حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر جناب حجت الاسلام والمسلمین علامہ عارف حسین واحدی کی گفتگو کا حصہ اول قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
حوزہ: ہم حوزہ نیوز کی ٹیم کی جانب سے آپ کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ یہاں تشریف لائے۔ براہ کرم سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنا تعارف کرا دیں۔
علامہ عارف حسین واحدی: میں بھی حوزہ نیوز کی ٹیم کا شکرگزار ہوں اور میں سمجھتا ہوں خبر گزاری کا یہ کام عالم اسلام اور تشیع کی بہت بڑی خدمت ہے۔ خداوند متعال آپ سب کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔
میرا بنیادی تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے ہے۔ حوزہ علمیہ میں جس وقت آیا تو مخزن العلوم الجعفریہ ملتان میں فاضل عربی کیا، بزرگان کے حضور تھا اور وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر میں سیدھا مشہد آیا۔ حوزہ علمیہ مشہد میں داخلہ لیا اور خوش قسمتی تھی کہ انہی دنوں میں دانشگاہ علوم اسلامی رضوی شرع ہو رہی تھی۔ تو وہاں میں نے تحصیلات کا اغاز کیا اور ادھر میں نے جہاں خارج اصول مکمل کیا، خارج فقہ بھی 10 سال پڑھا اور ساتھ ساتھ میں نے علوم قرآن میں تخصص کیا اور حوزہ علمیہ میں تحصیلات کے دوران مسلسل پاکستان تبلیغات کے لیے جاتا تھا اور پھر ہم نے دیکھا کہ بلوچستان کے تشیع میں بہت زیادہ مظلومیت ہے، محرومیت ہے۔ لہذا حوزہ کو خیر آباد کہہ کر بلوچستان گئے اور وہاں چند سال خدمت انجام دی، بہت بڑا مدرسہ بنایا اور ارادہ یہ تھا کہ ساری زندگی بلوچستان میں وہاں کے لوگوں کی خدمت میں گزاریں گے اور ساتھ ساتھ جہاں تشیع کی خدمت تھی، وہاں ہماری اپنی ایک ذہنیت حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار سے متاثر ہو کر وحدت بین شیعہ و سنی؛ ہمیشہ ہر جگہ ہم نے یہ کام کیا ہے۔ ہم نے بلوچستان میں بھی بہت محنت کی ہے۔ اب تک تمام مسالک کے علماء کے ساتھ رابطے ہیں ہیں اور اس کے بعد جو پاکستان میں فرقہ واریت ہے اس میں ہمارے اپنے علاقے میں ایک واقعہ ہوا جس میں ہمارے والد صاحب بھی شہید ہو گئے۔ اس کے بعد مجبورا ہمیں بلوچستان کو چھوڑ کے اپنے علاقے میں موجود دینی درسگاہ "جامعہ جعفریہ" جانا پڑا۔ اس مدرسہ کی مدیریت سنبھالی اور 14 سال وہاں رہے۔
اس کے بعد چونکہ ہمارا ایک تنظیمی تعلق بھی تھا، شیعہ علماء کونسل پاکستان جو علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب کی قیادت میں چل رہی تھی تو مسلسل مختلف مسئولیتیں اور عہدے میرے پاس رہے لیکن 2012 میلادی میں، میں وہاں مرکزی سیکریٹری جنرل انتخاب ہو گیا، میرے لئے یہ بڑا اعزاز تھا لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ جو مدارس بنائے تھے یا جو سلسلہ تدریس تھا یا تحقیق تھا، اس کو چھوڑ کر مجھے تنظیمی کام اور سیاسی کاموں کی طرف آنا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے 2012ء سے لے کر مسلسل 9 سال تک میں سیکریٹری جنرل رہا اور اس کے بعد سے اب تک مرکزی نائب صدر کے عنوان سے قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب کے ساتھ مسلسل خدمات انجام دے رہا ہوں۔
سیاسی میدان میں، مذہبی میدان میں، تشیع کے حقوق کے حوالے سے اور جو ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے اتحاد وحدت کی فضا ہے۔ اس وقت شیعہ علماء کونسل پاکستان کا بھی مرکزی نائب صدر ہوں اور ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا بھی مرکزی نائب صدر ہوں۔ اس کے علاوہ میں تین سال اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بھی رہا ہوں اور وہاں بھی الحمدللہ علمی تحقیقی کام انجام دئَے۔ اس کے علاوہ جو ملی یکجہتی کونسل کے جو مختلف کمیشنز ہیں، ان میں ایک علمی تحقیقی کمیشن ہے میں اس کا بھی ممبر رہا اور اس کے علاوہ جو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے حوالے سے کمیشن ہے اس کا میں چیئرمین رہا۔
حوزہ: ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قیام کے مقاصد، اتحاد و وحدت اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کے مقابلہ میں کردار اور مستقبل کا لائحہ عمل بیان فرمائیں۔
علامہ عارف حسین واحدی: بہت اچھا سوال ہے۔ دیکھیں اس وقت پوری دنیا میں سامراجی قوتوں کی ہمیشہ سے یہ سازش ہے کہ جہاں انقلاب اسلامی کی طرف سے حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ اور رہبر معظم کی طرف سے پوری دنیا میں ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد وحدت کی دعوت دی جاتی ہے، اسی طرح دشمنان اسلام، سامراجی قوتیں ان سب کی کوشش ہوتی ہے مسلمانوں کو ہمیشہ لڑاتے رہیں، انہیں تقسیم کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمان آپس میں متحد ہوئے تو امت مضبوط ہوگی، مسلمان مضبوط ہوں گے اور اگر ان کے آپس میں اختلاف ہوئے تو وہی جوان کا پرانا اصول ہے "ڈیوائڈاینڈ رول" تو اگر اس طرح ہوا تو مسلمان ہمیشہ کمزور رہیں گے اور ہمارا تسلط اور ہمارا غلبہ مسلمان ممالک پر رہے گا۔ ان کے یہ اہداف ہیں، اس پہ وہ ظاہر ہے بہت بڑا سرمایہ بھی خرچ کر رہے ہیں، ان کے ایجنٹ جو ہیں وہ بھی کام کر رہے ہیں مسالک کو آپس میں لڑانے کے لیے۔ لیکن پاکستان کی فضا کو اگر دیکھیں تو ہم نے حضرت امام رحمۃ اللہ اور انقلاب اسلامی سے رہنمائی لیتے ہوئے پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل کا قیام بہت بڑی کوشش ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے بلکہ دنیا میں شاید واحد ملک ہے جو "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کے نام پر دنیا کے نقشے پہ ابھرا ا اور اس کے قیام بہت زیادہ مسلمان شہید ہوئے، بہت زیادہ قربانیاں ہوئیں، لوگ دربدر ہوئے، لوگوں کے ٹکڑے کر دیے گئے لیکن لوگوں کا وہ جذبہ قابل دید تھا۔ تاریخ موجود ہے۔ محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اور مصور پاکستان جناب علامہ ڈاکٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو سلام اور جتنے شہدا ہیں سب کو سلام۔ لیکن اس ملک کو ایک بڑی سازش کے ساتھ چونکہ وہ ملک سامراجی قوتوں کو پسند نہیں تھا اور پھر جس وقت وہی ملک ایٹمی طاقت بن گیا تو ایٹمی طاقت بننے کے بعد تو ان کے لیے قابل قبول ہی نہیں تھا کہ یہ پاکستان مضبوط رہے اور مستحکم رہے۔ انہوں نے کوشش کی کہ اس ملک کو مستحکم نہ ہونے دیں اور مستقل بنیادوں پر اور آزاد ہو کر نہ رہنے دیں۔ ان کا طریقہ یہی تھا کہ سب سے بڑا حربہ یہی ہےکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا جائے، شیعہ سنی جنگ اور پھر مختلف مسالک کے اندر جو جنگ اور فرقہ واریت کو ہوا دینا اور پھر میں یہ کہتا ہوں کہ الحمدللہ پاکستان کی عوام ہمیشہ آپس میں بھائی بھائی ہیں، ان کے رہن سہن کو دیکھیں تو یہ نہیں ہے کہ شیعہ علاقے جدا ہیں اور سنی جدا ہیں، نہیں؛ تمام پاکستان میں تقریبا ہر جگہ جہاں شیعہ آباد ہیں وہاں سنی بھی آباد ہیں، مختلف مسالک آباد ہیں لیکن ان کی کوشش تھی کہ ان کو لڑا دیں۔ جب مسلمان آپس میں خود نہ لڑے تو مخصوص فرقہ وارانہ عناصر اور وہ جو ان کے ایجنٹ تھے ان کے ذریعہ انہوں نے پاکستان میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی کوشش کی اور وہ اس کا نتیجہ دہشتگردی میں ہوا۔ مساجد پہ حملے ہوئے، امام بارگاہوں پہ حملے ہوئے، مختلف مجالس اور محافل پہ حملے ہوئے حتی عید میلاد النبی ص کے جلوسوں پہ شدت پسندوں نے حملے کیے۔ سینکڑوں ہزاروں بے گناہ افراد اس میں شہید ہوئے۔ پھر جو ہر مسلک کے مثبت فکر کے حامل اور دردِ دل رکھنے والے علماء تھے ان کے دل میں ہمیشہ یہ درد رہتا تھا کہ کوئی نہ کوئی حل نکالیں تاکہ دشمنانِ اسلام کی یہ سازش ناکام ہو اور ہم اکٹھے ہو کر آگے بڑھیں تو اسی سلسلہ میں 1995ء میں تمام مسالک کے علماء مل کر بیٹھے۔ ان میں، میں خراج تحسین پیش کروں گا اہل سنت کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ، اس کے علاوہ علامہ سید ساجد نقوی صاحب جو ملت تشیع کے قائد ہیں؛ خداوند انہیں سلامت رکھے، طولِ عمر دے، اس کے علاوہ مولانا سمیع الحق صاحب مرحوم رحمۃ اللہ علیہ، مولانا فضل الرحمن صاحب، پروفیسر ساجد میر صاحب اور ایک بڑا نام تھا جن کے رگ و پے میں اتحاد و وحدت دوڑتی تھی، ان کے خون میں بھی وہ قاضی حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو دنیا سے چلے گئے ہمارا بڑا نقصان ہو گیا۔ یہ چھ رہنما مل کر بیٹھے تاکہ اس کا کوئی حل سوچیں کہ اس فرقہ واریت کے آگے بند کیسے باندھا جا سکتا ہے؟ اس وقت 1995ء میں اسلام آباد میں یہ میٹنگ ہوئی، مختلف تجاویز آئیں، اس میں سب سے محکم تجویز یہ تھی کہ ایک فورم بنایا جائے جو سیاسی نقطہ نظر تو رکھتا ہو لیکن انتخاباتی نہ ہو کیونکہ اکثر جو انتخاباتی فورم ہوتے ہیں ان میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ تو ایسا فورم ہو جو مذہبی ہو، مذہبی ہم اہنگی اتحاد وحدت قائم کرنے کے لیے ہو سیاسی نقطہ نظر ہو تاکہ حکومتیں اگر کوئی اس طرح کی بات کریں کہ امت جس سے تقسیم ہو تو اس کے آگے بند باندھ سکیں، سیاسی حالات سے بھی آشنائی رکھنی چاہیے۔ انہوں نے پھر یہ آپس میں سوچا کہ "ملی یکجہتی کونسل" البتہ اس وقت بھی مختلف نام سامنے آئے تاہم علماء و بزرگان نےکہا کہ تمام قوم کو متحد کرنے کے لیے سب سے بہتر نام جو ہے وہ ہے "ملی یکجہتی کونسل پاکستان"۔ لہذا اس نام پر یہ فورم تشکیل دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ جونہی اسلام آباد میں اس فورم کا اعلان ہوا ہے، پریس کانفرنس ہوئی اور مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا تو جس وقت یہ خبر پاکستان میں نشر ہوئی تو پاکستان کے عوام میں ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ شکر ہے اب کوئی ایسا فورم بنا ہے جس سے تمام مسالک کے اختلافات ختم ہوں گے اور وہ جو عناصر غلط استفادہ کر رہے تھے وہ ناکام و نامراد ہوں گے۔
اس کے بعد اللہ کا شکر ہے کہ اس کے بعد سے لے کر 2002ء تک "ملی یکجہتی کونسل" کا یہ فورم مسلسل چلتا رہا اور بین الاقوامی اسلامی تحریکیں جو ہیں ان سب کے ساتھ خواہ وہ مصر میں ہیں، خواہ افغانستان میں ہیں، خواہ وہ ترکی میں ہیں، ایران میں ہیں، عراق میں ہیں، لبنان میں ہیں، اسی طرح چیچنیا بوسلیا میں، اور یہ جو آزاد ریاستیں ہیں آذربائجان اور تاجکستان ان سب کے ساتھ بہت گہرا رابطہ قاضی حسین احمد مرحوم کا بھی اور مولانا شاہ محموررانی اور علامہ ساجد نقوی صاحب ان سب کا ایک اچھا رابطہ رہا اور انہوں نے یہ اصول بنایا کہ "درد مشترک اور قدر مشترک" یعنی جو امت کا مشترکہ درد ہے اس کو ہدف منائیں اور جو قدر مشترک ہے اس میں جمع ہو جائیں۔ ظاہر ہے اتحاد سے یہ مراد نہیں تھا اور ہوتا بھی نہیں ہے کہ کوئی اپنا مسلک چھوڑ کے دوسرا مسلک اپنا لے چونکہ یہ تو انضمام ہوتا ہے اشتراک نہیں ہوتا۔ انہوں نے مشترک فیہ مسائل کو چونکہ پاکستان کی فضا میں یا بلکہ اہل سنت اور شیعہ کے درمیان میں سمجھتا ہوں 95 فیصد مشتركات ہیں اور 5 فیصد فروعی مسائل ہیں اور کچھ عقائد کے مسائل ہیں، ان میں اختلافات ہیں وگرنہ 5 فیصد مشترکات ہیں اور اس کی لسٹ بھی ہم نے بنائی ہوئی ہے کہ کون کون سے مشترکات ہیں؟ کون کون سے مختلف فیہ مسائل ہیں؟ ان پہ بڑی قوت سے اور بہت بھرپور طریقے سے کام ہوا اور میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پوری دنیائے اسلام میں جتنے بھی اسلام ممالک ہیں اس جیسا بڑا فورم کہیں نہیں بنا۔ ہاں، ایران میں اتحاد و وحدت کی بہت اچھی فضا ہے، عراق میں فضا ہے، لبنان میں فضا ہے لیکن ہمارے جو مطالعہ ہے پاکستان میں سب سے بڑا فورم سنی شیعہ کا، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ان سب کا سب سے بڑا متحدہ فورم پاکستان میں موجود ہے۔ جو پاکستان جس نے پاکستان کی سلامتی اور امن میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ان شاءاللہ کر رہے ہیں۔
میں یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ سال 2002ء میں تمام بزرگان نے یہ سوچا کہ ملی یکجہتی کونسل اپنی جگہ پہ برقرار ہے لیکن اس سے چونکہ لوگوں کا جو استقبال تھا، لوگوں کی جو توجہ تھی اس کی طرف اور زیادہ رجحان تھا اور خوش ہوئے لوگ تو بزرگان نے فیصلہ کیا کہ الگ سیاسی فورم بھی بنایا جائے اس بنا پر "متحدہ مجلس عمل" کے نام انہی چھ جماعتوں نے ایک فورم بنایا۔ چھ جماعتیں جس میں " مولانا شاہ محموررانی کی جمیعت علماء پاکستان، علامہ ساجد نقوی صاحب کی اسلامی تحریک پاکستان، جمعیت علماء اسلام سمیع الحق گروپ، جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ، پروفیسر ساجد میر صاحب کی مرکزی جمعیت اہل حدیث اور قاضی حسین احمد صاحب کی جماعت اسلامی" یہ چھ جماعتیں ہیں جنہوں نے مل کر ایک فورم بنایا کہ ہم سیاست میں کردار ادا کریں گے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب وہ فورم بنا اور پورے پاکستان میں اس نے کام شروع کیا تو بہت ہی کم عرصے میں ان کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ 2002ء کا جو قومی الیکشن تھا اس میں پہلی دفعہ اسلامی قوت نے قومی اسمبلی میں 68 سیٹیں حاصل کیں اور میں یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ اس کی بنیاد وہی ملی یکجہتی کونسل تھی، وہ جو محبتیں، بھائی چارہ، اخوت، اتحاد و وحدت قائم ہوئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے اعتماد کا اظہار کیا اور جب سے پاکستان بنا قومی اسمبلی میں پہلی دفعہ 68 سیٹیں حاصل کیں۔ خیبر پختونخواہ میں حکومت ہماری بنی، ہمارا متحدہ مجلس عمل کا وزیراعلی تھا۔ بلوچستان کی حکومت میں بھی ہماری مکمل شراکت داری تھی اور اس کے نتیجے میں سینٹ میں بھی بہت سے ممبران آگئے۔ تو اس سے یہ ظاہر ہوا اور دشمنوں نے بھی دیکھا دوستوں نے بھی دیکھا کہ یہ ایک ایسا فورم بنا جس میں تمام اسلامیان پاکستان اکٹھے ہو گئے۔
دیکھیں ہمیشہ شریعت بل لانے پہ اختلاف ہوتا ہے لیکن وہ واحد دور تھا جب خیبر پختونخواہ میں صوبائی اسمبلی نے شریعت بل "حسبہ بل" کے نام سے لائے۔ حسبہ بل انہوں نے بنایا، مرتب کیا اور پھر علامہ ساجد نقوی صاحب کے پاس بھیجا اور کہا کہ شیعہ نقطۂ نظر جو ہے وہ اس میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے اس میں بعض تبدیلیاں کی اور اس کے بعد صوبائی اسمبلی پیش ہوا اور وہاں پاس ہو گیا۔ البتہ وہ تو پھر ظاہر ہے وفاق اور مرکز میں نہ ہونے کی وجہ سے قانون تو نہیں بن سکا لیکن یہ اتحاد و اتفاق کا نشانی ہے کہ وہ بل وہاں پاس ہو گیا کہ جس بل پہ ہمیشہ مرکز میں اختلاف رہتا تھا۔ تو یہ یہ اتنی بڑی قوت بن کے ہم ابھرے اور اس کے بعد پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، یہ 2008ء میں بھی۔ پھر ابھی 2018ء میں بھی ایم ایم اے کا پلیٹ فارم ز ندہ رہا۔ یہی چھ جماعتیں تھیں۔ پھر چونکہ 2002ء کے الیکشن کے چند سال بعد ہی مولانا شاہ احمد نورانی صاحب وفات پا گئے اور اس کے بعد قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے امیر تھے۔ جب وہ امارت انہوں نے چھوڑی تو انہوں نے ملی یکجہتی کونسل کی سربراہی سنبھال لی۔ اس کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے کیونکہ ان کا ایک اپنا ذہن تھا، بین الاقوامی سطح میں جو امت اسلامیہ کے جو وہ رابطہ میں تھے، وہ اور علامہ سید ساجد نقوی صاحب نے بھرپور انداز میں چلائی اور اسلام آباد، جناح کنونشن سنٹر میں ایک بڑی کانفرنس کی جس میں پوری دنیا کے مسلمان نمائندے وہاں آئے ہوئے تھے اور یہ سارے بزرگان شریک تھے۔ اس میں مولانا سمیع الحق صاحب، فضل الرحمن صاحب، علامہ ساجد نقوی صاحب اور یہ سارے اور اس میں امت کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا۔ تو اس کے بعد پھر قاضی صاحب فوت ہو گئے تو پھر ان کے بعد جو وقفہ درمیان میں جو ایک سال ان کا رہتا تھا اس میں علامہ ساجد نقوی صاحب ملی یکجہتی کونسل کے عبوری سربراہ بن گئے تو بعد میں بھی تمام شیعہ سنی جماعتوں کی خواہش تھی علامہ ساجد نقوی صاحب سے کہ آپ آ جائیں اور آپ ہی مستقل صدر بن جائیں لیکن علامہ صاحب نہیں مانے اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اہل سنت سے کوئی معتدل آدمی ہی اس کا صدر بنے تاکہ یہ اتحاد اچھے انداز میں چلتا رہے تو الحمدللہ ابھی تازہ 23 اکتوبر 2024ء کو ملی یکجہتی کونسل کے انتخابات ہوئے ہیں اور اس میں مرکزی صدر جمیعت علماء پاکستان کے سربراہ حضرت صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر زبیر صاحب بنے ہیں اور سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ صاحب جو جماعت اسلامی کے نائب امیر بھی ہیں۔ الحمدللہ سینیئر نائب صدر علامہ سید ساجد نقوی صاحب ہیں اور مجھے بھی سعادت نصیب ہوئی ہے کہ مرکزی نائب صدر مجھے بنایا گیا اور بہت اچھی ٹیم باقی بنائی گئی ہے۔ تو یہ فعالیت الحمدللہ جا رہی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جتنے ایشوز آئے، یہ فرقہ واریت کے مسائل ہوں یا کشمیر کا مسئلہ ہو، فلسطین کا مسئلہ ہو، غزہ کا مسئلہ ہو وغیرہ ہم نے مل کر ہمیشہ پریس کانفرنسیں کی ہیں اور اپنا بھرپور موقف بیان کیا یعنی ہم جو موقف دیتے ہیں اللہ کا شکر ہے وہ وہ پوری امت کا موقف ہوتا ہے، چونکہ ہم امت کے حالات عالمی سطح پر مد نظر رکھتے ہیں، جب پریس کانفرنس کرتے ہیں، جب اعلامیہ دیتے ہیں تو خدا کا شکر ہے یہ کام پوری قوت سے جاری ہے۔ اب بہت اچھے انداز میں نئی ٹیم بنی اور ان شاءاللہ پہلے سے بہتر کام بھرپور قوت کے ساتھ جاری رہے گا۔
آپ کا تبصرہ