حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کے قیام کی ایک صدی مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقدہ کانفرنس کے تناظر میں، دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے فضلاء سے سلسلہ وار گفتگو اور مضامین جوان طلاب اور عام معاشرے میں آگاہی کے لیے شائع کیے جا رہے ہیں۔
یہ رپورٹ حوزہ علمیہ قم کی صد سالہ تاسیس کی مناسبت سے شعبہ معیشت کی جانب سے حجت الاسلام والمسلمین شفیعی نژاد کی زبانی پیش کی جا رہی ہے۔
أعوذ بالله من الشیطان الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین
و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین
معاشیات کے میدان میں فقہائے کرام کی دیرینہ توجہ کا مرکز فقہ المعاملات کا مسئلہ رہا ہے؛ ایسا موضوع جو براہ راست اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل، اقتصادی قوانین کے لیے مواد کی تیاری اور مختلف نظاموں، ذیلی نظاموں، ماڈلز اور ڈھانچوں کے ڈیزائن پر مؤثر رہا ہے۔
فقہ المعاملات نے بینکنگ، سرمایہ منڈی، لیبر مارکیٹ، اشیاء کی مارکیٹ اور دیگر اقتصادی میدانوں میں بہت نمایاں اور مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ اس تناظر میں کچھ بنیادی اور کلی معاشی مسائل دینی مدارس میں زیر بحث آئے ہیں جنہیں اب آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
علم معیشت کی عمومی تعریف کے مطابق یہ انسانی اقتصادی رویے کا تجزیہ کرتا ہے جو پیداوار، تقسیم اور استعمال کے تین اہم شعبوں میں انجام پاتا ہے۔ تاہم یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ رائج اقتصادیات مخصوص معرفتشناسی، وجودیاتی اور انسانشناسی جیسی بنیادوں پر قائم ہے۔ اور جب یہ بنیاد تبدیل ہو جائے تو ہم ایک مختلف فکری، فلسفی اور فقہی اصولوں کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔

شہید بزرگوار، علامہ سید محمد باقر صدر نے اپنی معروف کتاب "اقتصادنا" میں اسلامی معیشت کا ایک جامع ڈھانچہ اور بنیادی ساخت بیان کی۔ انہوں نے اس نظام کے مختلف شعبوں میں ایسے فریم ورک فراہم کیے جو بعد کے محققین کے لیے راہگشا ثابت ہوئے، خواہ وہ دینی مدارس سے ہوں یا علمی اقتصادی انجمنوں سے۔ ان کے بعد آنے والے محققین نے شہید کے اس راستے کو جاری رکھا اور اسلامی معیشت کے اہم مسائل کو وسعت دی اور بہتر طور پر واضح کیا۔
دینی مدارس کے جوان طلباء اور فاضل اساتذہ جو اس میدان میں تعلیم، تدریس اور تحقیق میں مصروف ہیں، ان مضامین کی تالیف میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں اور اسلامی فقہ اور اقتصادی مسائل کے درمیان تعلق کے کئی مبہم یا کم واضح پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ تحقیقات اب تکمیل اور حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔
امید ہے کہ ان عزیزوں کی کوششیں اور مجاہدتیں اسلامی معیشت کے علم کی ترقی میں مؤثر ثابت ہوں گی اور ان کے ثمرات اقتصادی پالیسی سازی، متعلقہ قوانین کی تقنین کے عمل اور قومی سطح پر اقتصادی پالیسیوں کے نفاذ میں کارآمد ہوں گے۔
ان شاء اللہ۔









آپ کا تبصرہ