کی کمزوری نے دیگر علاقائی قوّتوں، جیسے ترکی اور تحریر الشام جیسی تنظیموں کو شام کے خلاف کھل کر سازش کرنے اور حملے کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ایک طاقتور قیادت جو مزاحمت کی علامت ہو، دشمنوں کے حوصلے پست کرتی ہے؛ لیکن جب قیادت اپنے عوام کے تحفظ اور دفاع کی ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہو جائے، تو دشمن کو اپنی مرضی سے کھیلنے کا میدان مل جاتا ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سلامتی، عزت اور دوام ان قوموں کو حاصل ہوتا ہے جو جرأت اور مزاحمت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ حزب اللہ، حماس اور فلسطینی قیادت جیسے سید حسن نصر اللہ، یحییٰ سنوار اور اسماعیل ہنیہ کی مثالیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ مزاحمت کرنے والے رہنما اور قومیں ہمیشہ سربلند رہتی ہیں، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ اس کے برعکس، وہ قومیں اور رہنما جو جدو جہد سے گریز کرتے ہیں، ہمیشہ ذلت و پستی کا شکار ہوتے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی (ع) کا فرمان ہے:
"خداوند جنگ سے فرار کرنے والوں کے جسموں کو ذلت اور بدنامی کا لباس پہناتا ہے۔"
یہ قول شام کے موجودہ حالات پر منطبق ہوتا ہے، جہاں بشار الاسد کی حکومت اور قوم کو مزاحمت نہ کرنے کی قیمت چکانی پڑی۔ اگر بشار الاسد نے اپنے وسائل کو دشمن کے خلاف بروئے کار لایا ہوتا، تو آج ان کی تاریخ ایک ہیرو اور شجاع رہنما کے طور پر لکھی جاتی۔
یہ کالم ان رہنماؤں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جارحیت کے خلاف خاموشی اور دشمن سے گریز انہیں تحفظ دے سکتا ہے۔ تاریخ اور موجودہ حالات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مزاحمت ہی سلامتی کی ضمانت ہے۔ اگر شام کے وسائل اور جنگی طاقت کو اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جاتا، تو نہ صرف شام کے عوام کو یہ یقین دلایا جا سکتا تھا کہ ان کی قیادت ان کے مفادات کی محافظ ہے بلکہ دشمن کے حوصلے بھی خاک میں مل جاتے۔
شام کے بحران اور بشار الاسد کے انجام سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک رہنما کے فیصلے نہ صرف اس کی حکومت بلکہ پوری قوم کے مستقبل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فلسطین، لبنان اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے ثابت کیا ہے کہ دشمن کے خلاف ڈٹ جانے والا ہمیشہ سرخرو ہوتا ہے، چاہے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؛ لیکن جو قیادت خوف اور مصلحت کا شکار ہو، وہ نہ صرف اپنا وقار کھو دیتی ہے بلکہ اپنی قوم کو بھی ذلت کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔
یہی وقت ہے کہ مزاحمت کے فلسفے کو اپنایا جائے اور دشمن کے خلاف صف آراء ہو کر، عزت اور آزادی کی نئی تاریخ رقم کی جائے۔ کیونکہ جو قوم مزاحمت کرتی ہے، وہی بقا کی مستحق ہوتی ہے اور مقاومت ہی بقا کی ضمانت ہے۔
شام کی موجودہ صورتحال نہ صرف اس ملک کے لیے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک عبرتناک سبق ہے۔ یہ صورتحال ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ اگر دشمن کو وقت پر روکنے کے لیے جرأتمندانہ اقدامات نہ کیے جائیں، تو دشمن نہ صرف آپ کی سرزمین بلکہ آپ کی شناخت اور وقار کو بھی پامال کر دیتا ہے۔ یہی اصول عالمی سطح پر ان تمام قوموں اور قیادتوں کے لیے بھی درست ہے جو دشمن کی نیّت کو بھانپنے کے باوجود مصلحت یا خوف کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔
آج جب ہم شام کے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کیا بشار الاسد کی حکومت یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ اسرائیل اور دیگر دشمن طاقتیں صرف شام کو کمزور کرنے تک محدود نہیں رہیں گی؟ ان کا اصل ہدف نہ صرف شام بلکہ پوری مقاومتی تحریک اور مشرق وسطیٰ میں موجود طاقت کے توازن میں گڑ بڑ پیدا کرنا تھا۔
شام کے بحران نے اس بات کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ہمسائیگی میں موجود قوّتیں نہ صرف اپنی خارجہ پالیسی بلکہ اپنے عملی اقدامات میں بھی مکمل طور پر امریکہ اور اسرائیل کے منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ شام کے حالات ہمیں یہ باور کرواتے ہیں کہ اندرونی اتحاد اور مقاومت کا جذبہ ہی کسی قوم کو عالمی سیاست میں مضبوط اور مستحکم رکھ سکتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ ان قیادتوں کو، جو اب بھی مصلحت اور خوف کے سائے میں فیصلے کر رہی ہیں، یہ سوچنا ہوگا کہ عزت اور بقا کا راستہ صرف اور صرف مقاومت اور دشمن کے خلاف ڈٹ جانے میں ہے۔ بصورت دیگر، شام کا انجام ان کے لیے آئینہ ہے۔