تحریر : مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| 16 دسمبر کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا زخم ہے، جو کبھی مندمل نہیں ہو سکا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دہشت گردی نے ہماری بنیادوں کو کیسے ہلا کر رکھ دیا، ہمارے بچوں کا مستقبل چھین لیا اور ان معصوم چہروں کو ہمیشہ کے لیے مٹی کے سپرد کر دیا، جنہوں نے ابھی زندگی کو جاننا شروع ہی کیا تھا۔ 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول (APS) پر حملہ محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ دہشت گردوں کی اس سوچ کا مظہر تھا جو معصوم جانوں کو اپنی گھناؤنی جنگ کا نشانہ بناتی ہے۔ اس حملے میں شہید ہونے والے 132 بچوں اور اساتذہ نے وہ قربانی دی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی۔
دسمبر کا مہینہ اور خاص طور پر یہ تاریخ، ایک ایسا لمحہ ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف کیا کھویا اور کیا پایا؛ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک کے کچھ گوشے آج بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ان مظالم کا سلسلہ ختم ہونے کے بجائے نئے انداز میں بعض مقامات پر پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔
حال ہی میں پارا چنار کے مظلوم عوام پر ہونے والے حملے نے ایک مرتبہ پھر ہماری قومی غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہی دہشت، وہی بربریت اور وہی اندھی گولیاں جنہوں نے پشاور میں بچوں کو نشانہ بنایا تھا، آج پارا چنار کے نہتے شہریوں پر برسائی جا رہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ آواز جو پورے ملک میں 2014ء کے سانحے پر بلند ہوئی تھی، پارا چنار کے حوالے سے مدھم محسوس ہو رہی ہے۔
پارا چنار کا یہ مسافر قافلہ، جو کانوائے کی شکل میں روانہ ہوا تھا، سفاک گولیوں کی زد میں آ گیا۔ اس حملے نے کئی گھرانے اجاڑ دیے اور جو زندہ ہیں وہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ سڑکیں بند ہیں، راستے غیر محفوظ ہیں اور متاثرین ادویات، غذائی قلت اور دیگر بنیادی مسائل میں مبتلا ہیں۔ یہ صورت حال کسی انسانی المیے سے کم نہیں۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر پشاور کے معصوم بچے دہشت گردوں کے نشانے پر آ سکتے ہیں تو پارا چنار کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کوتاہی کیوں ہو رہی ہے؟ کیا یہ شہری پاکستانی نہیں؟ کیا ان کا خون سستا ہے؟ ان سوالات کے جواب ہمیں بحیثیت قوم تلاش کرنا ہوں گے۔
دہشت گردی کا کوئی مذہب ہے نہ کوئی مسلک، یہ ایک مشترکہ دشمن ہے جو ہمیں تقسیم کرنے کے درپے ہے۔ 16 دسمبر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہر مظلوم کی آواز کو یکساں اہمیت نہ دی جائے۔ پشاور کے شہید بچے اور پارا چنار کے مظلوم عوام ایک ہی داستان کے کردار ہیں۔ یہ داستان ان مظلوموں کی ہے جنہیں بار بار اپنے حق کے لیے قربانی دینا پڑ رہی ہے۔
ریاست کا اوّلین فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کاروائی کرے۔ پارا چنار کے عوام کے مسائل، غذائی قلت، ادویات کی عدم دستیابی اور راستوں کی بندش جیسے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل محض انتظامی غفلت نہیں بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
16 دسمبر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف کس عزم کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ آج اسی عزم کو دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پارا چنار کے مظلوم عوام کی آواز کو دبنے نہ دیا جائے۔ ان کی مشکلات کو نظر انداز کرنا، دہشت گردوں کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔
ہمیں پارا چنار جیسے علاقوں میں نہ صرف امن قائم کرنا ہوگا بلکہ وہاں کے عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ ان کے مسائل کو قومی اور عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا تاکہ ان کے حق میں عملی اقدامات کیے جائیں۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور حکومت کو مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے دہشت گردی کے ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔
16 دسمبر کے شہداء کی قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر جان قیمتی ہے، چاہے وہ پشاور کے بچے ہوں یا پارا چنار کے بے گناہ شہری۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور دشمن کی اس چال کو ناکام بنائیں جو ہمیں تقسیم کرنے کے درپے ہے۔
پشاور کے شہید بچے اور پارا چنار کے مظلوم عوام کی پُکار ہمیں دہشت گردی کے خلاف یکجہتی اور عزم کا پیغام دیتی ہے۔ یہ وہ پُکار ہے جسے نظر انداز کرنا انسانیت کے خلاف جرم ہوگا۔
آپ کا تبصرہ