حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بیت الصلوٰۃ اے ایم یو میں مرحوم پروفیسر شاہ محمد وسیم کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی؛ مجلسِ عزاء سے مولانا سید قنبر علی رضوی نے خطاب کیا۔
مولانا سید قنبر رضوی نے مرحوم پروفیسر شاہ محمد وسیم کی خصوصیات زندگی و بندگی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کی پسندیدہ کتاب جس سے وہ اپنے آپ کو وابستہ رکھتے تھے وہ نہج البلاغہ ہے۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش و سعی رہتی تھی کہ کسی طرح ذکر علی علیہ السّلام ہو جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نہج البلاغہ سے واقف ہونا اور اس کے ذریعے معرفتِ حضرت علی ابن ابو طالب علیہ السّلام حاصل کرنا ضروری ہے؛ مرحوم پروفیسر شاہ محمد وسیم جب کلاس لیتے تب بھی طلباء و طالبات کو امام علی علیہ السّلام کے علم، سادگی، عاجزی، عدل و انصاف کے حوالے سے ایک دو لفظ سے آشنا کرواتے تھے کہ یہی محاصل تعلیم و تربیت ہے۔
مولانا قنبر رضوی نے کہا کہ ڈاکٹر شاہ محمد عباس صاحب کے والد محترم نے ایک عظیم مرتبت و مشہور زمانہ یونیورسٹی میں متعدد عہدوں پر رہ کر خدمات انجام دیں؛ بہت سے تشنگانِ علوم کو اور طلباء کو اپنے علوم کے مطابق فیضیاب و سیراب کیا اور منبر سے ذکر محمد و آل محمد علیہم السّلام کیا اور نہج البلاغہ کا تعارف کروایا، ان کی جدائی نا قابلِ تلافی نقصان ہے۔ ڈاکٹر محمد عباس صاحب، ان کے گھرانے کے افراد اور معاشرے پر فرض ہے کہ مرحوم کے علم، کردار و عمل کے عکاس بنیں۔
مولانا نے صدق، حق، حقیقت اور صداقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حق صداقت کا محتاج نہیں، بلکہ عدالت محتاج ہے۔ ابن حدید متزلی کہتے ہیں کہ لوگ صفتوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور صفتیں آپ کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ یا علی علیہ السّلام ہم نے صفتوں کو ہمیشہ موصوف پر حاوی پایا؛ مطلب یہ ہوا کہ صدق و عدل بڑا ہے اور عادل چھوٹا ہے، کیونکہ عادل سچ بولنے والے کو کہتے ہیں اور اس پیمانے پر بہت سے سچے مل جاتے ہیں۔ سچ بولنے والا سچا نہیں ہے۔ عدالت پر وہ ہے کہ جو جھوٹ کبھی نہ بولے۔









آپ کا تبصرہ