حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید سید مصطفی خمینی نہ صرف فقه و اصول میں صاحبِ رائے تھے بلکہ فلسفہ میں بھی ان کا مطالعہ نہایت عمیق تھا۔ ان کے تالیفات، حواشی اور علمی تقریرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے علوم حوزوی کے ہر میدان میں مباحث کو انتہا تک پہنچا کر مضبوط علمی نتائج اخذ کیے۔
آپ کا ذہن نہایت تجزیاتی تھا۔ کسی مسئلے پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے اور پھر نتیجہ پیش کرتے۔ نجف کے ایک فاضل نے ان کے بارے میں کہتے ہیں: "میں نے اپنی زندگی میں کسی کو ایسا نہیں دیکھا جس کے کلام میں اس قدر ذہنی حاضری اور فکری انسجام ہو۔ ان کا ہر نکتہ اپنے مقام پر اور بیان بالکل مطمئن، بے تردّد اور واضح ہوتا تھا۔" ان کی یہی خصوصیت آپ کو دیگر شاگردانِ امام میں بھی ممتاز بناتی تھی۔
حاج آقای مصطفی خمینی اپنی اصولی بنیادوں پر بہت ثابت قدم تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر کسی کی علمی بنیادیں متزلزل ہو جائیں تو اس کا علم بھی غیر معتبر ہوجاتا ہے۔ اسی لیے وہ کبھی اپنے اصول سے نہ ہٹتے اور گفتگو میں بھی انہی علمی بنیادوں کا لحاظ رکھتے۔

جب طلبہ ان سے سوالات کرتے تو ان کے جوابات ہمیشہ ان ہی مضبوط فکری اصولوں کی روشنی میں ہوتے۔ اسی وجہ سے علمی حلقوں میں معروف تھا کہ حاج آقا مصطفی علمی مباحث میں دقیق، منظم اور صابر ہیں لیکن عقیدتی یا فکری انحراف کے مقابلے میں نہایت قاطع اور بے مصلحت رویہ اختیار کرتے ہیں۔
اہل علم کے نزدیک حاج آقای مصطفی واقعی صاحبِ رائے، محقق اور علمی استقلال رکھنے والی شخصیت تھے۔ اگرچہ وہ امام خمینی (رہ) اور دیگر اکابرین کے ممتاز شاگرد تھے مگر نظریات کی تحلیل و تحقیق میں وہ نہ مقلد تھے نہ وابستہ، بلکہ دلائل کی بنیاد پر آزادانہ مؤقف پیش کرتے تھے۔ یہ مقام و مقبولیت انہیں نسبتِ خانوادگی سے نہیں بلکہ علم، استدلال اور فکری استقلال سے حاصل ہوئی۔









آپ کا تبصرہ