حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ سبطین سبزواری نے توہین صحابہ بل کی نامنظوری کے متعلق یکم ربیع الاول کے احتجاج کےحوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: یہ پرامن احتجاج اپنے حقوق کے دفاع کے لئے ہے۔ ظاہر ہے جب ہمیں ہمارے اپنے حقوق نہیں دئے جا رہے تو ہمیں ایک پر امن راستہ اختیار کر کے اور احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق لینا ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ دعوت نامی عمومی ہے۔ پوری قوم کے علماء، خطبا، ذاکرین، پرنسپل، مدیران بلاتخصیص و تخفیف پوری قوم شامل ہے۔
علامہ سبطین سبزواری نے کہا: یہ مسئلہ قومی، ملی اور مذہبی شعار و وقار کا ہے اس میں ایسا نہیں کہ کوئی آئے یا نا آئے۔ یہ مدارس، مساجد، تنظیموں، ملنگوں، ماتمی سنگتوں، موالیان، علماء، خطباء و واعظین، ذاکرین سمیت تمام شیعان حیدر کرار کا احتجاج ہے۔
قوموں پہ وقت آتے ہیں سب جان ومال کی قربانی کیلئے تیار رہیں۔ گورنمنٹ کچھ نہیں کرے گی۔ ہم سب کو اپنی تیاری کر کے جانا ہے۔ اس سلسلے میں قائدین کی میٹنگ اور صلاح و مشورہ وغیرہ جاری ہیں۔ سوشل میڈیا کے پروپیگنڈہ پر توجہ نہ دیں۔انہوں نے کہا: ہم نے سیاسی انداز اپنایا اس ملک میں چاہتے ہیں کہ سب کے ساتھ مل کر چلیں۔ کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جس نے ہماری پیٹھ میں چھرا نہ گھونپا ہو۔ ہمیشہ ہمارے ساتھ سوتیلی ماں اور دو نمبر کے شہری جیسا سلوک کیا گیا۔
پاکستان کے بنانے والے ہم ہیں۔ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ اس ملک میں ہمیں نظر انداز کر کے بنوامیہ کا سلسلہ قائم کیا جائے گا۔ شیعہ اس ملک کا قابل قدر حصہ ہیں۔76 سال سے پاکستان میں جو کھیل کھیلا گیا اور 1400سال سے سے جو ہو رہا ہے سب پر واضح ہے۔ شعور بڑھے گا کامیابی ہو گی جو لوگ سینٹ میں ہیں، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ہیں وہ شیعیت کی حفاظت کریں، علی بن یقطین کا کردار ادا کریں۔ہم ایم پی ایز، ایم این ایز تک آواز پہنچا رہے ہیں اور شیعوں سے کہہ رہے ہیں۔ آپ اپنے حلقوں میں آواز پہنچائیں تاکہ احساس ہو کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ہماری کیا ذمہ داری ہے۔
علامہ سبطین سبزواری نے مزید کہا: ستم ظریفی ہے اتنا بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے ہمارے بنیادی اور آئینی حقوق چھینے جا رہے ہیں بالخصوص مذہبی حقوق کو چھینا جا رہا ہے لیکن حکمرانوں کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی۔ہم ان سے حقوق لیں گے بہرحال سب تشریف لائیں اگر کوئی نہیں آتا تو پھر بھی ہم حسن ظن رکھتے ہیں۔
قوم اتحاد و اتفاق اور محبت کی طرف بڑھے۔ یہ قومی و ملی مسئلہ ہے۔ آپس میں علمی و نظریاتی اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن شیعیت کے مقاصد کیلئے کوئی اختلاف نہیں۔ اندرونی، بیرونی و عالمی قوتیں تشیع کی مخالف ہیں۔ کیونکہ شیعیت ہی اسلام کا اصل نورانی چہرہ ہے۔ جو دشمن کو برداشت نہیں۔