حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکز احیاء آثار برصغیر کے مدیر کا کہنا تھا کہ آج کے طالب علم کے لیے منبر و محراب کی خدمت کے ساتھ ساتھ قلم اٹھانا بھی ناگزیر ہے تاکہ وہ دین کی علمی خدمت کو پائیدار بنا سکے۔
صرف تقریر کافی نہیں، قلم اٹھانا ہو گا
حجت الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان کا کہنا تھا کہ بہت سے طالب علم صرف خطابت کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں جبکہ اصل اور دیرپا خدمت تحریر کے ذریعے ہوتی ہے۔ "مجھے اکثر کہا جاتا ہے کہ جب آپ منبر پر مجلس پڑھتے ہیں تو کتاب لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن میں کہتا ہوں کہ تحریر کی بقا ہمیشہ کے لیے ہے۔ اگر ہم وسیع تر خدمت چاہتے ہیں تو ہمیں قلم سے رشتہ جوڑنا ہو گا۔"

پرانی کتب کو زندہ کریں، یہی اصل تحقیق ہے
انہوں نے واضح کیا کہ تحقیق صرف نئے موضوعات پر کام کرنے کا نام نہیں بلکہ پرانی علمی اور شخصی کتب کو ازسرنو تحقیق و تدوین کے ذریعے زندہ کرنا بھی ایک عظیم خدمت ہے۔ "ایک مجہول کتاب کو اگر آپ حاشیہ لگا کر، حوالہ جات کے ساتھ، وضاحتوں کے ذریعے دوبارہ قابل مطالعہ بنا دیں تو یہ کام بذاتِ خود علم کی خدمت ہے۔ اس کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ کتاب جو علمی حلقوں میں گمنام تھی، دوبارہ متعارف ہوگی۔"
مرکز احیاء آثار برصغیر کے مدیر نے اس ادارہ کے احیاء کتن کے سلسلہ میں زحمات و خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: علمائے برّصغیر کی علمی خدمات کو زندہ کر کے دنیا والوں کے سامنے لانا ادارے کے بنیادی اہداف میں سے ایک اہم ہدف ہے۔ ہمارے بزرگ علماء و ادباء کی سینکڑوں ایسی کتابیں طاق نسیان میں مقفل ہیں جو اب تک چھپ نہ سکیں۔ اُن کے قلمی نسخے کتب خانوں میں دیمک اور خاک کی نذر ہو رہے ہیں ۔ ان کتابوں کو دوباره منظر عام پر لانا کوئی آسان عمل نہیں بلکہ لمبی جدوجہدکے بعد ایک ڈھنگ کی کتاب مرتّب ہو پاتی ہے۔ ایک کتاب کی تدوین میں بعض اوقات سالوں صرف ہو جاتے ہیں تب وہ کتاب جا کر مرتب ہوتی اور شائع ہونے کے قابل ہوتی ہے۔

قاضی نوراللہ شوستری: علم، تقویٰ اور دیانت کا نمونہ
انہوں نے معروف عالم دین قاضی شهید سید نورالله شوشتری (شہید ثالث) کا خصوصی ذکر کیا اور ان کی زندگی کو آج کے طالب علم کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔ "انہوں نے اپنی زندگی میں 150 کے قریب کتب تصنیف کیں اور ہر علمی شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تحریر، تقویٰ، قضاوت میں دیانت داری، اور ہر لمحہ علم میں غرق ہونا، ان تمام باتوں نے انہیں ایک عظیم علمی شخصیت بنا دیا۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ قاضی شوستری اکبر بادشاہ کے دور میں ہر طرح کی سفارش، رشوت اور دباؤ سے بالاتر ہو کر فیصلے دیتے۔ "لوگ ان کے مخالف ضرور ہوئے لیکن ان کی علمی صداقت اور دیانت پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔"

تحقیق کی راہ میں عشق، استقامت اور رہنمائی درکار ہے
حجت الاسلام طاہر اعوان نے کہا کہ تحقیق کا عمل بظاہر پیچیدہ لگتا ہے لیکن اگر طالب علم میں جذبہ ہو تو کتاب خود اس کی رہنما بن جاتی ہے۔ "استاد آپ کو راستہ دکھاتا ہے لیکن اگر آپ کے اندر علمی جنون ہو تو آپ خود بخود راستہ پا لیتے ہیں۔ پرانی کتابیں صرف مطالعہ کی نہیں بلکہ تحقیق کی بنیاد بھی بن سکتی ہیں۔"
علمی تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی نشستوں میں ہر طالب علم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ خود تحقیق کا آغاز کریں، کوئی چھوٹا یا بڑا عنوان چنیں اور پرانے متون کو دوبارہ زندہ کریں۔ "اس عمل میں طالب علم کا علم بھی بڑھے گا، شخصیت بھی نکھرے گی اور علمی خزانہ بھی محفوظ ہو گا۔"









آپ کا تبصرہ